نیشنلائزیشن کی سوچ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے
مرکزی پالیسی ساز، سوشلسٹ بیوروکریٹس نیشنلائزیشن کے خواہش مند ہیں
مرکزی پالیسی ساز، سوشلسٹ بیوروکریٹس ایسے خیالات کو فروغ دے رہے ہیں، جن کے مضمرات پاکستان کی معیشت کیلیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں بیٹھے مرکزی پالیسی ساز اور اداروں میں موجود سوشلسٹ بیوروکریٹس پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے، قومی مفاد اور عوام کو ریلیف دینے کے خوشنما نعروں کے ساتھ ایسے حل تجویز کر رہے ہیں، جو ماضی میں نقصان دہ ثابت ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد پالیسی ساز مختلف اداروں اور صنعتوں کو قومیانے کی باتیں کر رہے ہیں، گزشتہ دنوں ایک بیوروکریٹ نے آئی پی پیز کو قومیانے کی بات کی۔
رپورٹ میں ادارے قومیانے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 1968 میں بیوروکریٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے یہ نعرہ دیا کہ ملکی دولت پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، آج کہا جارہا ہے کہ ملکی دولت اکتیس خاندانوں کے تسلط میں ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق کے نعرے کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو نے اداروں کو نیشنلائز کرکے تباہی مچادی۔ لیکن بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے نیشنلائزیشن کی پالیسی کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف سے بھی زیادہ اداروں کی نجکاری کی اور نیشنلائزیشن کی پالیسی کے غلط ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
آج جبکہ دنیا میں کہیں بھی نیشنلائزیشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، ایسے میں نیشنلائزیشن کی باتیں کرنا ملکی معیشت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت میں دس سال قبل پلاننگ کمیشن کو ختم کردیا گیاتھا، جبکہ ہمارا پلاننگ کمیشن ابھی بھی سات ٹریلین روپے کے پراجیکٹ چلا رہا ہے، جس کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے اور منصوبے مہنگے پڑ رہے ہیں۔
پی ایس ڈی پی کی انویسٹمنٹ پر تحیقیق کی ضرورت ہے۔ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی بجائے پلاننگ کمیشن کی ساری توجہ نئے اور پرانے پراجیکٹس کے لیے قرضے حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو نیشلائز کرنے کی بجائے ملک میں بہتر کاروباری ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں بیٹھے مرکزی پالیسی ساز اور اداروں میں موجود سوشلسٹ بیوروکریٹس پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے، قومی مفاد اور عوام کو ریلیف دینے کے خوشنما نعروں کے ساتھ ایسے حل تجویز کر رہے ہیں، جو ماضی میں نقصان دہ ثابت ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد پالیسی ساز مختلف اداروں اور صنعتوں کو قومیانے کی باتیں کر رہے ہیں، گزشتہ دنوں ایک بیوروکریٹ نے آئی پی پیز کو قومیانے کی بات کی۔
رپورٹ میں ادارے قومیانے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 1968 میں بیوروکریٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے یہ نعرہ دیا کہ ملکی دولت پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، آج کہا جارہا ہے کہ ملکی دولت اکتیس خاندانوں کے تسلط میں ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق کے نعرے کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو نے اداروں کو نیشنلائز کرکے تباہی مچادی۔ لیکن بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے نیشنلائزیشن کی پالیسی کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف سے بھی زیادہ اداروں کی نجکاری کی اور نیشنلائزیشن کی پالیسی کے غلط ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
آج جبکہ دنیا میں کہیں بھی نیشنلائزیشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، ایسے میں نیشنلائزیشن کی باتیں کرنا ملکی معیشت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت میں دس سال قبل پلاننگ کمیشن کو ختم کردیا گیاتھا، جبکہ ہمارا پلاننگ کمیشن ابھی بھی سات ٹریلین روپے کے پراجیکٹ چلا رہا ہے، جس کی وجہ سے کرپشن ہورہی ہے اور منصوبے مہنگے پڑ رہے ہیں۔
پی ایس ڈی پی کی انویسٹمنٹ پر تحیقیق کی ضرورت ہے۔ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی بجائے پلاننگ کمیشن کی ساری توجہ نئے اور پرانے پراجیکٹس کے لیے قرضے حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو نیشلائز کرنے کی بجائے ملک میں بہتر کاروباری ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