فیصلے کے بعد

خوف کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات کا ذرا سنجیدہ تجزیہ ایک بار پھر کیا جائے


[email protected]

ہماری عدلیہ نے گزشتہ پون صدی میں جو جو کچھ کیا ہے، اس کے زخموں سے ہمارا جسم رس رہا ہے لیکن اس کے باوجود غیر جانب داری کا پردہ کسی نہ کسی درجے موجود رہا ہے۔

حالیہ چند برس ماضی کے مقابلے میں اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ یہ پردہ بھی نہ صرف اٹھ گیا بلکہ اس کے اٹھانے میں کوئی جھجھک بھی محسوس نہیں کی گئی۔ یہ سلسلہ 2017 میں پاناما کیس سے شروع ہوا اور آرٹیکل 63 اے کی توضیح کی آڑ میں آئین میں تحریف سے ہوتا ہوا پنجاب اسمبلی میں انتخابات کے ضمن میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس تک پہنچا۔

ان مقدمات میں جو کچھ ہوا، ایسا نہیں کہ عوام اس سے لاتعلق تھے، وہ بالکل پریشان تھے اور محسوس کرتے تھے کہ یہ سلسلہ جو شروع ہوا ہے، قومی سطح پر کسی نئی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر اس تانا شاہی کا انجام کیا ہو گا؟

پنجاب اسمبلی ازخود نوٹس کیس میں جو طریقے اختیار کیے گئے اور اس سلسلے میں برادر ججوں کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا، اونٹ کی پشت پر تنکا ثابت ہوا اور وہ ردعمل سامنے آگیا ہے' جس نے پنڈورا باکس کھول دیا۔ اس مقدمے کے مختلف مراحل پر مختلف ججوں نے جو فیصلے اور اختلافی نوٹ جاری کیے ، انھوں نے چیف صاحب کے فیصلے کی کمزوریوں اور تضادات کو بے نقاب کر دیا۔

پچھلے دنوں جسٹس اطہر من اللہ نے جو اختلافی نوٹ جاری کیا ہے، اس نے بھاگنے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔ اس کے نتیجے میں چند مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلے یہ سوالات:

1۔کیا وہ ادارہ جاتی انتظام آج بھی زندہ، طاقت ور اور متحرک ہے جو 2014 میں بروئے کار آیا اور نام نہاد انتخابی عمل کے ذریعے عمران خان کی قیادت میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہا؟

2۔ 2022کی حزب اختلاف جو آئین شکنی جیسے ہتھ کنڈے کا سامنا کرنے کے بعد اپنی عددی قوت کے زور پر اقتدار میں آئی تھی، اب بے دم ہو چکی ہے اور اب وہ آخری سانسیں لے رہی ہے؟

3۔وہ ریاستی قوتیں جنھوں نے سیاسی امور سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا تھا، کیا اپنے عہد سے پھر چکی ہیں؟

یہ تین سوالات بنیادی ہیں اگرچہ مختلف انداز فکر رکھنے والے ذہن مزید سوالات بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور کچھ ضمنی سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن اگر ان تین سوالات پر ہی توجہ مرکوز کر لی جائے تو اندازہ ہے کہ ایک ایسے نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے جس کی مدد سے موجودہ بحران کی نوعیت کو سمجھنا بھی ممکن ہے اور اس سے نجات کا راستہ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس بحران سے نجات کا راستہ کیا ہے؟

اس حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل مناسب ہو گا کہ ان اسباب کو سمجھ لیا جائے جن کی وجہ سے ان لوگوں نے سیاست سے لا تعلق ہونے کا فیصلہ کیا جو اس سے کبھی لا تعلق نہیں ہوئے تھے۔ اس کے لیے ہمیں عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کے غیر سیاسی طرزِ عمل، عاقبت نا اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ملک نا قابل تصور مشکلات کا شکار ہو گیا، مستقبل قریب میں جس سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وہ خوفناک حقائق تھے جن کے باعث کبھی عبرت نہ پکڑنے والوں نے عبرت پکڑی۔

ملک میں اس وقت جس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور سیاسی و غیر سیاسی اداروں کے درمیان تصادم دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ سے گاہے خیال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو لا تعلقی کا فیصلہ ختم ہو چکا ہے یا کوئی ایسی قوت اب بھی موجود ہے جو عدلیہ ہو یا کوئی دوسرا ادارہ، اسے طاقت فراہم کر کے عدم استحکام کا ذریعہ بن رہا ہے۔یہ عدم استحکام کیا نتائج پیدا کر رہا ہے یا پیدا کر سکتا ہے؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو اس قسم کی صورت حال کی طرف جان بوجھ کر یعنی کسی منصوبے کے تحت لے جا رہا ہے یا یہ کسی طبقے کی ایسی سرگرمی ہے جو کسی خوف کے باعث سب کچھ داؤ پر لگانے پر تلا ہوا ہے؟یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی ،خاص طبقہ اپنے مفادات کا اتنا اسیر ہو جائے کہ وہ ان کے سامنے ملک کو ہی داؤپر لگا دے، اس لیے فطری طور پر یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی بنیاد ایک خوف سے پھوٹتی ہے۔یہ خوف کیا ہے؟

خوف کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات کا ذرا سنجیدہ تجزیہ ایک بار پھر کیا جائے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں کچھ اعترافات کیے تھے۔ یہ اعترافات ایک بڑی کوشش کی بنیاد تھے یا بنیاد بن سکتے تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ عمران خان کو لانے کے لیے انھوں نے اپنے اور اپنے ادارے کے اختیارات سے تجاوز کیا۔ یہ خطاب ایک طرح سے اعتراف تھا اور شعوری طور پر ملک کو سچائی اور مفاہمت کے دور میں داخل کرنے کی کوشش تھی۔

پاکستان کی سیاسی قوتوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور سیز فائر کر دیا۔ جنرل باجوہ کی اس سیز فائر کے بارے میں ہمارے تجزیہ کار اور اسٹار اینکر جب سوال اٹھاتے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ پیش رفت ان کے سر سے گزر گئی یا وہ ملک کو ایک بہتر راستے کی طرف گامزن ہونے سے روکنے کے درپے ہیں۔ خیر یہ بات تو بر سبیل تذکرہ درمیان میں آگئی لیکن ایک طبقہ ایسا تھا جو اس نئے اور مبارک راستے کی راہ میں مزاحم تھا۔یہ کون سا طبقہ تھا، اس کی شناخت پر وقت ضایع کرنے کے بجائے بہتر ہو گا کہ اقبال سے مدد لی جائے جنھوں نے کہہ رکھا ہے ؎

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تو بات یہ ہے کہ نئی راہ پر چلنے میں ایک فطری رکاوٹ ہوتی ہے جس کا ارتکاب بعض لوگ بے سوچے سمجھے کر دیتے ہیں، بعض کو مفادات اس راہ پر چلنے سے روکتے ہیں اور بعض کو اپنے جرائم کا نتیجہ مزاحم کر دیتا ہے۔ پاکستان آج اسی چیلنج سے دوچار ہے لیکن خاطر جمع رکھیں جیسے عرض کیا ہے، اس زہر کا اینٹی ڈوٹ خود اس کے اندر موجود ہے اور اس کی اثر پذیری شروع ہو چکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں