معاملہ صرف رقم کی فراہمی کا نہیں
ہم آج ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں جہاں خیر کی توقع کرنے والا بے وقوف اور بے عقل ہی تصور کیا جائے گا
صوبہ پنجاب میں قبل از وقت الیکشن کروانے کا معاملہ اتنا سیدھا اور سادا بھی نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے ۔ بظاہر یہ ایک آئینی ذمے داری ہے کہ جب کوئی اسمبلی توڑ دی جائے تو 90 دنوں میں اس صوبے میں الیکشن کروانا ضروری ہے۔
جب پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے عمران خان کے حکم پر9 جنوری 2023 کو وہاں کی اسمبلی تحلیل کردی تو PTI کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ فوراً نئے انتخابات کروائے جائیں۔
وفاقی حکومت کے ٹال مٹول پر معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ایک سوموٹو لے لیا اور فوری سماعت شروع کردی۔ اس پانچ رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے ایک حکم صادر فرمایا کہ صدر مملکت کی طرف سے تجویز کردہ تاریخ پر فوری الیکشن کروایا جائے۔
عدلیہ نے اس سلسلے میں آئینی پابندی کا بھی بڑے واضح طور پر ذکر کیا۔30 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی ۔ بات اسی تاریخ تک محدود نہیں رہی اور اب یہ 14 مئی ہوچکی ہے۔ حکومت وقت نے ان انتخابات کے لیے بہت سے مسائل پیش کیے جنھیں عدالت تسلیم کرنے سے انکارکیا۔ 21 ارب روپے سے ایک ایسے متنازعہ الیکشن کروا دیے جائیں جن سے سیاسی استحکام ختم ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوجائے۔
سارے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک صوبے میں آج الیکشن کروانا اور باقی سارے ملک میں 8 اکتوبر کو الیکشن کروانا نجانے کس طرح مسائل کے حل میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا کرنا ایک ایسے مسئلہ کو جنم دے گا جو ہر پانچ سال بعد نئے انتخابات کرواتے وقت قوم کے لیے مشکل پیدا کردے گا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس ساری مشق کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ جب ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں جہاں ایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کی اہمیت اور اس کی آئینی حیثیت کو کسی خاطر میں نہ لائے اور صرف اپنے فیصلوں پر عملدرآمد چاہتا ہو وہاں کسی بحران کے حل اور سیاسی استحکام قائم ہونے کی توقع رکھنا عبث معلوم ہوتا ہے۔
یہ انارکی اور تباہی کو گلے لگانے کے مترادف سمجھا جاتاہے۔ ہم آج ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں جہاں خیر کی توقع کرنے والا بے وقوف اور بے عقل ہی تصور کیا جائے گا۔
معاملہ صرف 21 ارب روپے کی فراہمی کا نہیں ہے کہ چلو وفاقی حکومت نے فراہم نہیں کیے تو گورنر اسٹیٹ بینک پر دباؤ ڈال کر حاصل کر لیے جائیں۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا اتنی بڑی رقم خرچ کرکے اور ایک صوبے میں الیکشن کروا کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
زیادہ سے زیادہ وہی ہوگا جو اسمبلی توڑنے سے پہلے تھا یعنی پنجاب میں ایک بار پھر PTI کی حکومت قائم ہو جائے گی جو پہلے بھی تھی، لیکن کیا ایسا کرنا قوم اور ملک کے مفاد میں ہوگا؟ چند ماہ بعد سارے ملک میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کیوں نہ اس پر مکمل توجہ دی جائے اور وہ اتنے صاف اورشفاف کروا دیے جائیں کہ کسی بھی فریق کو اس پر انگلیاں اٹھانے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔
کسی ایک صوبے میں الیکشن کروانے سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ سارے ملک میں بیک وقت نئے الیکشن کروائے جائیں۔حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس محاذ آرائی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف اگر نااہل ہو کر حکومت سے نکالے بھی جاتے ہیں تو انھیں کوئی زیادہ فرق اور نقصان نہیں ہوگا۔
وہ ویسے ہی معاشی اور اقتصادی بحران میں گھری اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون تو گزشتہ برس بھی ان حالات میں حکومت سنبھالنے کی موڈ میں نہ تھی ، مگر آصف علی زرداری کی مرضی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ یہ ذمے داری سنبھالنے پر بمشکل راضی ہو پائی تھی، اب اگر یہ حکومت اس سے چھین لی جاتی ہے تو شاید اس کا سیاسی نقصان اسے قطعاً نہیں ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ فائدہ ہی ہوگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ عدلیہ ابھی تک اسے توہین عدالت کے جرم میں سزا سنانے سے اجتناب برت رہی ہے۔
جب پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے عمران خان کے حکم پر9 جنوری 2023 کو وہاں کی اسمبلی تحلیل کردی تو PTI کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ فوراً نئے انتخابات کروائے جائیں۔
وفاقی حکومت کے ٹال مٹول پر معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ایک سوموٹو لے لیا اور فوری سماعت شروع کردی۔ اس پانچ رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے ایک حکم صادر فرمایا کہ صدر مملکت کی طرف سے تجویز کردہ تاریخ پر فوری الیکشن کروایا جائے۔
عدلیہ نے اس سلسلے میں آئینی پابندی کا بھی بڑے واضح طور پر ذکر کیا۔30 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی ۔ بات اسی تاریخ تک محدود نہیں رہی اور اب یہ 14 مئی ہوچکی ہے۔ حکومت وقت نے ان انتخابات کے لیے بہت سے مسائل پیش کیے جنھیں عدالت تسلیم کرنے سے انکارکیا۔ 21 ارب روپے سے ایک ایسے متنازعہ الیکشن کروا دیے جائیں جن سے سیاسی استحکام ختم ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوجائے۔
سارے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک صوبے میں آج الیکشن کروانا اور باقی سارے ملک میں 8 اکتوبر کو الیکشن کروانا نجانے کس طرح مسائل کے حل میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا کرنا ایک ایسے مسئلہ کو جنم دے گا جو ہر پانچ سال بعد نئے انتخابات کرواتے وقت قوم کے لیے مشکل پیدا کردے گا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس ساری مشق کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ جب ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں جہاں ایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کی اہمیت اور اس کی آئینی حیثیت کو کسی خاطر میں نہ لائے اور صرف اپنے فیصلوں پر عملدرآمد چاہتا ہو وہاں کسی بحران کے حل اور سیاسی استحکام قائم ہونے کی توقع رکھنا عبث معلوم ہوتا ہے۔
یہ انارکی اور تباہی کو گلے لگانے کے مترادف سمجھا جاتاہے۔ ہم آج ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں جہاں خیر کی توقع کرنے والا بے وقوف اور بے عقل ہی تصور کیا جائے گا۔
معاملہ صرف 21 ارب روپے کی فراہمی کا نہیں ہے کہ چلو وفاقی حکومت نے فراہم نہیں کیے تو گورنر اسٹیٹ بینک پر دباؤ ڈال کر حاصل کر لیے جائیں۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا اتنی بڑی رقم خرچ کرکے اور ایک صوبے میں الیکشن کروا کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
زیادہ سے زیادہ وہی ہوگا جو اسمبلی توڑنے سے پہلے تھا یعنی پنجاب میں ایک بار پھر PTI کی حکومت قائم ہو جائے گی جو پہلے بھی تھی، لیکن کیا ایسا کرنا قوم اور ملک کے مفاد میں ہوگا؟ چند ماہ بعد سارے ملک میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کیوں نہ اس پر مکمل توجہ دی جائے اور وہ اتنے صاف اورشفاف کروا دیے جائیں کہ کسی بھی فریق کو اس پر انگلیاں اٹھانے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔
کسی ایک صوبے میں الیکشن کروانے سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ سارے ملک میں بیک وقت نئے الیکشن کروائے جائیں۔حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس محاذ آرائی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف اگر نااہل ہو کر حکومت سے نکالے بھی جاتے ہیں تو انھیں کوئی زیادہ فرق اور نقصان نہیں ہوگا۔
وہ ویسے ہی معاشی اور اقتصادی بحران میں گھری اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون تو گزشتہ برس بھی ان حالات میں حکومت سنبھالنے کی موڈ میں نہ تھی ، مگر آصف علی زرداری کی مرضی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ یہ ذمے داری سنبھالنے پر بمشکل راضی ہو پائی تھی، اب اگر یہ حکومت اس سے چھین لی جاتی ہے تو شاید اس کا سیاسی نقصان اسے قطعاً نہیں ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ فائدہ ہی ہوگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ عدلیہ ابھی تک اسے توہین عدالت کے جرم میں سزا سنانے سے اجتناب برت رہی ہے۔