تحفظ پاکستان بل
قوانین کے مؤثر اطلاق میں ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ بنیادی حقوق سلب کرلیے جائیں
KARACHI:
ہمارے حکمرانوں کا معاملہ عجب ہے۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں: لاؤڈ اسپیکرکا غلط استعمال بند ہونا چاہیے۔
کہنا تو یہ بنتا ہے کہ ہم غلط استعمال بند کریں گے۔ حاکم وقت کے لیے زبانی بیان نہیں، اس کو توکچھ کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ محترم وزیرداخلہ کے فرمودات توآب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ بھڑکتی ہے تو وہ انھی قوتوں سے رابطہ کرکے اپنا کردارادا کرنے کو کہتے ہیں، جن کے کردار کی وجہ سے ہی تو معاملہ خراب ہوا ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکریہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ طالبان کی حب الوطنی پرانھیں کوئی شک نہیں۔ عزم کمزور اورمصلحت عمل کا معیارہوجائے توسخت قوانین کے نفاذ سے امن وامان کی بگڑی صورت حال کوسدھارا نہیں جا سکتا۔
ہماری حکومتیں کچھ کرنے جوگی ہوتیں تو یقین جانیے پہلے سے موجود قوانین کاجوطومارہے وہ کافی رہتا۔ مگر نہیں، اورجب ان کی فرسٹریشن بڑھتی ہے توپھرنئے قوانین کا پشتارہ قوم کی کمر پر لاد دیتے ہیں،جیسا کہ اب تحفظ پاکستان بل کی صورت میں ہو رہا ہے، جس نے عوام، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اسے کالا قانون کہا جارہا ہے۔ اسے منی اور سول مارشل لاء سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حکومت مگرٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ ایسے قوانین جنھیں غیرمعمولی حالات کے پیش نظر منظورکرانا مقصود ہوتا ہے، اس کے واسطے وسیع پیمانے پرمشاورت ہوتی ہے، لیکن تحفظ پاکستان بل کے باب میں اس سے الٹ ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ بل اس عالم میں منظور ہوتا ہے کہ ساری اپوزیشن سراپا احتجاج ہے۔ ایوان سے وہ واک آؤٹ کرتی ہے۔اور تو اور حکومت کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی سخت ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ اس سے ہٹ کربھی یہ جماعت گلہ کرتی رہتی ہے کہ اس سے اہم قومی امور پرمشورہ نہیں کیا جاتا۔ تحریک انصاف نے اس بل پر سپریم کورٹ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے ساتھ دینے کا عندیہ دیا۔
قومی اسمبلی سے عجلت میں بل پاس ہونے کے بعد اب سینیٹ میں آیا تو اپوزیشن نے کالا قانون نامنظور کے نعرے لگائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے اسے انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رائے دی کہ اس سے سکیورٹی اداروں کو تشدد کی کھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔سینیٹ میں حکومت کی اکثریت نہیں، اور دیگرجماعتوں کے موڈ سے لگتا ہے یہ بل یہاں سے پاس نہ ہوسکے گا۔ اس صورت میں جب لگ یہ رہا ہے کہ حکومت کسی کی بات سننے کو تیارنہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بل کو پاس کرانے کی کوشش ہوگی، جہاں حکومت کو دوسو بیس اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی۔ چار کی کمی کو پورا کرنا حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کہ ہماری حکومتیں ووٹوں کی اس سے کہیں بڑی کمیوں کو ماضی میں پورا کرچکی ہیں۔اس صورت میں پھرمعاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ رواں برس جنوری میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت جبری گمشدگی کے ایک مقدمے میں واضح کر چکی ہے کہ وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا جائزہ لے گی اور آئین سے متصادم ہونے کی صورت میںاس پرفیصلہ بھی دے سکتی ہے۔
ایچ آرسی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کے بقول''سپریم کورٹ اس قانون کو دیکھتے ہوئے ملک کی صورت حال کو دیکھے گی مگرمیرے خیال میں وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی نظر سے بھی قانون کو دیکھے گی۔''چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گذشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے جج خلجی عارف حسین کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میںجو خطاب کیا اس سے بھی امید بندھتی ہے کہ اگراس ملک میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ایسی قانون سازی ہوئی تو سپریم کورٹ اسے برداشت نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا ''ملک کو دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے استحکام کے لیے متوازن رویہ اپنانا ہوگا۔ سپریم کورٹ کا مقدس فریضہ ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کرے۔ بنچ، بار اور حکومت سمیت تمام اداروں کو جمہوریت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ قومی سلامتی کے نام پرکسی کو بھی عام شہریوں کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔''
