سورج پہ کمند   آخری حصہ

شرمندہ تو میں اس لیے ہوں کہ میں تو محض ایک اہل قلم ہوں، شعر کہتا ہوں، کہانیاں اور اخباری کالم لکھتا ہوں


Zahida Hina April 16, 2023
[email protected]

''سورج پہ کمند'' میں پاکستان کی سیاسی، معاشی اور نظریاتی تاریخ رقم کردی گئی ہے۔ اس کتاب کی آخری جلد میں ایک اجلاس کا ذکر ہے جس کی صدارت احمد ندیم قاسمی کر رہے تھے۔ ان کا صدارتی خطبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ''اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز دے کر آپ حضرات نے مجھے شرمندہ بھی کیا ہے اور ممنون بھی۔

شرمندہ تو میں اس لیے ہوں کہ میں تو محض ایک اہل قلم ہوں، شعر کہتا ہوں، کہانیاں اور اخباری کالم لکھتا ہوں۔ آپ لوگ سرگرمی، جدوجہد اور جوش و خروش کا مظہر ہیں۔ میں صرف سوچ اور فکرکا نمایندہ ہوں، بس اتنا ہے کہ میں اس سوچ اور فکر کو مجہول اور لایعنی قرار دیتا ہوں جس کا عمل اور عقل سے کوئی رشتہ نہ ہو، شاید فکر کے اسی عملی پہلو کی رعایت سے آپ نے مجھے اتنا بڑا اعزاز بخشا ہے۔

میں آپ کا ممنون اس لیے ہوں کہ بحیثیت ایک فنکار جب بھی جیتی جاگتی زندگی سے میرا سابقہ پڑتا ہے، میرے اندر رہنے اور زندگی سے محبت کرنے کے جذبات جوانی کی سی شدت سے ابھرتے ہیں اور یہ کہنے کی تو شاید ضرورت نہیں کہ آپ نوجوان طلباء جیتی جاگتی زندگی کا بلیغ ترین نمونہ ہیں۔ یوں مجھے آپ کے درمیان کچھ وقت گزار کر زندگی کا نیا ولولہ ہاتھ آیا ہے۔''

آج کی نوجوان نسل بلکہ پچاس سال یا اس سے کچھ زیادہ عمر کے زیادہ تر لکھے پڑھے لوگوں اور صحافیوں کو پاکستان میں صحافیوں کی اس ملک گیر تحریک کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں ہوگا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں شروع ہونے والی یہ بے مثال تحریک 14 اپریل 1970 سے 24 اپریل 1970 تک جاری رہی۔ ان دس دنوں کے دوران پاکستان میں کوئی اخبار شایع نہیں ہوا۔ اس وقت آمریت کے خلاف جو مزاحمتی تحریک ملک کے دونوں حصوں میں چل رہی تھی اس میں صحافیوں کی یہ تحریک بلاشبہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔

اس تحریک کے حوالے سے اشرف شاد لکھتے ہیں ''پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی قیادت میں برپا ہوئی جس کی بنیاد پاکستان کے مختلف علاقوں میں قائم صحافی تنظیموں بشمول پنجاب یونین آف جرنلسٹس، کراچی یونین آف جرنلسٹس اور ایسٹ پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے الحاق سے 2 اگست 1950 کو کراچی میں رکھی گئی تھی۔

اپنے قیام کے پہلے دن سے پی ایف یو جے نے نہ صرف پاکستانی صحافیوں کے معاشی مطالبات کے لیے جدوجہد کی بلکہ ہر دور میں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا اور پاکستانی عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ 1970 کی تحریک کے موقع پر مشرقی پاکستان کے خوندکر غلام مصطفی اس کے صدر اور منہاج برنا جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے جنھوں نے تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔''

پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے کم و بیش تمام ادوار کا احاطہ اس کتاب میں کیا گیا ہے اور بڑی محنت سے نادر معلومات، تصاویر اور اخبارات کے تراشے یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ایک مختصر سے کالم میں ان متنوع موضوعات کا ذکر کرنا ممکن نہیں تاہم بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کی تحریک کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ عام خیال آج بھی یہی پایا جاتا ہے کہ یہ تحریک اردو یا انگریزی زبانوں کے خلاف تھی۔

دراصل اس تحریک کا مقصد اردو اور انگریزی کے ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری اور قومی زبان کا درجہ دلوانا تھا۔ اس مسئلے کا پس منظر کتاب میں اس طرح بیان کیا گیا ہے، ''1951 میں ہونے والی پاکستان کی پہلی مردم شماری کے مطابق بنگالی مشرقی بنگال کی 98 فیصد اور پورے پاکستان کی آبادی کے 55 فیصد عوام کی زبان تھی۔

بنگلہ قومی زبان تحریک میں طلباء اور درمیانے طبقہ کی والہانہ شرکت کے پیش نظر اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس مردم شماری کے مطابق پورے ملک کی خواندہ آبادی (یعنی پڑھنے لکھنے کے قابل) میں بنگالی بولنے والے عام آبادی میں اپنے تناسب سے بھی زیادہ اکثریت رکھتے تھے۔ ملک کی کل خواندہ آبادی اس وقت 83 لاکھ تھی جس میں بنگالی بولنے والے قریباً 60 لاکھ اس آبادی کا 72 فیصد تھے۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی اردو کوواحد قومی اور سرکاری زبان بنانے کی تجویز نے قدرتی طو رپر مشرقی پاکستان میں عوامی بے چینی کو جنم دیا۔ یہ بے چینی اردو زبان کے خلاف قطعی طور پر نہیں تھی بلکہ اس کی واحد محرک یہ حقیقت تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت (جو پاکستان کی بھی اکثریتی آبادی تھی) صرف بنگلہ زبان پر دسترس رکھتی تھی، بنگلہ زبان آزادی سے قبل بھی دفتری اور عدالتی زبان اور ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج تھی اور ان کی ثقافتی پہچان تھی۔

بنگالی عوام کو خدشہ تھا کہ ان کو دکھائے گئے خودمختاری کے خواب کی نفی کے بعد، بنگلہ زبان کو اس کا جائز حق نہ ملنے کی صورت میں وہ سیاسی، اقتصادی اور معاشی پسماندگی کی اس دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہیں گے جس سے نجات پانے کے لیے انھوں نے تحریک پاکستان کی بھرپور حمایت کر کے پاکستان کے قیام کے خواب کو حقیقی تعبیر دی تھی۔''

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1972 میں موجودہ پاکستان میں مزدوروںکی تحریک کا تفصیلی ذکر بھی ''سورج پہ کمند'' میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہاب صدیقی مرحوم نے اس حوالے سے لکھا تھا ''7 جون 1972 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس دن کا سورج غروب ہوا تو اَن گنت گھرانوں کے چراغ گل ہوچکے تھے۔ مائوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور نور، منوں مٹی تلے دب چکے تھے۔ بیویوں کا سہاگ لٹ چکا تھا، مانگ اجڑ چکی تھی، بچے یتیم ہوچکے تھے۔ بھائی اور بہنوں کے دست و بازو ٹوٹ چکے تھے۔

پٹھان کالونی اور فرنٹیئر کالونی کا ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ ہر مکان سے آہ و فغاں کے نالے بلند ہورہے تھے، عورتیں بین کر رہی تھیں اور بچے، ننھے منے بچے پوچھ رہے تھے کہ ابو ناراض کیوں ہیں، بولتے کیوں نہیں؟ اب انھیں کون بتائے کہ تمہارے ابو... پیارے ابو کو عوامی حکومت اور عوامی پولیس نے سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لیے ہمیشہ کی نیند سلادیا ہے۔ موت کی اس وادی میںبھیج دیا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔''

کتاب کا ایک اہم حصہ سندھ کی ترقی پسند طلباء تنظیموں پر مشتمل ہے جس میں تمام قابل ذکر تنظیموں کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کردی گئی ہیں۔ حیدرآباد اسٹوڈنٹس اور سندھ لاء نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بارے میں پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ 1960 اور 1970 کی دہائی میں سندھی، اردو اور پنجابی بولنے والے طلباء متحد ہوکر جدوجہد کر رہے تھے۔ ایسا اتحاد بعدازاں کبھی سامنے نہیں آیا۔ سندھ ایس این ایس ایف کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔

''4 اپریل 1967کی تحریک نے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کے طالبعلموں میں سندھ کے قومی اور جمہوری حقوق کے بارے میں جدوجہد کا ایک نیا جذبہ پیدا کیا اور طالبعلموں نے حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ترقی پسند رہنمائوں سے رابطے شروع کیے کیونکہ اس وقت تک طلباء کی سطح پر اندرون سندھ کوئی او رمنظم قوت موجود نہیں تھی۔ ان رابطوں کے نتیجے میں ایک نئی طلباء تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس کا نام سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن رکھا گیا جس کے بانی کارکنان میں اردو اور سندھی بولنے والے دونوں ہی شامل تھے۔ ان بانی کارکنان میں جام ساقی، میرتھیبو، ندیم اختر، ہدایت حسین، احمد خان ملکانی، سلیم قاضی، اسلم قاضی، عزیز سومرو اور ہلال پاشا شامل تھے۔

ایس این ایس ایف کا تاسیسی اجلاس تین نومبر 1968ء کو حیدرآباد کے انڈس ہوٹل میں ہوا۔ جس کی صدارت معروف ترقی پسند رہنما شیخ عبدالمجید سندھی نے کی۔ جام ساقی کو تنظیم کا بانی صدر، ندیم اختر اور اعجاز قریشی کو نائب صدور، میر تھیبو کو جنرل سیکریٹری، شاہ محمد شاہ، مسعود پیرزادہ اور شہزادو شیخ کو جوائنٹ سیکریٹریز اور عبدالحیٔ پلیجو کو سوشل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔

تین جلدوں اور 2190 صفحات پر مشتمل ''سورج پہ کمند'' پاکستان کے طلباء کی طلسم ہوشربا ہے جسے لکھنے کے لیے حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے جانے کتنے شب و روز اور ماہ و سال گزارے اور سیکڑوں ہزاروں دوستوں کا احوال کنگھال کر رکھ دیا۔ ان صفحوں میں ہمیں طالبات کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جن میں عقیلہ اسلام، زاہدہ تقی، حمزہ واحد، شائستہ کرار (زیدی)، فاطمہ حسن، زلیخا جاوید اور مہ ناز رحمن، کے علاوہ ان گنت لڑکیاں این ایس ایف کی تحریک میں شامل ہوئیں۔

اس طلباء تنظیم میں عطیہ فیضی، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، حسینہ معین اور بعض دوسرے اہم شاعروں اور دانشوروں نے وقتاً فوقتاً شرکت کی۔ میں آخر میں اس اہم تحقیقی کاوش پر دونوں محققین کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں