بلوچ قوم کے کچھ قبائل پہلا حصہ
پنجاب خاص کر سندھ میں ان کی کثیر تعداد آباد ہے، لیکن یہ مغربی بلوچستان میں بالکل نہیں پایا جاتا ہے
بگٹی: یہ قبیلہ بلوچستان میں سندھ اور پنجاب کے سنگم پر آباد ہے، تاہم پنجاب خاص کر سندھ میں ان کی کثیر تعداد آباد ہے، لیکن یہ مغربی بلوچستان میں بالکل نہیں پایا جاتا ہے، مگر ایرانی بلوچستان کی وادی بگٹ میں یہ مختصر تعداد میں ملتے ہیں۔ اس سے ان کے اس دعویٰ کو تقویت ملتی ہے کہ اس قبیلہ کا نام اس وادی کے نام سے بگٹی پڑا اور یہ اپنے آپ کو رند کہتے ہیں۔
ہتو رام کا کہنا ہے کہ بگٹی اپنے آپ کو خاندان رند عالی کی اولاد پہلوان زائی عالیانی لغاری سے ملحق سمجھ کر کہتے ہیں کہ بیاعث اپنے بگ بوقت حلب سے آنے کے اس پارہ کا نام بگٹی تھا، میر جلال خان کے چوالیس پاروں میں ایک پارہ بگٹی تھا، لیکن میر گل خان نصیر کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے تو بلوچی لہجہ میں یہ کلمہ بگٹانی ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے اس کی تنظیم و تشکیل مشرقی بلوچستان ہوئی اور یہیں سے یہ بلوچ اتحاد میں شامل ہوا۔
پیرک زئی:پیرک زئی خاران کے قدیم ترین باشندے بتائے جاتے ہیں اور عرب قبضہ کے وقت اس علاقہ میں وارد ہوئے تھے۔ جوں جوں نوشیروانی اقتدار بڑھتا گیا، پیرک زئیوں کا اقتدار گھٹتا گیا، حتیٰ یہ محض ایک قبائلی گروہ بن گیا۔جمالی:جمالی کچھی کے رندوں کا سب سے بڑا طائفہ، جنھیں رندوں کا برائے راست جانشین کہا جاتا ہے۔
دامنی:کیپٹن وہپ ویر نے دامنیوں کا حال یوں بیان کیا ہے کہ یہ ایرانی سرحد پر آباد قبیلہ ہے اور تعداد کے لحاظ سے سرحد کا مضبوط ترین قبیلہ ہے، شبانی بلوچ : شکل و شباہت، عادت و اطوار اور رسم و رواج میں بلوچستان کے مریوں سے بہت مشابہ اور ان سے خونی رشتہ دار ہونے کا دعویدار ہے ۔
قبائلی روایت کے مطابق مریوں کی ایک شاخ بہت قرن پہلے سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر سرحد کی سطح مرتفع میں آبسی۔ کیوں کہ یہ علاقہ ان کی جنم بھومی سے ملتا جلتا تھا۔ دریشک:پکولین کا کہنا ہے کہ بلوچوں کے اصلی قبیلوں میں سے ایک ہے جس کا ذکر قدیم نظموں میں ملتا ہے۔ یہ قبیلہ دریشک کو اپنا بانی کہتا ہے جو رندوں کی اولاد میں سے ہے۔
ڈیمز کا خیال ہے کہ ان کا قبائلی نام دیزک کے نام سے تعلق رکھتا ہے جو مکران میں ایک جگہ کا نام ہے۔ دریشک ڈیرہ غازی خان کے علاقہ میں آباد ہیں، اس کے علاوہ سبی میں بھی آباد ہیں۔اور دریشک قبیلہ ضلع راجن پور میں مضبوط اور طاقتور قبیلہ مانا جاتا ہے،دریشک قبیلہ سکھرسندھ میں بھی کافی تعداد میں آباد ہے۔
ڈومبکی:مشرقی بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں بھی آباد ہیں۔ تاہم ایرانی بلوچستان میں دریائے ڈومبک کے کنارے ان کی کچھ آبادی ملتی ہے اور یہ اپنی نسبت بھی دریائے ڈومبک سے کرتے ہیں۔ڈومبکی جو رند نسل کے مدعی ہیں اور اپنا شجرہ نسب میر چاکر تک لے جاتے ہیں۔ ایک پیشہ ور ذات جو افغانستان سے لے کر برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہتے ہیں ہم ڈومکی نہیں ہیں بلکہ ڈومبکی ہیں۔