یاد رہے کہ 1997 میںنوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کو سپریم کورٹ نے متوازی عدالتی نظام قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سجاد علی شاہ سے آگے چل کرحکومت کی محاذ آرائی نے شدت اختیار کی تواس کی بنیاد میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی تھا۔ اس وقت حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بادل نخواستہ مان لیا لیکن دل سے اسے کبھی قبول نہ کیا۔ نواز شریف اپنے دل کی بات چودہ برس بعد اس وقت لبوں پرلائے، جب جنوری 2012 میں کراچی میں انھوں نے فرمایا ''کراچی میں ماضی میں امن کے لیے جوکچھ کیا اس پرکوئی شرمندگی نہیں، امن کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں، موقع ملا تو دوبارہ ایسا کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔'' اس بیان پرسب سے سخت ردعمل ایم کیوایم نے دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا'' کراچی میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بات افسوس ناک ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے، آمریت نہیں، جمہوریت میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔''
مسلم لیگ ن کے پہلے دور میںبھی سمری اسپیڈی کورٹس قائم ہوئی تھیں۔اس بابت معروف قانون دان اورپرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پبلک پراسیکیوٹراکرم شیخ نے اپنے انٹرویو میں بتایا ''1991 میں میاں صاحب نے آرٹیکل 212 میں ایک ترمیم کی تھی جس کے تحت سمری اسپیڈی کورٹس قائم کی تھیں۔ میں اس وقت ان کے قریب تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں انھوں نے جب یہ تجویزپیش کی تومیں نے مخالفت کی۔''اس سے پتا یہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہاں موجود ومیسر قوانین پراعتماد کا فقدان ہے، اور وہ ہمیشہ ان سے باہر نکل کر کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے بارے میںعام تاثریہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اس کا اختلاف رہتا ہے، جس کا واضح ترین اظہارتو ظاہر ہے بارہ اکتوبر 1999 کو ہوا لیکن یہ بات عجیب ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لیے سخت قوانین کے معاملے میں دونوں قوتوںمیں ذہنی قرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے وقت میںجب حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی خبریں بھی ہیں، حکومت ایساقانون منظور کرانے جا رہی ہے، جس کے بارے میں یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ اس کواسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے۔حکومت کی اتحادی جماعت کے رکن اسمبلی مولانا امیرزمان کے بقول'' ہم آنکھیں بند کرکے حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے، موجودہ بل ایجنسیوں کی پیداوار ہے اور ان ایجنسیوں نے مسلم لیگ ن سے کہا کہ وہ جاکراسمبلی سے یہ بل پاس کروالیں۔''
ممتازصحافی اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا خیال بھی یہی ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ سے باہربیٹھی قوتوں کے ایماء پرپاس کرایا جارہا ہے۔ اس قسم کے قوانین کو منظورکرانے کے لیے پیپلزپارٹی پربھی دباؤ پڑتا رہا ، جس کو وہ سہارگئی۔ اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس بل سے پہلے جو قوانین موجود ہیں، جن پراگرصحیح معنوں میں عمل درآمد ہوجائے تواس قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی، لیکن حکومت اس طرف آتی ہی نہیں۔ حکومت اپنی مدافعت میں موقف اختیار کرتی ہے کہ وہ تحفظ پاکستان بل کے ذریعے سے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے عمل میں تیزی لانا چاہتی ہے۔یہ بات برحق سہی لیکن حکومت کی تحویل میں بہت سے ایسے مجرم ہیں، جن کو عدالتوںسے سزائے موت ہوچکی ہے، لیکن سزا پرعملدرآمد نہیں ہورہا اور ایسا پیپلزپارٹی کے دورسے ہو رہا ہے۔ لیکن اس میں یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پالیسی کے طور پرموت کی سزا کے خلاف ہے، جب کہ مسلم لیگ کا کبھی ایسا موقف نہیں رہا۔ مسلم لیگ سزائے موت کے فیصلوں پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ یورپی یونین کی طرف سے ممکنہ پابندیوں کو قرار دیتی ہے لیکن معروف قانون دان بابرستارکا کہنا ہے کہ اصل میں طالبان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں نے لیگی قیادت کو خوف زدہ کررکھاہے۔
