آئی ایم ایف معیشت اور عوام
آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں، اب معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے، دوسری جانب آئی ایم ایف نے کہا ہے پاکستان کی مالی ضرورتوں کے پیش نظر چھ ارب ڈالرکی ضرورت ہے جس میں معاہدے کے لیے پاکستان مزید تین ارب ڈالرکی یقین دہانیاں کرائے۔
بلاشبہ پاکستان نے آئی ایم ایف معاہدے کے لیے قابل قدر پیشگی اقدامات اٹھائے ہیں، لہٰذا آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے ایک حد تک مثبت آؤٹ لک سامنے آئی ہے۔
جب کہ اس دوران آئی ایم ایف کے پروگرام سمیت کسی ملک سے کوئی بڑا پیکیج بھی نہیں ملا ، دکھائی یہ دیتا ہے کہ کچھ حد تک حکومت نے در آمدات پر پابندی اور کفایت شعاری کی مد میں زرمبادلہ جمع کیا اور کچھ عید کی آمد کے پیش نظر تارکین وطن کی جانب سے اپنے گھروں میں بھیجی گئی رقوم کی وجہ سے ملک ایک بار پھر ڈینجر زون سے باہر نکل آیا ہے، یہی سبب ہے کہ حکومت نے پرانی گاڑیوں اور موبائلوں سمیت 350 اشیاء پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔
یہ 30 فیصد اضافی ڈیوٹی فروری میں لگائی گئی تھی جس کی مدت31 مارچ کو ختم ہوگئی اور ایف بی آر نے اس میں توسیع نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں سے جو اشیاء تعیشات کی مد میں آتی ہیں ان پر ٹیکس واپس نہیں لیا جانا چاہیے، جو لوگ اپنے کتوں کو درآمدی بسکٹ کھلانے کا شوق رکھتے ہیں یقیناً وہ مہنگے داموں خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔
ایک حقیقت ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایت پر قرض کے حصول کے لیے اس کی جانب سے عائد کردہ تمام شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے ہوئے اپنے عوام کی زندگی اجیرن بنا چکا ہے لیکن حکومت کے ان پیشگی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی تشفی نہیں ہو رہی اور وہ مزید معاشی اصلاحات کی آڑ میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیے جا رہا ہے۔
پیشگی اقدامات کے تحت پاکستان سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد، لگژری اشیاء کی شرح میں 25 فیصد جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی لیوی اور بجلی کے بلوں پر بھی سرچارج کی شرح میں اضافہ کر چکا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور اس سے لامحالہ عام آدمی ہی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہو رہا۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے یوکرین کو 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ کا قرضہ دیا گیا ہے جو اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کے خاتمہ پر اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی پروا کیے بغیر اسے قرضہ جاری کیا جا رہا ہے۔
اصولی بنیادوں پر تو یوکرین کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا کہ کسی مالیاتی ادارے کی طرف سے اسے قرضہ جاری کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اسے ایک ارب ڈالر نہیں دیے جا رہے۔ اس طرح آئی ایم ایف کے تاخیری حربے اس تاثر کو ہی تقویت دے رہے ہیں کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ رکھا جائے۔
اس صورت حال کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں امریکا سے بات کی جائے گی لیکن امریکا سے اس حوالے سے کیے گئے رابطوں کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیر الجہتی کریڈیٹرز کی جانب سے 6 ارب سے 7 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی توثیق حاصل کرے تاکہ جون 2023تک کا خلا پر کیا جاسکے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایے کی اس یقین دہانی کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کے پائیداری کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زرتلافی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس سلسلے میں حکومت نے آیندہ مالی سال تک کا وعدہ کیا ہے تاکہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں تبدیلی پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے امریکا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے کے لیے راضی کرسکے لیکن پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے یہ کہہ کر کہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی معاملات پر تمام شعبوں میں حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں اس طرح کی بات چیت کے نتائج کی نشاندہی کردی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں عوام کے لیے کیا ہے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے مہنگائی، بے روزگاری اور ذلت کے عوام پر حکمرانی کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے لیے آمریت کا انتخاب کرتے ہیں جو ووٹ لینے کے بعد عوامی امنگوں سے مکمل طور پر منقطع ہوتے ہیں کوئی ممبر اپنی پارٹی کو نہیں کہتا کہ اتنی مہنگائی سے اس کے ووٹر ہلاک ہو جائیں گے بلکہ حالت یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹرز کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر پارٹی میں روسی پولٹ بیورو کی طرز پر چند مٹھی بھر افراد ملک کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں۔
معیشت اس لیے تباہ ہو رہی ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی معاشیات کا علم یا فہم نہیں ، یہ فیصلہ کرتے ہیں پھر عمل درآ مد کرتے ہیں اور پھر اس کا رد عمل دیکھتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پالیسیاں سب کی پے در پے فیل ہو رہی ہیں اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں صرف اور صرف آئی ایم ایف کی بات تسلیم کرنی ہوتی ہے آپ کی ساری معیشت کے فیصلے آئی ایم ایف کرتی ہے حکومتیں صرف ان کے واچ مین یا منشی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ملک میں مڈل کلاس طبقہ کا خاتمہ ہو چکا ہے یا تو غربت کے کچلے ہوئے لوگ ہیں یا پھر امیر ترین ہیں جو پارٹیوں سے ٹکٹ خرید کر اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ یہ سسٹم زیادہ دیر نہیں چل سکتا یہاں تک پہنچانے کے لیے سب نے برابر حصہ ڈالا ہے۔
حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف تمام شرائط منوا کر دوبارہ ا سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں جتنا سیدھا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔
پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔
اگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔
دوسری جانب امریکی خاتون سینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا سیاسی تشدد اور سیاسی تناؤ پریشان کن ہے' پاکستانی رہنماؤں کو جمہوری اور آئینی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے۔ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کے لیے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے، اس غیر یقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔
موجودہ بدترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہر صورت گریز کرنا چاہیے۔
بلاشبہ پاکستان نے آئی ایم ایف معاہدے کے لیے قابل قدر پیشگی اقدامات اٹھائے ہیں، لہٰذا آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے ایک حد تک مثبت آؤٹ لک سامنے آئی ہے۔
جب کہ اس دوران آئی ایم ایف کے پروگرام سمیت کسی ملک سے کوئی بڑا پیکیج بھی نہیں ملا ، دکھائی یہ دیتا ہے کہ کچھ حد تک حکومت نے در آمدات پر پابندی اور کفایت شعاری کی مد میں زرمبادلہ جمع کیا اور کچھ عید کی آمد کے پیش نظر تارکین وطن کی جانب سے اپنے گھروں میں بھیجی گئی رقوم کی وجہ سے ملک ایک بار پھر ڈینجر زون سے باہر نکل آیا ہے، یہی سبب ہے کہ حکومت نے پرانی گاڑیوں اور موبائلوں سمیت 350 اشیاء پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔
یہ 30 فیصد اضافی ڈیوٹی فروری میں لگائی گئی تھی جس کی مدت31 مارچ کو ختم ہوگئی اور ایف بی آر نے اس میں توسیع نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں سے جو اشیاء تعیشات کی مد میں آتی ہیں ان پر ٹیکس واپس نہیں لیا جانا چاہیے، جو لوگ اپنے کتوں کو درآمدی بسکٹ کھلانے کا شوق رکھتے ہیں یقیناً وہ مہنگے داموں خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔
ایک حقیقت ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایت پر قرض کے حصول کے لیے اس کی جانب سے عائد کردہ تمام شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے ہوئے اپنے عوام کی زندگی اجیرن بنا چکا ہے لیکن حکومت کے ان پیشگی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی تشفی نہیں ہو رہی اور وہ مزید معاشی اصلاحات کی آڑ میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیے جا رہا ہے۔
پیشگی اقدامات کے تحت پاکستان سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد، لگژری اشیاء کی شرح میں 25 فیصد جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی لیوی اور بجلی کے بلوں پر بھی سرچارج کی شرح میں اضافہ کر چکا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور اس سے لامحالہ عام آدمی ہی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہو رہا۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے یوکرین کو 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ کا قرضہ دیا گیا ہے جو اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کے خاتمہ پر اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی پروا کیے بغیر اسے قرضہ جاری کیا جا رہا ہے۔
اصولی بنیادوں پر تو یوکرین کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا کہ کسی مالیاتی ادارے کی طرف سے اسے قرضہ جاری کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اسے ایک ارب ڈالر نہیں دیے جا رہے۔ اس طرح آئی ایم ایف کے تاخیری حربے اس تاثر کو ہی تقویت دے رہے ہیں کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ رکھا جائے۔
اس صورت حال کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں امریکا سے بات کی جائے گی لیکن امریکا سے اس حوالے سے کیے گئے رابطوں کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیر الجہتی کریڈیٹرز کی جانب سے 6 ارب سے 7 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی توثیق حاصل کرے تاکہ جون 2023تک کا خلا پر کیا جاسکے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایے کی اس یقین دہانی کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کے پائیداری کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زرتلافی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس سلسلے میں حکومت نے آیندہ مالی سال تک کا وعدہ کیا ہے تاکہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں تبدیلی پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے امریکا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے کے لیے راضی کرسکے لیکن پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے یہ کہہ کر کہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی معاملات پر تمام شعبوں میں حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں اس طرح کی بات چیت کے نتائج کی نشاندہی کردی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں عوام کے لیے کیا ہے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے مہنگائی، بے روزگاری اور ذلت کے عوام پر حکمرانی کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے لیے آمریت کا انتخاب کرتے ہیں جو ووٹ لینے کے بعد عوامی امنگوں سے مکمل طور پر منقطع ہوتے ہیں کوئی ممبر اپنی پارٹی کو نہیں کہتا کہ اتنی مہنگائی سے اس کے ووٹر ہلاک ہو جائیں گے بلکہ حالت یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹرز کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر پارٹی میں روسی پولٹ بیورو کی طرز پر چند مٹھی بھر افراد ملک کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں۔
معیشت اس لیے تباہ ہو رہی ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی معاشیات کا علم یا فہم نہیں ، یہ فیصلہ کرتے ہیں پھر عمل درآ مد کرتے ہیں اور پھر اس کا رد عمل دیکھتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پالیسیاں سب کی پے در پے فیل ہو رہی ہیں اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں صرف اور صرف آئی ایم ایف کی بات تسلیم کرنی ہوتی ہے آپ کی ساری معیشت کے فیصلے آئی ایم ایف کرتی ہے حکومتیں صرف ان کے واچ مین یا منشی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
ملک میں مڈل کلاس طبقہ کا خاتمہ ہو چکا ہے یا تو غربت کے کچلے ہوئے لوگ ہیں یا پھر امیر ترین ہیں جو پارٹیوں سے ٹکٹ خرید کر اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ یہ سسٹم زیادہ دیر نہیں چل سکتا یہاں تک پہنچانے کے لیے سب نے برابر حصہ ڈالا ہے۔
حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف تمام شرائط منوا کر دوبارہ ا سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں جتنا سیدھا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔
پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔
اگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔
یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔
دوسری جانب امریکی خاتون سینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا سیاسی تشدد اور سیاسی تناؤ پریشان کن ہے' پاکستانی رہنماؤں کو جمہوری اور آئینی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے۔ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کے لیے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے، اس غیر یقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔
موجودہ بدترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہر صورت گریز کرنا چاہیے۔