ریکی:ریکی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ریگستانوں یا نشیبی زمینوں کے باسی ہیں۔ ان کے تین حصہ ہیں۔ میر جاوا کے ریکی، ماشخیل کے ریکی اور چالک کے ریکی۔ ان سب کا مورث مشترکہ تھا۔ریکی رخشانیوں میں شامل ہیں اور رخشانی ہی سمجھے جاتے ہیں، ان کی پہچان ان کے اپنے مخصوص نام سے ہے۔ روایت کے مطابق وہ رخشانی رند ہیں، جو سواد اعظم سے علیحدہ ہوکر دریائے ماشکیل کے اطراف کے ریگ زاروں میں رہ گئے۔ لہٰذا ان کا نام ریکی یا مرد ریگ پر گیا۔ وہ عرب النسل کا دعویٰ کرتے ہیں اور آنحضرت کے چچا کو اپنا مورث بتاتے ہیں۔
کوہی: وہ رند ماخذ کے دعویدار ہیں اور نوشکی کے جمال الدینوں کے ہم نسل ہیں اور ایک مشترکہ مورث مندو کی اولاد ہیں۔کوچائی:یہ اپنے کوسنگھور (سُنگر) کہتے ہیں، جو کئی پشتیں پہلے کہوڑی (قلات) سے کیچ آئے تھے۔سنگھور یا سُنگر:سنگھور (سُنگر) ایک بڑا قبیلہ ہے جو ساحل پر واقع میانی سے مکران تک مغرب میں ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ بلوچ سنگھوروں کے برعکس وہ رخشانیوں سے یگانیت بتاتے ہیں، لیکن زرعی مشاغل کی طرف ان کا قدرتی رجحان جدگالی ماخذ کا غماز معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ۔ پہلے بچے کا نام بھی سنگھور رکھا گیا۔
سانگ (شادی یا منگنی) گھور (سمندری سے نکالنے والا سیپی)۔یعنی شادی کرنے سے ایک سیپی (Limpet) کا جنم ہوا۔ سنگھور (سُنگر)بلوچوں میں نام بھی ہے۔واضح رہے کہ رخشانی ایک اتحاد محض ایک اتحاد ہے اس کا اہم قبیلہ ماندائی ہے۔ جو نوشکی کے حکمران کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا سردار، سردار خطی خان ماندائی نے بادشاہ ہمایوں کو پناہ دیکر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔سندھ میں سنگھور اپنے اصلی گھر سے قلات کی طرف ہجرت کرگئے اور بہت عرصہ تک وہیں رہے۔
پندرہویں صدی میں جب میر چاکر خان رند نے قلات پر قبضہ کیا تو اس قبضے کے خلاف میر بجار میروانی نے قلات کا قبضے دوبار حاصل کرنے کے لیے حملہ کر دیا اور اس جنگ میں سنگھور قبائل نیمیر بجار میروانی کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں خان آف قلات کو کامیابی حاصل ہوئی اور میر بجار میروانی پہلا خان آف قلات منتخب ہوئے۔علاوہ ازیں مختلف ادوار میں بے شمار دیگر جنگوں میں سنگھور قبائل نے خان آف قلات کے ساتھ دیتے رہے۔
ان جنگوں میں ساتھ دینے کے عوض میں خان آف قلات نے میر کنہر سنگھور (اول) کو کیچ کا سردار چنا۔ خان آف قلات سلیمان داؤد کا کہنا ہے کہ سنگھور ہمارے بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے خونی رشتے ہیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ سنگھور دراصل قیازئی رند ہیں۔ یہ رندوں کا ذیلی شاخ ہے۔
بعض مورخوں کا خیال ہے کہ سنگھورقبائل کے ہوت قبائل کے ساتھ خونی رشتے ہیں۔ جب پرتگزیوں نے سہولویں صدی میں بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران پر قبضے کے لیے حملہ کیا۔ جہاں میرحمل کلمتی حاکم تھا جو اپنی بہادری،ذہانت اور اپنے قوم وسرزمین سے محبت ووفا کی وجہ سے گرانقدر شخصیت کے مالک تھے،پرتگیز ی جنوبی امریکا، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء پر قابض ہونے کے بعد جب بلوچستان کے اس ساحل پر حملہ آور ہوئے تو سنگھور قبائل نے کلمت کے مقام پر پرتگیزیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ان کے حملوں کو پسپا کیا۔
اس جنگ کے عوض میں کلمتی ہوتوں نے سنگھور قبائل کو کلمت (پسنی، بلوچستان) کا پورا علاقہ تحفہ میں دیدیا۔ آج بھی کلمت میں نوے فیصد سنگھور قبائل آباد ہیں جب کہ دس فیصد کلمتی ہوت آباد ہیں۔
سنگھور قبائل کے بے شمار ذیلی شاخ ہیں۔ سنگھور، کیچ، آواران، پسنی، گوادر، اور ماڑہ، گریشگ، خضدار، مستونگ، چاغی، خاران، قلات، لسبیلہ، گڈانی، موالی، حب، لیاری، ملیر، ماری پور، ہاکس بے, محب علی سنگور گوٹ گھوٹھ شیرعلی سنگور لال بکھر، مبارک ولیج سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہیں۔
سنجرانی:سنجرانی رند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دیمز کا کہنا ہے کہ سنجرانی یا طوقی متفقہ طور پر ایک اہم قبیلہ سمجھے جاتے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق قبیلے کا بانی سنجر خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے رندوں کے سواد اعظم سے علیحدہ ہو گیا اور سترہ قرن پہلے چاغی آگیا۔ قبیلہ کا اولیں مصدقہ شجرنسب جان بیگ اول سے شروع ہوتا ہے جو چھ قرن پہلے زندہ تھا۔ سنجرانیوں کے تحت طوقیوں کے بے شمار چھوٹے چھوٹے قبیلے ہیں جو سنجرانی سردار کے زیر چاغی کے مغرب میں ایران تک پھیلے ہوئے ہیں۔
سر پرہ:یہ قبیلہ جزواً بلوچ اور جزواً افغان ماخذ کا ہے۔ قدیم تر حصہ شہاوانی کا ہے، جو شہدا نامی ابن داوَد رند کی اولاد ہیں، جو تیرہ قرن پہلے رہتا تھا۔ عمرانی: عمرانی عمر برادر غزن ابن علی کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو میر جلال خان کا ایک بیٹا بتایا جاتا ہے۔ ایم ایل ڈیمز کا خیال ہے وہ بلیدیوں کی طرح بلوچ وفاق میں پانچ حصوں کی تشکیل کے بعد شامل ہوئے ہیں۔طوقی:طوقیوں کا نام غالباً قلعہ طوق سے پڑا ہے، جیسے تیمور نے سیستان سے بست کی طرف کوچ کرتے ہوئے فتح کیا تھا۔(جاری ہے۔)
ہتو رام کا کہنا ہے کہ بگٹی اپنے آپ کو خاندان رند عالی کی اولاد پہلوان زائی عالیانی لغاری سے ملحق سمجھ کر کہتے ہیں کہ بیاعث اپنے بگ بوقت حلب سے آنے کے اس پارہ کا نام بگٹی تھا، میر جلال خان کے چوالیس پاروں میں ایک پارہ بگٹی تھا، لیکن میر گل خان نصیر کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے تو بلوچی لہجہ میں یہ کلمہ بگٹانی ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے اس کی تنظیم و تشکیل مشرقی بلوچستان ہوئی اور یہیں سے یہ بلوچ اتحاد میں شامل ہوا۔
پیرک زئی:پیرک زئی خاران کے قدیم ترین باشندے بتائے جاتے ہیں اور عرب قبضہ کے وقت اس علاقہ میں وارد ہوئے تھے۔ جوں جوں نوشیروانی اقتدار بڑھتا گیا، پیرک زئیوں کا اقتدار گھٹتا گیا، حتیٰ یہ محض ایک قبائلی گروہ بن گیا۔جمالی:جمالی کچھی کے رندوں کا سب سے بڑا طائفہ، جنھیں رندوں کا برائے راست جانشین کہا جاتا ہے۔
دامنی:کیپٹن وہپ ویر نے دامنیوں کا حال یوں بیان کیا ہے کہ یہ ایرانی سرحد پر آباد قبیلہ ہے اور تعداد کے لحاظ سے سرحد کا مضبوط ترین قبیلہ ہے، شبانی بلوچ : شکل و شباہت، عادت و اطوار اور رسم و رواج میں بلوچستان کے مریوں سے بہت مشابہ اور ان سے خونی رشتہ دار ہونے کا دعویدار ہے ۔