حکومت کو یورپی یونین کی پروا ہوتی تو تحفظ پاکستان بل کو بھی اس قدرسخت نہ بناتی، جیسا کہ اگلے روزسینیٹ میں رضاربانی نے کہا ''بل کی منظوری سے ملک کے اندرافراتفری اور بے چینی بڑھ جائے گی۔ پاکستان کے یورپی یونین اور دیگرعالمی اداروں کے ساتھ 27 ایسے معاہدے ہیں، جو اس بل سے براہ راست متاثر ہوں گے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پرنظرثانی کرے اور اس کو آئین وقانون کے مطابق بنائے۔'' تحفظ پاکستان قانون ابھی پارلیمنٹ سے تومنظورنہیں ہوا لیکن اکتوبر سے صدرمملکت کی طرف سے جاری آرڈیننس کی صورت میں روبہ عمل ہے۔ یہ سوال اٹھایاجا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے توحکومت بچھی جارہی ہے تو پھران قوانین کا اطلاق کن عناصر کے خلاف ہوگا۔ اس قانون میں شامل جن چیزوں پرسب سے زیادہ تنقید ہوئی ہے، ان میں سے ایک تو جو سکیورٹی اداروں کو شبہے کی بنیاد پرگولی مارنے کا اختیار دینا ہے، اس سے قبل وہ صرف جوابی کارروائی میں کسی پرفائرکھول سکتے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ملزم کو اگر پہلے تیس دن تک زیرحراست رکھ سکتے تھے تواب اس قانون کے بعد وہ نوے دن تک ایسا کرسکیں گے، جب کہ ان کو یہ بھی لازم نہیں کہ وہ بتائیں کہ ملزموں کو کہاں رکھا گیا ہے۔
اس بات کا دفاع حکومتی وزیرنے یوں کیا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مقام قید معلوم ہونے سے مجرموں کے ساتھی انھیں چھڑا لے گئے، اس لیے نامعلوم مقام پر انھیں رکھنے کی بات ہے، یعنی آپ جیلوں کی حفاظت کرنہیں سکتے تو اس کا حل آپ نے یہ نکالا ہے۔ فرض کریں کہ اگر کسی انتہا پسند گروپ کو کسی ادارے کے سربراہ سے شکایت پیدا ہوجائے تو وہ یہ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ کہاں بیٹھتے ہیں توبجائے انھیں تحفظ فراہم کرنے کے کیا حکومت ان کو نامعلوم مقام پرمنقل ہونے کو کہے گی؟
یہ قانون ابھی باقاعدہ طور پرپارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی آوازیں بلوچستان اور سندھ سے اٹھ رہی ہیں، اور لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس حوالے سے معاملات کو کور کرنے کے لیے تحفظ پاکستان بل کو بروئے کارلایا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ وفاق کی سطح پر تو اس کی بھرپور مخالفت کررہی ہے لیکن سندھ میں وہ درپردہ اس قانون کو مانتی ہے، جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آپ قانون کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت کرسکتے ہیں، لیکن اگر صدر مملکت اس کو جاری کردیں توپھراس کا نفاذ یکساں طور سے چاروں صوبوں پر ہوتا ہے۔ صدر ممنون حسین نے تحفظ پاکستان آرڈیننس گزرے برس اکتوبر میں جاری کیا اور پھرجنوری میں اس کی مدت میںایک سو بیس دن کا اضافہ کردیا۔ ایک بات بڑی قابل ذکر ہے کہ اس قانون کی مخالفت سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے کٹرحریف بھی کررہے ہیں۔ اس آرڈیننس پرتنقید اس لیے بھی زیادہ ہورہی ہے کہ ایسا ایک جمہوری دور میں ہورہا ہے، جب شہری آزادیوں کے لیے آواز اٹھانے کے لیے آزاد میڈیا اور متحرک سول سوسائٹی موجود ہے۔
پاکستان میں اس طرح کے قوانین پہلے بھی بنتے رہے، جیسا کہ 1952 میںsecurity of pakistan act آیا مگراس وقت آئین نہیں بنا تھا۔ اس نوع کے دوسرے قوانین بھی اس وقت بنے جب ملک میں جمہوریت نہیں تھی، اور فوجی حکمرانی تھی، اور جب آئین نہ ہویا اسے معطل کردیا جائے توپھر جو مرضی ہوتا پھرے۔ پروڈا اور ابیڈو جیسے قوانین سے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا۔ اس طرح ایوب خان کے دورمیں Maintenance of Public Order اور Defence of Pakistan Rules آیا۔ تحفظ پاکستان بل کے بارے میں اس لیے بھی زیادہ اضطراب ہے کہ ماضی میں ایسے قوانین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن کی مثالوں کی لمبی فہرست ہے، صرف دومثالیں ہم پیش کردیتے ہیں ،جس سے ظاہر ہوجائیگا کہ تحفظ پاکستان بل کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک شبہات کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک مثال تحریک پاکستان کے ممتازرہنما اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے ہونے والے ناروا سلوک کی ہے۔ دوسری بات پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پرحکومتی قبضے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دونوں کام ایوب خان کے دور میں انجام پائے۔ حسین شہید سہروری کی حب الوطنی کو جب مشکوک ٹھہراکر انھیں نظر بند کیا گیا توانھوں نے حاکم وقت ایوب خان کو طویل خط لکھا،جس سے مختصرسا اقتباس ہم درج کررہے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کا کس طریقے سے غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ حسین شہید سہروردی لکھتے ہیں:
مسٹرپریذیڈنٹ،
