قومی سلامتی کمیٹی اور دہشت گردی کا چیلنج 

یہ جو سیاسی عدم استحکام یا سیاسی ٹکراو یا سیاسی دشمنی کا ماحول ہے اس تقسیم کا دہشت گردوں نے کافی فائدہ اٹھایا

salmanabidpk@gmail.com

پاکستانی ریاست کے لیے دہشت گردی سے نمٹنے کا چیلنج نیا نہیں اور اس میں کئی اہم کامیابیوں کے باوجود یہ چیلنج آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

دہشت گردی سے جڑی لڑائی کسی سیاسی تنہائی میں تو نہیں لڑی جائے گی اور اس کی کامیابی کا بڑا درآمدار مختلف فریقین کے ساتھ مل کر حکمت عملی کو وضع کرنا اور بغیر کسی تضاد یا پسند و ناپسند کی تفریق کے شفافیت کے ساتھ اس جنگ کا مقابلہ کرنا ہے ۔

حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی نوعیت کا تھا۔اس اجلاس میں حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا گیا وہیں اس سے نمٹنے کی مختلف حکمت عملیوں کو بھی وضع کیا گیا۔

قومی سلامتی کمیٹی میں ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن کے بقول ٹی ٹی پی کو پاکستان دشمن عناصر کی طرف سے غیر ملکی فنڈنگ مل رہی ہے جس کی بنیاد پر دہشت گردی کے عمل میں شدت پیدا کی جارہی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں نے نہ صرف ریاستی اداروں پر یا اہلکاروں پر یا عام آدمی کو نشانہ بنا کر ریاست پر دباو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

ٹی ٹی پی کی طاقت وہ غیر ملکی امداد ، پناہ گاہیںاورمدد ہے وگرنہ اس کے بغیر ان کی طاقت وہ نہیں جو ہمیں بظاہر نظر آتی ہے۔ یہ لوگ اسلام او رجہاد کا نام لے کر اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی سے ماضی میں ہم مزاکرات کی حکمت عملی کو بھی اختیار کرتے رہے ہیں مگر اس کے مثبت نتائج نہیں مل سکے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب اس نقطہ پر زور دیا جارہا ہے کہ ہمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کا نرم رویہ یا بات چیت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اب قومی سلامتی کے ادارے بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔


اسی طرح یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کو بنیاد بنا کر خواتین اور بچوں کو بھی دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں او ران کو مختلف بہانوں سے ورغلا کر ان کی منفی سوچ کے ساتھ ان کی ذہن سازی بھی کی جارہی ہے ۔ان میں بی ایل ایف جیسی کالعدم تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک خاتون کو خود کش جیکٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا او راس نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ اس کا خاوند بی ایل ایف کا ممبر ہے۔ اسی طرح گلزار امام کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کا بانی ہے۔

اسی طرح جس خوفناک انداز سے ریاستی اداروں اور سیکیورٹی اداروں پر سوشل میڈیا پر جو منفی مہم چل رہی ہے اس کے لیے بھی مختلف حکمت عملی پر غور کیا گیا او راس پر جو کمیٹی بنائی گئی ہے اسے دوہفتوں کا وقت دیا گیا تاکہ وہ حتمی حکمت عملی سامنے لاسکے ۔یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ حالیہ جو دہشت گردی کی نئی لہر سامنے آئی ہے یا دہشت گردوں نے دوبارہ خود کو منظم کیا یا کاروائیاں کی ہیں اس کی بڑ ی وجہ ملک میں جاری سیاسی بحران یا ہیجانی کیفیت ہے۔

یہ جو سیاسی عدم استحکام یا سیاسی ٹکراو یا سیاسی دشمنی کا ماحول ہے اس تقسیم کا دہشت گردوں نے کافی فائدہ اٹھایا اور اپنی رٹ کو سامنے لاکر ریاستی رٹ کو چیلنج کیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں، سنیئر فوجی قیادت او رنوجوانوں نے اس دہشت گردی کی جنگ کا خوب مقابلہ کیا او راپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا مگر سیاسی اور معاشی بحران سمیت یہاں جو حکمرانی یا گورننس کا عملی بحران ہے وہ دہشت گردوں کی بڑی طاقت بن رہا ہے ۔ کیونکہ جہاں بھی سیاسی او رمعاشی انتشار ہوگا اس کا براہ راست فائدہ ان غیر ریاستی قوتو ں کو ہوتا ہے جو ریاست کو کمزو رکرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

جو قوتیں , افراد یا گروہ باہر کے ممالک کی مدد سے پاکستان کو کمزو ر کرنے کا عملی کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ان کے بارے میں بھی ہم بہت کچھ نہیں کرسکے ۔نیشنل سیکیورٹی پالیسی جیسا اہم دستاویز بھی سیاسی بحران اور داخلی سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہوگیا ہے ۔اسی طرح اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمارا سارا انحصار فوجی قیاد ت یا انٹیلی جنس اداروں کی حد تک محدود ہے اور سیاسی قیادت سمیت دیگر ادارہ جاتی نظام اس دہشت گردی کی جنگ کی قیادت کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ سمجھنا کہ اس جنگ کو محض ایک ادارے یعنی فوج نے ہی لڑنا اورجیتنا ہے, ممکن نہیں ہوگا۔

اس لیے اگر ہم نے دہشت گردی کی جنگ جیتنی اور ملک کو پرامن ریاست میں تبدیل کرنا ہے تو اول سیاسی قیادت کو چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں اس جنگ کی سیاسی قیادت یعنی لیڈ کرنا ہوگی ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مختلف نوعیت کے داخلی , علاقائی اور عالم کی سطح موجود داخلی تضادات او رحکمت عملیوں میں موجود ابہام سے باہر نکلنا ہوگا۔ اب وقت ہے کہ ہمیں اچھے یا برے دہشت گردکی تمیز سے باہر نکلنا ہے اور جو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے یا دہشت گردی کا کوئی بھی جواز پیش کرتا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
Load Next Story