10 اپریل

ہمیں جو آئین ملا ،وہ10 اپریل کو ملا وہ دن ہم نہیں مناتے، پھر ہم نے آئین کو بھی روند ڈالا

Jvqazi@gmail.com

کبھی ہم نے اس انداز سے سوچا ہے کہ ہماری تاریخ میں سب سے بڑا دن کون سا ہے ؟ آیا وہ 14اگست ہے جس دن پاکستان آزاد ہوا تھا؟ یا وہ 23 مارچ 1940ہے جب مسلمانان ہندنے مطالبہ کیا تھا کہ ان کو علیحدہ وطن دیا جائے یا پھر 10 اپریل ہے 1973 کہ جب ہم پاکستان بننے کے26 سال بعد ایک متفقہ مسودہ یعنی آئین دینے میں کامیاب ہوئے، وہ آئین جو ہندوستان نے آزادی کے دو سال کے اندر ہی دے دیا تھا اور بنگلہ دیش نے ایک سال کے اندر۔ اس ماڈرن تاریخ میں شاید ہی کوئی ہم جیسا بدنصیب ملک ہوگا جس نے آئین دینے میں اتنی دیر کی۔

کوئی بھی آزادی حقیقی آزادی نہیں کہی جاسکتی جب تک اس آزادی کے بعد سے متفقہ مسودہ یعنی آئین نہ بنا ہو۔ انگریز نے ہمیں Indian Independence act 1947 دیاکہ ہندوستان اور پاکستان اب جائو اور اپنا آئین خودبنائو۔ 1954 میںہم نے جو آئین تشکیل دیا اس میں بھی انسانی حقوق کی شقیں واضح نہیں تھی اور جو آئین جنرل ایوب نے اس قوم کو دیا وہ بھی ادھورا تھا، یوں دونوں آئین ٹوٹ گئے اور آخر کار آدھا ملک گنوا کے ہم نے 10 اپریل 1973 کو اس آزاد جمہوری ریاست کو ایک مکمل آئین دیا۔

آئین در اصل وہ آئین ہی نہیں ہوتا جوکہ تمام مذاہب، قومیت، رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے متفقہ طور پر نہ بنایا جائے۔ اس لیے پاکستان کو آئین دینے میں جتنا بڑا کردارذوالفقارعلی بھٹو کا ہوسکتا ہے، اتنا ہی بڑا کردار ولی خان اور دوسری حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے والوں کا ہے، پھر اٹھارویں ترمیم جس نے آئین بھرپور کیا اس لیے کہ اس نے وفاق کو مضبوط کیا۔

یہ بات مجھے یوں سمجھ آئی جیسا کہ شاعر کہتا ہے ''تم آئے تو آیا مجھے یاد گلی میں آج چاند نکلا'' جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دس اپریل کو آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے حوالے سے پارلیمنٹ ہال میں چلے آئے۔ دس اپریل کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہندوستان کی چھبیس جنوری کو سمجھیں ۔جب ہندوستان کا آئین معروض وجود میں آیا،ایک ایسا پروجیکٹ جس کو ڈاکٹر ایمبیدکر لے کے چلے تھے۔ یہ وہ دن تھا جب Government of India Act 1935ختم ہوا تھا، جب dominion of india ، ریپبلک آف انڈیا بنا تھا۔

26جنوری کو ہندوستان آزاد ہوا تھا ان کی کیلکیولیشن کے مطابق ۔ ان کے حساب سے 15 اگست کو تو ہندوستان dominion بنا تھا اور ہم تو 1973 تک dominion of pakistan ہی رہے۔ غالبا ہندوستان کے پاس ان کا سب سے بڑا دن ''پرنا سوراج'' ہے اور وہ ہے 26 جنوری 1950۔ جس کا تسلسل ہے 26 جنوری 1929 کو لاہور کانگریس کے اجلاس کا جب کانگریس نے آزادی مانگی تھی۔ ہندوستان میں سب سے بڑا دن پندرہ اگست نہیں بلکہ چھبیس جنوری ہے۔