مجھے 30 جنوری 1962 کو گرفتارکیا گیا اور میں اس دن سے آج تک سینیٹرل جیل کراچی میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت نظربند ہوں۔ 5 فروری 1962 کو مجھے اپنی نظربندی کی''وجوہات'' موصول ہوئی تھیں۔ یہ وجوہات اس قدرمبہم اور غیرواضح ہیں کہ تردید میں کوئی معقول محضرتیارکرنے کی کوشش عبث ہوگی، میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ ملک وقوم کے لیے اپنی سابقہ خدمات کا حوالہ دے کران الزامات کی عدم صحت کی طرف اشارہ کروں۔ بایں ہمہ ان الزامات کی لغویت کتنی ہی واضح کیوں نہ ہو، میرا خیال ہے کہ میں آپ سے مخاطب ہونے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ جناب صدر، معاف کیجئے گا، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ مجھے اس قدرقریب سے جاننے کے باوجود آپ نے میری حب الوطنی کومشکوک قراردینے والے ان بیانات، کینہ آمیز اشاروں اور مبنی بردروغ الزامات کو کیسے قابل اعتنا سمجھ لیا جو یقینا آپ تک پہنچائے گئے ہوں گے۔ میرا اشارہ نظربندی کی''سرکاری وجوہات'' کی طرف نہیں ہے کیوں کہ ان وجوہات میں دیے گئے الزامات اس قدرلغواور بچگانہ ہیں کہ وہ میری نظربندی کی اصل بنیاد نہیں ہوسکتے۔
یقیناً آپ کے ذہن کو کچھ اورتہمتوں کی مدد سے زہرآلود کیا گیا ہے۔ میری گرفتاری سے اگلے روزآپ نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران میری نظربندی کی جو وجوہات بیان کی تھیں، ان میں سے ایک بھی فہرست میں شامل نہیں، جومیرے حوالے کی گئی ہے۔چناں چہ یہ واضح ہے کہ میری گرفتاری کی اصل وجوہات سرکاری طورپرمجھے مہیاکی جانے والی وجوہات سے مختلف ہیں۔ میں ان''وجوہات''کا کھوکھلا پن واضح کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی وجہ!''قیام پاکستان کے بعد سے اورخاص طور سے گذشتہ تین برسوں کے دوران آپ نے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان دشمن عناصرسے میل جول رکھا۔''
سہروردی صاحب نے ایوب خان سے استفسار کیا''جن دنوں ہم کابینہ میں رفیق کارتھے میں نے کبھی آپ کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس سے مجھے اندازہ ہوتاکہ آپ میری حب الوطنی کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔''سہروری نے اپنے طویل خط میں اپنے اوپرلگنے والے الزامات کا بڑے مدلل اندازمیں جواب دیا ہے۔آخر میں وہ ایوب خان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ''اپنے بیان کے پہلے حصے میں آپ نے کہا کہ میں ابتدائی طور پرمشرقی پاکستان کی شکست وریخت اور پھر پورے ملک کی تباہی کے درپے ہوں۔''مشرقی پاکستان کی شکست وریخت ''سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا میں اس کے حصے بخرے کرنے کی فکر میں ہوں؟یا پھرآپ کے اس بیان کے ایک دوسرے اقتباس کے مطابق مجھ سے یہ بھی بعید نہیں کہ میں نے پاکستان کے مخالفین سے مالی اعانت قبول کی ہو، نیزیہ کہ ایسے عناصرموجود ہیں جو مشرقی پاکستان کی شکست وریخت کے مقصد واحد کے لیے میراآلہ کاربننے کو تیارہیں۔ غالباًآپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کرنے کے لیے بھارت سے مالی امداد وصول کررہا ہوں۔ جناب صدر! ایک بارپھردل پرہاتھ رکھ کرکہیے اوراللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کرلے گا، اس دنیا میں یا اگلے جہاں میں،کیوں کہ اگرآپ کے یہی جذبات ہیں تو پھرمجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔''
ایوب خان نے اپنے دورمیں جس طرح سب سے قابل تکریم سیاستدان کو تنگ کیا، اس کا کچھ احوال آپ نے جان لیا۔اس دور میں ایک اور ظلم جو اس ملک کے ساتھ ہوا وہ پروگریسو پیپرز لمیٹیڈ پرحکومتی قبضہ تھا۔ پاکستان ٹائمز، امروزاورلیل ونہار نے فیض احمد فیض، مظہرعلی خان، احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن کی ادارت میں خرد افروزی کی شمع روشن کر رکھی تھی، لیکن ایوب خان کویہ سب پسند نہ آیا اور انھوں نے ایک خود ساختہ اور غیر جمہوری قانون کے تحت اس باوقارادارے کو اپنے تابع کرکے دم لیا۔ ادارے کے مالک میاں افتخارالدین پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے پی پی ایل کے حصص غیرملکی سرمائے کی مدد سے خرید کئے، اس لیے انھیں سکیورٹی ایکٹ کے تحت ضبط کرلیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ادارہ غیرملکی امداد لے کر پھر انھی کی منشاء کے مطابق پالیسی بناتا ہے جس سے پاکستان کی سالمیت کوخطرہ ہے۔ جب پاکستان ٹائمز پرقبضہ ہورہا تھا تومظہرعلی خان نے پوچھا کہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، اس کی اجازت توکوئی قانون نہیں دیتا تو انھیں بتایا گیا کہ اس سب کو قانونی بنانے کے لیے سیکیورٹی ایکٹ میں دوروز قبل ترمیم کی جاچکی ہے۔
یہ داستان بڑی دل خراش ہے۔ معروف ادیب اور صحافی مسعود اشعرکے خیال میں پی پی ایل پرقبضے سے پاکستان میں روشن خیالی کی تحریک کو سخت دھچکا لگا، جب کہ دوسری طرف لاؤڈ اسپیکر کو کھلا چھوڑدیا گیا، جس سے معاشرے میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ ہم اپنی بات لیل ونہارکے ایڈیٹرسبط حسن کی تحریرکے اس اقتباس پرختم کرتے ہیں'' ہم لوگوں کو''تحفظ پاکستان''کی خاطر سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت پکڑا گیا تھا۔ اس کالے قانون میں نہ تو ملزم کو فرد جرم ملتی ہے نہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ اسیری کی کوئی میعاد مقرر ہوتی ہے۔گرفتاری اور رہائی دونوں حکومت کی مرضی پرمنحصر ہوتی ہیں۔''
ہمارے حکمرانوں کا معاملہ عجب ہے۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں: لاؤڈ اسپیکرکا غلط استعمال بند ہونا چاہیے۔
کہنا تو یہ بنتا ہے کہ ہم غلط استعمال بند کریں گے۔ حاکم وقت کے لیے زبانی بیان نہیں، اس کو توکچھ کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ محترم وزیرداخلہ کے فرمودات توآب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ بھڑکتی ہے تو وہ انھی قوتوں سے رابطہ کرکے اپنا کردارادا کرنے کو کہتے ہیں، جن کے کردار کی وجہ سے ہی تو معاملہ خراب ہوا ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکریہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ طالبان کی حب الوطنی پرانھیں کوئی شک نہیں۔ عزم کمزور اورمصلحت عمل کا معیارہوجائے توسخت قوانین کے نفاذ سے امن وامان کی بگڑی صورت حال کوسدھارا نہیں جا سکتا۔
ہماری حکومتیں کچھ کرنے جوگی ہوتیں تو یقین جانیے پہلے سے موجود قوانین کاجوطومارہے وہ کافی رہتا۔ مگر نہیں، اورجب ان کی فرسٹریشن بڑھتی ہے توپھرنئے قوانین کا پشتارہ قوم کی کمر پر لاد دیتے ہیں،جیسا کہ اب تحفظ پاکستان بل کی صورت میں ہو رہا ہے، جس نے عوام، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اسے کالا قانون کہا جارہا ہے۔ اسے منی اور سول مارشل لاء سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حکومت مگرٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ ایسے قوانین جنھیں غیرمعمولی حالات کے پیش نظر منظورکرانا مقصود ہوتا ہے، اس کے واسطے وسیع پیمانے پرمشاورت ہوتی ہے، لیکن تحفظ پاکستان بل کے باب میں اس سے الٹ ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ بل اس عالم میں منظور ہوتا ہے کہ ساری اپوزیشن سراپا احتجاج ہے۔ ایوان سے وہ واک آؤٹ کرتی ہے۔اور تو اور حکومت کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی سخت ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ اس سے ہٹ کربھی یہ جماعت گلہ کرتی رہتی ہے کہ اس سے اہم قومی امور پرمشورہ نہیں کیا جاتا۔ تحریک انصاف نے اس بل پر سپریم کورٹ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے ساتھ دینے کا عندیہ دیا۔
قومی اسمبلی سے عجلت میں بل پاس ہونے کے بعد اب سینیٹ میں آیا تو اپوزیشن نے کالا قانون نامنظور کے نعرے لگائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی نے اسے انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رائے دی کہ اس سے سکیورٹی اداروں کو تشدد کی کھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔سینیٹ میں حکومت کی اکثریت نہیں، اور دیگرجماعتوں کے موڈ سے لگتا ہے یہ بل یہاں سے پاس نہ ہوسکے گا۔ اس صورت میں جب لگ یہ رہا ہے کہ حکومت کسی کی بات سننے کو تیارنہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس بل کو پاس کرانے کی کوشش ہوگی، جہاں حکومت کو دوسو بیس اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی۔ چار کی کمی کو پورا کرنا حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کہ ہماری حکومتیں ووٹوں کی اس سے کہیں بڑی کمیوں کو ماضی میں پورا کرچکی ہیں۔اس صورت میں پھرمعاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ رواں برس جنوری میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت جبری گمشدگی کے ایک مقدمے میں واضح کر چکی ہے کہ وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا جائزہ لے گی اور آئین سے متصادم ہونے کی صورت میںاس پرفیصلہ بھی دے سکتی ہے۔
ایچ آرسی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کے بقول''سپریم کورٹ اس قانون کو دیکھتے ہوئے ملک کی صورت حال کو دیکھے گی مگرمیرے خیال میں وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی نظر سے بھی قانون کو دیکھے گی۔''چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گذشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے جج خلجی عارف حسین کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میںجو خطاب کیا اس سے بھی امید بندھتی ہے کہ اگراس ملک میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ایسی قانون سازی ہوئی تو سپریم کورٹ اسے برداشت نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا ''ملک کو دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جمہوریت کے استحکام کے لیے متوازن رویہ اپنانا ہوگا۔ سپریم کورٹ کا مقدس فریضہ ہے کہ جمہوریت کا تحفظ کرے۔ بنچ، بار اور حکومت سمیت تمام اداروں کو جمہوریت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ قومی سلامتی کے نام پرکسی کو بھی عام شہریوں کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔''
یاد رہے کہ 1997 میںنوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کو سپریم کورٹ نے متوازی عدالتی نظام قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سجاد علی شاہ سے آگے چل کرحکومت کی محاذ آرائی نے شدت اختیار کی تواس کی بنیاد میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی تھا۔ اس وقت حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بادل نخواستہ مان لیا لیکن دل سے اسے کبھی قبول نہ کیا۔ نواز شریف اپنے دل کی بات چودہ برس بعد اس وقت لبوں پرلائے، جب جنوری 2012 میں کراچی میں انھوں نے فرمایا ''کراچی میں ماضی میں امن کے لیے جوکچھ کیا اس پرکوئی شرمندگی نہیں، امن کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں، موقع ملا تو دوبارہ ایسا کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔'' اس بیان پرسب سے سخت ردعمل ایم کیوایم نے دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا'' کراچی میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بات افسوس ناک ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے، آمریت نہیں، جمہوریت میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔''
مسلم لیگ ن کے پہلے دور میںبھی سمری اسپیڈی کورٹس قائم ہوئی تھیں۔اس بابت معروف قانون دان اورپرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پبلک پراسیکیوٹراکرم شیخ نے اپنے انٹرویو میں بتایا ''1991 میں میاں صاحب نے آرٹیکل 212 میں ایک ترمیم کی تھی جس کے تحت سمری اسپیڈی کورٹس قائم کی تھیں۔ میں اس وقت ان کے قریب تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں انھوں نے جب یہ تجویزپیش کی تومیں نے مخالفت کی۔''اس سے پتا یہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہاں موجود ومیسر قوانین پراعتماد کا فقدان ہے، اور وہ ہمیشہ ان سے باہر نکل کر کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے بارے میںعام تاثریہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اس کا اختلاف رہتا ہے، جس کا واضح ترین اظہارتو ظاہر ہے بارہ اکتوبر 1999 کو ہوا لیکن یہ بات عجیب ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لیے سخت قوانین کے معاملے میں دونوں قوتوںمیں ذہنی قرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے وقت میںجب حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی خبریں بھی ہیں، حکومت ایساقانون منظور کرانے جا رہی ہے، جس کے بارے میں یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ اس کواسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے۔حکومت کی اتحادی جماعت کے رکن اسمبلی مولانا امیرزمان کے بقول'' ہم آنکھیں بند کرکے حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے، موجودہ بل ایجنسیوں کی پیداوار ہے اور ان ایجنسیوں نے مسلم لیگ ن سے کہا کہ وہ جاکراسمبلی سے یہ بل پاس کروالیں۔''
ممتازصحافی اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا خیال بھی یہی ہے کہ اس بل کو پارلیمنٹ سے باہربیٹھی قوتوں کے ایماء پرپاس کرایا جارہا ہے۔ اس قسم کے قوانین کو منظورکرانے کے لیے پیپلزپارٹی پربھی دباؤ پڑتا رہا ، جس کو وہ سہارگئی۔ اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس بل سے پہلے جو قوانین موجود ہیں، جن پراگرصحیح معنوں میں عمل درآمد ہوجائے تواس قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی، لیکن حکومت اس طرف آتی ہی نہیں۔ حکومت اپنی مدافعت میں موقف اختیار کرتی ہے کہ وہ تحفظ پاکستان بل کے ذریعے سے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے عمل میں تیزی لانا چاہتی ہے۔یہ بات برحق سہی لیکن حکومت کی تحویل میں بہت سے ایسے مجرم ہیں، جن کو عدالتوںسے سزائے موت ہوچکی ہے، لیکن سزا پرعملدرآمد نہیں ہورہا اور ایسا پیپلزپارٹی کے دورسے ہو رہا ہے۔ لیکن اس میں یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پالیسی کے طور پرموت کی سزا کے خلاف ہے، جب کہ مسلم لیگ کا کبھی ایسا موقف نہیں رہا۔ مسلم لیگ سزائے موت کے فیصلوں پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ یورپی یونین کی طرف سے ممکنہ پابندیوں کو قرار دیتی ہے لیکن معروف قانون دان بابرستارکا کہنا ہے کہ اصل میں طالبان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں نے لیگی قیادت کو خوف زدہ کررکھاہے۔
حکومت کو یورپی یونین کی پروا ہوتی تو تحفظ پاکستان بل کو بھی اس قدرسخت نہ بناتی، جیسا کہ اگلے روزسینیٹ میں رضاربانی نے کہا ''بل کی منظوری سے ملک کے اندرافراتفری اور بے چینی بڑھ جائے گی۔ پاکستان کے یورپی یونین اور دیگرعالمی اداروں کے ساتھ 27 ایسے معاہدے ہیں، جو اس بل سے براہ راست متاثر ہوں گے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پرنظرثانی کرے اور اس کو آئین وقانون کے مطابق بنائے۔'' تحفظ پاکستان قانون ابھی پارلیمنٹ سے تومنظورنہیں ہوا لیکن اکتوبر سے صدرمملکت کی طرف سے جاری آرڈیننس کی صورت میں روبہ عمل ہے۔ یہ سوال اٹھایاجا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے توحکومت بچھی جارہی ہے تو پھران قوانین کا اطلاق کن عناصر کے خلاف ہوگا۔ اس قانون میں شامل جن چیزوں پرسب سے زیادہ تنقید ہوئی ہے، ان میں سے ایک تو جو سکیورٹی اداروں کو شبہے کی بنیاد پرگولی مارنے کا اختیار دینا ہے، اس سے قبل وہ صرف جوابی کارروائی میں کسی پرفائرکھول سکتے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ملزم کو اگر پہلے تیس دن تک زیرحراست رکھ سکتے تھے تواب اس قانون کے بعد وہ نوے دن تک ایسا کرسکیں گے، جب کہ ان کو یہ بھی لازم نہیں کہ وہ بتائیں کہ ملزموں کو کہاں رکھا گیا ہے۔
اس بات کا دفاع حکومتی وزیرنے یوں کیا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مقام قید معلوم ہونے سے مجرموں کے ساتھی انھیں چھڑا لے گئے، اس لیے نامعلوم مقام پر انھیں رکھنے کی بات ہے، یعنی آپ جیلوں کی حفاظت کرنہیں سکتے تو اس کا حل آپ نے یہ نکالا ہے۔ فرض کریں کہ اگر کسی انتہا پسند گروپ کو کسی ادارے کے سربراہ سے شکایت پیدا ہوجائے تو وہ یہ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ کہاں بیٹھتے ہیں توبجائے انھیں تحفظ فراہم کرنے کے کیا حکومت ان کو نامعلوم مقام پرمنقل ہونے کو کہے گی؟
یہ قانون ابھی باقاعدہ طور پرپارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی آوازیں بلوچستان اور سندھ سے اٹھ رہی ہیں، اور لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس حوالے سے معاملات کو کور کرنے کے لیے تحفظ پاکستان بل کو بروئے کارلایا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ وفاق کی سطح پر تو اس کی بھرپور مخالفت کررہی ہے لیکن سندھ میں وہ درپردہ اس قانون کو مانتی ہے، جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آپ قانون کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخالفت کرسکتے ہیں، لیکن اگر صدر مملکت اس کو جاری کردیں توپھراس کا نفاذ یکساں طور سے چاروں صوبوں پر ہوتا ہے۔ صدر ممنون حسین نے تحفظ پاکستان آرڈیننس گزرے برس اکتوبر میں جاری کیا اور پھرجنوری میں اس کی مدت میںایک سو بیس دن کا اضافہ کردیا۔ ایک بات بڑی قابل ذکر ہے کہ اس قانون کی مخالفت سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے کٹرحریف بھی کررہے ہیں۔ اس آرڈیننس پرتنقید اس لیے بھی زیادہ ہورہی ہے کہ ایسا ایک جمہوری دور میں ہورہا ہے، جب شہری آزادیوں کے لیے آواز اٹھانے کے لیے آزاد میڈیا اور متحرک سول سوسائٹی موجود ہے۔
پاکستان میں اس طرح کے قوانین پہلے بھی بنتے رہے، جیسا کہ 1952 میںsecurity of pakistan act آیا مگراس وقت آئین نہیں بنا تھا۔ اس نوع کے دوسرے قوانین بھی اس وقت بنے جب ملک میں جمہوریت نہیں تھی، اور فوجی حکمرانی تھی، اور جب آئین نہ ہویا اسے معطل کردیا جائے توپھر جو مرضی ہوتا پھرے۔ پروڈا اور ابیڈو جیسے قوانین سے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا۔ اس طرح ایوب خان کے دورمیں Maintenance of Public Order اور Defence of Pakistan Rules آیا۔ تحفظ پاکستان بل کے بارے میں اس لیے بھی زیادہ اضطراب ہے کہ ماضی میں ایسے قوانین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن کی مثالوں کی لمبی فہرست ہے، صرف دومثالیں ہم پیش کردیتے ہیں ،جس سے ظاہر ہوجائیگا کہ تحفظ پاکستان بل کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک شبہات کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک مثال تحریک پاکستان کے ممتازرہنما اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے ہونے والے ناروا سلوک کی ہے۔ دوسری بات پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پرحکومتی قبضے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دونوں کام ایوب خان کے دور میں انجام پائے۔ حسین شہید سہروری کی حب الوطنی کو جب مشکوک ٹھہراکر انھیں نظر بند کیا گیا توانھوں نے حاکم وقت ایوب خان کو طویل خط لکھا،جس سے مختصرسا اقتباس ہم درج کررہے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قوانین کا کس طریقے سے غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ حسین شہید سہروردی لکھتے ہیں:
مسٹرپریذیڈنٹ،