قبائلی روایت کے مطابق مریوں کی ایک شاخ بہت قرن پہلے سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر سرحد کی سطح مرتفع میں آبسی۔ کیوں کہ یہ علاقہ ان کی جنم بھومی سے ملتا جلتا تھا۔ دریشک:پکولین کا کہنا ہے کہ بلوچوں کے اصلی قبیلوں میں سے ایک ہے جس کا ذکر قدیم نظموں میں ملتا ہے۔ یہ قبیلہ دریشک کو اپنا بانی کہتا ہے جو رندوں کی اولاد میں سے ہے۔
ڈیمز کا خیال ہے کہ ان کا قبائلی نام دیزک کے نام سے تعلق رکھتا ہے جو مکران میں ایک جگہ کا نام ہے۔ دریشک ڈیرہ غازی خان کے علاقہ میں آباد ہیں، اس کے علاوہ سبی میں بھی آباد ہیں۔اور دریشک قبیلہ ضلع راجن پور میں مضبوط اور طاقتور قبیلہ مانا جاتا ہے،دریشک قبیلہ سکھرسندھ میں بھی کافی تعداد میں آباد ہے۔
ڈومبکی:مشرقی بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں بھی آباد ہیں۔ تاہم ایرانی بلوچستان میں دریائے ڈومبک کے کنارے ان کی کچھ آبادی ملتی ہے اور یہ اپنی نسبت بھی دریائے ڈومبک سے کرتے ہیں۔ڈومبکی جو رند نسل کے مدعی ہیں اور اپنا شجرہ نسب میر چاکر تک لے جاتے ہیں۔ ایک پیشہ ور ذات جو افغانستان سے لے کر برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہتے ہیں ہم ڈومکی نہیں ہیں بلکہ ڈومبکی ہیں۔
ریکی:ریکی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ریگستانوں یا نشیبی زمینوں کے باسی ہیں۔ ان کے تین حصہ ہیں۔ میر جاوا کے ریکی، ماشخیل کے ریکی اور چالک کے ریکی۔ ان سب کا مورث مشترکہ تھا۔ریکی رخشانیوں میں شامل ہیں اور رخشانی ہی سمجھے جاتے ہیں، ان کی پہچان ان کے اپنے مخصوص نام سے ہے۔ روایت کے مطابق وہ رخشانی رند ہیں، جو سواد اعظم سے علیحدہ ہوکر دریائے ماشکیل کے اطراف کے ریگ زاروں میں رہ گئے۔ لہٰذا ان کا نام ریکی یا مرد ریگ پر گیا۔ وہ عرب النسل کا دعویٰ کرتے ہیں اور آنحضرت کے چچا کو اپنا مورث بتاتے ہیں۔
کوہی: وہ رند ماخذ کے دعویدار ہیں اور نوشکی کے جمال الدینوں کے ہم نسل ہیں اور ایک مشترکہ مورث مندو کی اولاد ہیں۔کوچائی:یہ اپنے کوسنگھور (سُنگر) کہتے ہیں، جو کئی پشتیں پہلے کہوڑی (قلات) سے کیچ آئے تھے۔سنگھور یا سُنگر:سنگھور (سُنگر) ایک بڑا قبیلہ ہے جو ساحل پر واقع میانی سے مکران تک مغرب میں ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ بلوچ سنگھوروں کے برعکس وہ رخشانیوں سے یگانیت بتاتے ہیں، لیکن زرعی مشاغل کی طرف ان کا قدرتی رجحان جدگالی ماخذ کا غماز معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ۔ پہلے بچے کا نام بھی سنگھور رکھا گیا۔
سانگ (شادی یا منگنی) گھور (سمندری سے نکالنے والا سیپی)۔یعنی شادی کرنے سے ایک سیپی (Limpet) کا جنم ہوا۔ سنگھور (سُنگر)بلوچوں میں نام بھی ہے۔واضح رہے کہ رخشانی ایک اتحاد محض ایک اتحاد ہے اس کا اہم قبیلہ ماندائی ہے۔ جو نوشکی کے حکمران کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا سردار، سردار خطی خان ماندائی نے بادشاہ ہمایوں کو پناہ دیکر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔سندھ میں سنگھور اپنے اصلی گھر سے قلات کی طرف ہجرت کرگئے اور بہت عرصہ تک وہیں رہے۔
پندرہویں صدی میں جب میر چاکر خان رند نے قلات پر قبضہ کیا تو اس قبضے کے خلاف میر بجار میروانی نے قلات کا قبضے دوبار حاصل کرنے کے لیے حملہ کر دیا اور اس جنگ میں سنگھور قبائل نیمیر بجار میروانی کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں خان آف قلات کو کامیابی حاصل ہوئی اور میر بجار میروانی پہلا خان آف قلات منتخب ہوئے۔علاوہ ازیں مختلف ادوار میں بے شمار دیگر جنگوں میں سنگھور قبائل نے خان آف قلات کے ساتھ دیتے رہے۔
ان جنگوں میں ساتھ دینے کے عوض میں خان آف قلات نے میر کنہر سنگھور (اول) کو کیچ کا سردار چنا۔ خان آف قلات سلیمان داؤد کا کہنا ہے کہ سنگھور ہمارے بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے خونی رشتے ہیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ سنگھور دراصل قیازئی رند ہیں۔ یہ رندوں کا ذیلی شاخ ہے۔
بعض مورخوں کا خیال ہے کہ سنگھورقبائل کے ہوت قبائل کے ساتھ خونی رشتے ہیں۔ جب پرتگزیوں نے سہولویں صدی میں بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران پر قبضے کے لیے حملہ کیا۔ جہاں میرحمل کلمتی حاکم تھا جو اپنی بہادری،ذہانت اور اپنے قوم وسرزمین سے محبت ووفا کی وجہ سے گرانقدر شخصیت کے مالک تھے،پرتگیز ی جنوبی امریکا، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء پر قابض ہونے کے بعد جب بلوچستان کے اس ساحل پر حملہ آور ہوئے تو سنگھور قبائل نے کلمت کے مقام پر پرتگیزیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ان کے حملوں کو پسپا کیا۔
اس جنگ کے عوض میں کلمتی ہوتوں نے سنگھور قبائل کو کلمت (پسنی، بلوچستان) کا پورا علاقہ تحفہ میں دیدیا۔ آج بھی کلمت میں نوے فیصد سنگھور قبائل آباد ہیں جب کہ دس فیصد کلمتی ہوت آباد ہیں۔
سنگھور قبائل کے بے شمار ذیلی شاخ ہیں۔ سنگھور، کیچ، آواران، پسنی، گوادر، اور ماڑہ، گریشگ، خضدار، مستونگ، چاغی، خاران، قلات، لسبیلہ، گڈانی، موالی، حب، لیاری، ملیر، ماری پور، ہاکس بے, محب علی سنگور گوٹ گھوٹھ شیرعلی سنگور لال بکھر، مبارک ولیج سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہیں۔
سنجرانی:سنجرانی رند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دیمز کا کہنا ہے کہ سنجرانی یا طوقی متفقہ طور پر ایک اہم قبیلہ سمجھے جاتے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق قبیلے کا بانی سنجر خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے رندوں کے سواد اعظم سے علیحدہ ہو گیا اور سترہ قرن پہلے چاغی آگیا۔ قبیلہ کا اولیں مصدقہ شجرنسب جان بیگ اول سے شروع ہوتا ہے جو چھ قرن پہلے زندہ تھا۔ سنجرانیوں کے تحت طوقیوں کے بے شمار چھوٹے چھوٹے قبیلے ہیں جو سنجرانی سردار کے زیر چاغی کے مغرب میں ایران تک پھیلے ہوئے ہیں۔
سر پرہ:یہ قبیلہ جزواً بلوچ اور جزواً افغان ماخذ کا ہے۔ قدیم تر حصہ شہاوانی کا ہے، جو شہدا نامی ابن داوَد رند کی اولاد ہیں، جو تیرہ قرن پہلے رہتا تھا۔ عمرانی: عمرانی عمر برادر غزن ابن علی کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو میر جلال خان کا ایک بیٹا بتایا جاتا ہے۔ ایم ایل ڈیمز کا خیال ہے وہ بلیدیوں کی طرح بلوچ وفاق میں پانچ حصوں کی تشکیل کے بعد شامل ہوئے ہیں۔طوقی:طوقیوں کا نام غالباً قلعہ طوق سے پڑا ہے، جیسے تیمور نے سیستان سے بست کی طرف کوچ کرتے ہوئے فتح کیا تھا۔(جاری ہے۔)