ہم نے 10 اپریل کو کبھی اہم سمجھا ہی نہیں۔ چلو اچھا ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں آئے، ان کے آنے سے بہت شور و غل مچا ،مختلف باتیں ہوئیں، لیکن جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کا وقار تھے۔ سرخم رہے، بیٹھے رہے اس پارلیمنٹ میں جہاں آئین بنا تھا ۔ آج بازار میں پہ بہ جولاں کی طرح ، چشم نم جان شوریدہ کی طرح، تہمتیں عشق پوشیدہ کی طرح۔ جب بازار سے گذریں گے لوگ کچھ نہ کچھ تو کہیں گے نہ، وہ کسی بات کا جوابدہ نہیں، وہ جوابدہ ہے جو اس نے اپنی تقریر میں کہا تھا ۔


سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا کیا نہ کیا،ابھی کل ہی کی تو بات ہے ، جو کام ٹرپل ون بریگیڈ کرتی تھی، وہ کام آئین کی غلط تشریح کرکے کیا گیا ۔ یہ سب کچھ عمران خان کو اقتدار دلانے کے لیے کیا گیا، اب جو معاشی بربادی سامنے آئی ہے، سمجھ آتی ہے کہ یہ ہائبرڈ نظام تو جنرل مشرف کی آمریت سے بھی بدتر تھا، جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا تسلسل تھا، یہ سب کچھ کورٹ کے فیصلوں سے ہوا، جس میں کسی کو اس مرتبہ نظریہ ضرورت نظر نہ آیاجب کہ یہ کام ان نظریہ ضرورت کے فیصلوں سے بھی بدتر تھا۔

اس لیے کہ نظریہ ضرورت مانتا تھا کہ ''چونکہ آئین میں شب خوں مارنے کی شق نہیں، ہاں مگر حالات اس نہج کو پہنچ چکے تھے کہ ایسا کرنا مجبوری ٹھہرا۔'' یہاں اقامہ کا فیصلہ اس طرح نہیں ہوا مگر وہ کام شب خوں والا ہی کررہا تھا اور اس سے بھی بدتر۔

ہمیں جو آئین ملا ،وہ10 اپریل کو ملا وہ دن ہم نہیں مناتے، پھر ہم نے آئین کو بھی روند ڈالا، کبھی 58(2)(b) ڈال کے، کبھی اس کو مفلوج کرکے۔ ہمیں جس شخص نے آئین دیا، جس سپریم کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ میل رکھا ، اسی سپریم کورٹ نے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا، اک ایسا داغ جس کا قرضہ آج تک ہم اپنے وجود سے اتارا نہیں سکے کہ سپریم کورٹ وہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا miscarriage of justice تھا ۔ ہم جس طرح آئین سے انحراف کرتے رہے۔آئین کی غلط تشریح کرکے اس کو مسخ کرتے رہے، ہم نے یہ بھی کیا کہ آرٹیکل 63 کو خود ری رائٹ کرکے ایک ایسی شکل دی جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے بھی تصادم میں ہے۔

آرٹیکل وہ ہوتا ہے جو clear ہو، معروضی ہو، ٹھوس قانونی و آئینی بنیادیں رکھتا ہو۔ ہمارے آئین میں جو آفاقی حقیقتیں ہیں، جو قانون کی سائنسی بنیادیں ہیں، اور جن اجزا سے تشکیل ہوا ہے، بلاشبہ اس میں ہمارے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی پہلو بھی درج ہیں، آرٹیکل 20جس کی ہمارے جسٹس تصدق جیلانی نے اور واضع تشریح کی اور کہا کے تمام مذاہب کے لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ سب کو اپنے مذہب اورفرقہ کی نسبت سے آزادی حاصل ہوگی کہ وہ اپنی عبادت کرے۔

ہمارے آئین کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود آئین کی تشریح کرنے والوں نے رسوا کیا اور اب ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آگے پانی ہے اور پیچھے آگ ہے۔ عدالت بمقابلہ پارلیمنٹ، بات جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ ایک طرف معاشی بحران ہے جو اس آئینی و قانونی بحران کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

آج کا سیاسی بحران آئین کی غلط تشریح کرنے کا تسلسل ہے لیکن ہماری سوئی اس بات پر اٹکی ہوئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمینٹ میں کیوں آئے؟ ہمیں پارلیمنٹ کے تقدس کا شاید پتہ ہی نہیں؟ اس سے بڑا کوئی ادارہ نہیں ۔ اوپر خدا ہے، پھر ہمارے پاس اس کا دیا ہوا قران ہے اور اس کے بعد اس ملک کا آئین۔ آئین دینے والا آئین میں ترمیم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ پارلیمنٹ ہے۔
Load Next Story