مجھے 30 جنوری 1962 کو گرفتارکیا گیا اور میں اس دن سے آج تک سینیٹرل جیل کراچی میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت نظربند ہوں۔ 5 فروری 1962 کو مجھے اپنی نظربندی کی''وجوہات'' موصول ہوئی تھیں۔ یہ وجوہات اس قدرمبہم اور غیرواضح ہیں کہ تردید میں کوئی معقول محضرتیارکرنے کی کوشش عبث ہوگی، میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ ملک وقوم کے لیے اپنی سابقہ خدمات کا حوالہ دے کران الزامات کی عدم صحت کی طرف اشارہ کروں۔ بایں ہمہ ان الزامات کی لغویت کتنی ہی واضح کیوں نہ ہو، میرا خیال ہے کہ میں آپ سے مخاطب ہونے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ جناب صدر، معاف کیجئے گا، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ مجھے اس قدرقریب سے جاننے کے باوجود آپ نے میری حب الوطنی کومشکوک قراردینے والے ان بیانات، کینہ آمیز اشاروں اور مبنی بردروغ الزامات کو کیسے قابل اعتنا سمجھ لیا جو یقینا آپ تک پہنچائے گئے ہوں گے۔ میرا اشارہ نظربندی کی''سرکاری وجوہات'' کی طرف نہیں ہے کیوں کہ ان وجوہات میں دیے گئے الزامات اس قدرلغواور بچگانہ ہیں کہ وہ میری نظربندی کی اصل بنیاد نہیں ہوسکتے۔
یقیناً آپ کے ذہن کو کچھ اورتہمتوں کی مدد سے زہرآلود کیا گیا ہے۔ میری گرفتاری سے اگلے روزآپ نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران میری نظربندی کی جو وجوہات بیان کی تھیں، ان میں سے ایک بھی فہرست میں شامل نہیں، جومیرے حوالے کی گئی ہے۔چناں چہ یہ واضح ہے کہ میری گرفتاری کی اصل وجوہات سرکاری طورپرمجھے مہیاکی جانے والی وجوہات سے مختلف ہیں۔ میں ان''وجوہات''کا کھوکھلا پن واضح کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی وجہ!''قیام پاکستان کے بعد سے اورخاص طور سے گذشتہ تین برسوں کے دوران آپ نے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان دشمن عناصرسے میل جول رکھا۔''
سہروردی صاحب نے ایوب خان سے استفسار کیا''جن دنوں ہم کابینہ میں رفیق کارتھے میں نے کبھی آپ کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس سے مجھے اندازہ ہوتاکہ آپ میری حب الوطنی کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔''سہروری نے اپنے طویل خط میں اپنے اوپرلگنے والے الزامات کا بڑے مدلل اندازمیں جواب دیا ہے۔آخر میں وہ ایوب خان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ''اپنے بیان کے پہلے حصے میں آپ نے کہا کہ میں ابتدائی طور پرمشرقی پاکستان کی شکست وریخت اور پھر پورے ملک کی تباہی کے درپے ہوں۔''مشرقی پاکستان کی شکست وریخت ''سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا میں اس کے حصے بخرے کرنے کی فکر میں ہوں؟یا پھرآپ کے اس بیان کے ایک دوسرے اقتباس کے مطابق مجھ سے یہ بھی بعید نہیں کہ میں نے پاکستان کے مخالفین سے مالی اعانت قبول کی ہو، نیزیہ کہ ایسے عناصرموجود ہیں جو مشرقی پاکستان کی شکست وریخت کے مقصد واحد کے لیے میراآلہ کاربننے کو تیارہیں۔ غالباًآپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کرنے کے لیے بھارت سے مالی امداد وصول کررہا ہوں۔ جناب صدر! ایک بارپھردل پرہاتھ رکھ کرکہیے اوراللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کرلے گا، اس دنیا میں یا اگلے جہاں میں،کیوں کہ اگرآپ کے یہی جذبات ہیں تو پھرمجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔''
ایوب خان نے اپنے دورمیں جس طرح سب سے قابل تکریم سیاستدان کو تنگ کیا، اس کا کچھ احوال آپ نے جان لیا۔اس دور میں ایک اور ظلم جو اس ملک کے ساتھ ہوا وہ پروگریسو پیپرز لمیٹیڈ پرحکومتی قبضہ تھا۔ پاکستان ٹائمز، امروزاورلیل ونہار نے فیض احمد فیض، مظہرعلی خان، احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن کی ادارت میں خرد افروزی کی شمع روشن کر رکھی تھی، لیکن ایوب خان کویہ سب پسند نہ آیا اور انھوں نے ایک خود ساختہ اور غیر جمہوری قانون کے تحت اس باوقارادارے کو اپنے تابع کرکے دم لیا۔ ادارے کے مالک میاں افتخارالدین پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے پی پی ایل کے حصص غیرملکی سرمائے کی مدد سے خرید کئے، اس لیے انھیں سکیورٹی ایکٹ کے تحت ضبط کرلیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ادارہ غیرملکی امداد لے کر پھر انھی کی منشاء کے مطابق پالیسی بناتا ہے جس سے پاکستان کی سالمیت کوخطرہ ہے۔ جب پاکستان ٹائمز پرقبضہ ہورہا تھا تومظہرعلی خان نے پوچھا کہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، اس کی اجازت توکوئی قانون نہیں دیتا تو انھیں بتایا گیا کہ اس سب کو قانونی بنانے کے لیے سیکیورٹی ایکٹ میں دوروز قبل ترمیم کی جاچکی ہے۔
یہ داستان بڑی دل خراش ہے۔ معروف ادیب اور صحافی مسعود اشعرکے خیال میں پی پی ایل پرقبضے سے پاکستان میں روشن خیالی کی تحریک کو سخت دھچکا لگا، جب کہ دوسری طرف لاؤڈ اسپیکر کو کھلا چھوڑدیا گیا، جس سے معاشرے میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ ہم اپنی بات لیل ونہارکے ایڈیٹرسبط حسن کی تحریرکے اس اقتباس پرختم کرتے ہیں'' ہم لوگوں کو''تحفظ پاکستان''کی خاطر سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت پکڑا گیا تھا۔ اس کالے قانون میں نہ تو ملزم کو فرد جرم ملتی ہے نہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ اسیری کی کوئی میعاد مقرر ہوتی ہے۔گرفتاری اور رہائی دونوں حکومت کی مرضی پرمنحصر ہوتی ہیں۔''