بلدیاتی انتخابات بھی آئین میں ہیں

کسی بلدیاتی ادارے کی کونسل کے اجلاس میں کبھی کورم کا مسئلہ نہیں رہا مگر ہر اسمبلی میں کورم کا مسئلہ رہتا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

ملک کے آئین میں بالکل ہے کہ اسمبلیاں ختم ہونے یا ٹوٹنے پر نوے روز میں انتخابات ہونے چاہئیں اور اسی آئین میں بلدیاتی انتخابات کا بھی ذکر ہے کہ ملک میں جس طرح قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں۔

اسی طرح مدت مکمل ہونے پر آرٹیکل 140-Aکے تحت مقامی حکومتوں کا قیام اور بلدیاتی انتخابات کا باقاعدگی سے انتخاب بھی آئینی تقاضا ہے اور یہ آئینی تقاضا ملک میں ہمیشہ فوجی سربراہوں کی حکومتوں میں پورا کیا گیا۔

جنھیں آمر کہا جاتا ہے اور جمہوریت کی نام نہاد منتخب حکومتوں نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو نظرانداز کیا اور کبھی آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے نہ مقامی حکومتیں قائم کیں اور جمہوریت کی نام نہاد حکومتوں میں بلدیاتی اداروں پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط رکھے گئے اور اگر صوبوں میں منتخب بلدیاتی ادارے تھے تب بھی منتخب صوبائی حکومتوں نے یہ ادارے توڑے ضرور اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے راہ فرار اختیار کی اور کبھی بلدیاتی انتخابات اپنے طور پر نہیں کرائے۔

بلدیاتی انتخابات ملک میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مدت پوری ہونے پر باقاعدگی سے 6 بار منعقد ہوئے اور تینوں فوجی صدور نے ملک کو جو بلدیاتی نظام دیے ان میں جنرل پرویز مشرف کا 2001 کا ضلعی حکومتوں کا نظام سب سے بہترین اور بااختیار تھا۔

جس میں منتخب ناظمین کو پہلی بار انتظامی اور مالی طور پر مکمل اختیارات دیے گئے تھے اور کمشنری نظام ختم کرکے اعلیٰ بیورو کریٹس کو ناظمین کے تحت ڈی سی اور ایگزیکٹیو آفیسر اور چھوٹے شہروں میں ٹاؤن افسران یا ٹی ایم او کی شکل میں رکھا گیا تھا اور سٹی حکومتوں میں ڈی سی او کے بعد ای ڈی او مختلف محکموں کے رکھے گئے تھے۔

منتخب ناظمین کے کاموں میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کو بھی مداخلت کا اختیار نہیں تھا۔ یوسی کی سطح پر یوسی ناظمین تک کو اپنی یوسی میں مالی و انتظامی اختیارات تھے اور صفائی، روشنی، فراہمی و نکاسی آب کے بنیادی کام بھی ناظمین ادا کرتے تھے بلکہ یوسیز نے پارک اور پلے گراؤنڈ ہی نہیں بلکہ بعض یوسی ناظمین نے اپنی یوسی میں چڑیا گھر تک بنوائے تھے۔

ضلعی نظام کے خاتمے کے بعد وفاق اور صوبوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے 1979 کا جنرل ضیا الحق کا بلدیاتی نظام بحال کیا تھا اور ان دونوں بڑی پارٹیوں کی حکومتوں میں اتنی بھی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ملک کو اپنا بلدیاتی نظام دے سکتیں اور انھوں نے آمر قرار دیے گئے بلدیاتی نظام کو بحال کیا اور عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندوں کو نہ صرف بے اختیار کیا بلکہ کمشنری نظام بحال کرکے عوام کے بلدیاتی نمایندے ان کے ماتحت کردیے تھے۔

ملک بھر میں پہلے وفاقی وزارت بلدیات ہوتی تھی جو صدر آصف زرداری کے دور میں ختم کردی گئی۔ بلدیاتی نظام وفاق سے صوبوں کو منتقل کرکے صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزیر بلدیاتی کے مکمل کنٹرول میں دے کر بلدیاتی اداروں کی اہمیت ختم اور انھیں صوبائی حکومتوں کا محتاج کردیا تھا اور ہر صوبے نے اپنی مرضی کا بے اختیار بلدیاتی نظام اپنی اسمبلیوں سے منظور کرا کر آئین کی خلاف ورزی کی جو اب تک جاری ہے جب کہ آئین میں بااختیار مقامی حکومتوں کا ذکر واضح ہے اور صرف 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور ان جماعتی بلدیاتی الیکشن میں صوبائی حکومت نے بھرپور مداخلت کرکے اور سرکاری وسائل استعمال کرکے دھاندلی سے اپنے لوگ منتخب کرائے تھے جب کہ فوجی حکومتوں میں غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن ہوتے رہے اور ان کے دور میں مثالی ترقیاتی کام ہوئے۔

2015 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلدیاتی انتخابات تو کرائے مگر آٹھ سال سے کسی نے بلدیاتی الیکشن پر توجہ دی اور نہ ہی آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو اختیارات دلائے بلکہ آئین کے آرٹیکل 14-A پر عمل ہی نہیں کرایا۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے اعلیٰ ترین اختیارات کے حصول کے لیے اعلیٰ ترین عدالتوں میں درخواستیں دے رکھی ہیں مگر ان کی سماعت عدالتی ترجیح رہی نہ اختیارات کا تعین کیا گیا۔


جس کی وجہ سے ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق اختیارات حاصل ہیں نہ ہی عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندے اعلیٰ عدالتوں اور صوبائی حکومتوں کی ترجیح ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کی ترجیح بلدیاتی اداروں کے بجائے اسمبلیاں ہیں حالانکہ جمہوریت کی نرسری ہی بلدیاتی ادارے ہیں جہاں سے لوگ اسمبلیوں اور حکومت میں پہنچتے رہے ہیں۔

اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملات پر اعلیٰ عدالتیں فوری سماعتیں شروع کردیتی ہیں مگر بلدیاتی اداروں کے باقاعدگی سے انتخابات نہ ہونے پر کارروائی، بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق اختیارات دلانا، صوبائی حکومت پنجاب کی طرف سے پی ٹی آئی حکومت آتے ہی بلدیاتی ادارے اس لیے توڑ دینا کہ وہاں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت تھی۔

ڈھائی سال بعد ان اداروں کی سپریم کورٹ کے حکم پر سات ماہ عمل نہ ہونے پر پنجاب حکومت کے خلاف کوئی کارروائی سپریم کورٹ کی طرف سے نہ ہونے سے پنجاب کے بلدیاتی داروں کو ایک سال بھی نہیں ملا اور اس سلسلے میں کبھی آئین کی خلاف ورزی پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

گزشتہ سال پی ٹی آئی حکومت نے کے پی میں اپنی مرضی کے بلدیاتی الیکشن کرائے۔ سندھ و بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے مگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے اور ترجیح پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہیں۔ اس آئینی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس نہیں ہوا ۔

ملک ایک ہے کہیں میئر، عوام کے ووٹوں سے برائے راست منتخب ہورہے ہیں کہیں یہ اختیار یوسی چیئرمینوں کے پاس ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں بلدیاتی نظام مختلف اور بے اختیار ہے اور آئین کے آرٹیکل 140-A کی کھلی خلاف ورزی آٹھ سال سے جاری ہے۔ بلدیاتی انتخابات مذاق بن چکے۔ کے پی، سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن کو مہینوں گزر گئے مگر ادارے مکمل ہیں نہ ان کے میئر اور چیئرمین منتخب کیے جا رہے ہیں۔

کے پی میں بلدیاتی الیکشن کو ڈیڑھ سال ہو رہا ہے، وہاں منتخب نمایندے ہائی کورٹ سے رجوع کرچکے مگر شنوائی نہیں ہو رہی۔ آئین پر عمل کرانے کی ذمے دار سپریم کورٹ ہے مگر وہاں اسمبلیوں کو فوری اہمیت مل جاتی ہے مگر اعلیٰ عدلیہ میں بلدیاتی اداروں کو اہمیت نہیں مل رہی کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟

عوام کا زیادہ واسطہ بلدیاتی اداروں سے پڑتا ہے اسمبلیوں سے نہیں۔ کسی بلدیاتی ادارے کی کونسل کے اجلاس میں کبھی کورم کا مسئلہ نہیں رہا مگر ہر اسمبلی میں کورم کا مسئلہ رہتا ہے۔ اسمبلیوں میں 342 کے ایوان میں کورم 86 مقرر ہے وہ بھی پورا نہیں ہوگا مگر 26 ممبران کی موجودگی میں بھی اسمبلی اجلاس جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ اسمبلی ممبران کی دلچسپی نہیں ہوتی۔

دو اسمبلیوں کو تڑوانے والے عمران خان نے جب اقتدار میں آتے ہی پنجاب کے بلدیاتی ادارے تڑوائے تھے اور اپنے پونے چار سال میں انھوں نے بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں کرائے تھے مگر وہ کے پی اور پنجاب اسمبلیوں کے الیکشن کرا کر خود اقتدار میں آنا چاہتے ہیں انھیں عوام کو بلدیاتی اداروں کا اقتدار دینا پسند نہیں۔

آئین اسمبلیوں کے لیے نہیں مقامی حکومتوں کے لیے بھی ہے مگر کبھی بلدیاتی اداروں کے حق میں فیصلے نہیں آتے تو کیا بلدیاتی انتخابات کرانا اور بااختیار مقامی حکومتوں کا قیام آئین میں نہیں؟
Load Next Story