30 دسمبر 2022 کو ہوا بازی اور پی آئی اے کے امور پر منعقدہ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے تین ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کی ہدایات جاری کی تھی۔ اجلاس میں وزیراعظم کو بریف کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ معمول کا ایک منافع بخش عمل ہے۔ ابتدائی طور پر اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ہوائی اڈوں کو 20 سے 25 سال کی مدت کےلیے آؤٹ سورس کیا جائے گا۔ اس ضمن میں مزید پیش رفت گزشتہ ماہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہوئی، جس میں ان تین ہوائی اڈوں کی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آؤٹ سورس کرنے کی ابتدائی منظوری دی گئی۔
ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو حکومت ان اڈوں کا انتظام و انصرام قطر کو آؤٹ سورس کرنے جارہی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے لاگت کی بچت، کارکردگی میں اضافہ، بہتر معیار کی خدمات اور سب سے اہم بات ملکی معیشت کو اشد ضروری ڈالرز حاصل ہوں گے جو ملک کی ڈوبتی معیشت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کا قطر کو ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں سیکیورٹی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں کافی مشکلات پیش آئی ہیں۔ قطر جیسے نامور سرمایہ کار کو آؤٹ سورس کرنے سے پاکستان کی معیشت میں اعتماد بحال کرنے اور مستقبل میں مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
آؤٹ سورسنگ کے عمل کی ابتدائی منظوری کی خبر سامنے آنے پر معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنی ٹویٹ میں پاکستانی معیشت کے حوالے سے ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ تین ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے سے آج اشد ضروری ڈالر تو حاصل ہوں گے لیکن بعد ازاں اس سے طویل المدتی منافع کی ترسیلات بھی ہوں گی۔ اس سے ہمارے ملک کا ادائیگی کا توازن مزید کمزور ہوگا اور ہم مزید قرض لینے پر مجبور ہوں گے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مستقبل میں پیدا ہونے والی مشکلات کا بروقت اظہار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے سب سے اہم تشویش منافع کی شکل میں ڈالرز کا طویل المدتی اخراج ہی ہے۔ جب بھی کوئی غیر ملکی ادارہ یا سرمایہ کار کسی قومی اثاثے یا ادارے کا انتظام سنبھالتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والے منافع کا ایک بڑا حصہ (ڈالرز میں) اپنے آبائی ملک منتقل کرتا ہے۔
ڈالر کے طویل المدتی اخراج سے پاکستان کی مشکلات سے دوچار معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ آؤٹ سورسنگ (براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری) سے ڈالر کی فوری آمد پرکشش اور ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کےلیے آسان حل معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے ملکی معیشت پر طویل المدتی اثرات زیادہ مثبت نہیں ہوں گے۔
ڈالرز کا اخراج پاکستانی معیشت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ 3 اپریل کو پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں وزیراعظم نے چینی کمپنیوں کے جن واجب الادا 450 ارب روپے کا ذکر کیا، وہ بھی اسی منافع کی مد میں ہیں جس کی ادئیگی ڈالرز میں کی جانی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022 میں جولائی تا فروری FDI-Operated بجلی کے کارخانوں کے منافع کی مد میں 322 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی گئی۔ زرمبادلہ کی کمی کا شکار پاکستانی معیشت کےلیے بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی ادائیگی ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر غیر ملکی اداروں کے بجائے ان ہوائی اڈوں کو مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کیا جائے تو اس سے کئی ممکنہ فوائد ہوں گے۔ مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورسنگ مقامی صنعتوں کی ترقی کا باعث ہوگی۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملکی جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا، جس سے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے سے مستقبل میں معیشت سے ڈالرز کے اخراج میں کمی ہوسکتی ہے۔ مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے سے کمپنیوں کو حاصل ہونے والے منافع کا ملک میں ہی رہنے کا امکان زیادہ ہے، جس سے اقتصادی سرگرمیاں تیز اور ملکی ترقی میں اضافہ ہوگا۔
مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں اڈانی گروپ 7 ہوائی اڈوں کو چلا رہا ہے، ان میں 6 ہوائی اڈے 50 سال کی مدت کےلیے آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔ بھارت میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اڈانی گروپ دیگر ملکوں میں آؤٹ سورسنگ کے معاہدے کرکے بھارتی معیشت میں طویل مدت کےلیے زرمبادلہ لارہا ہے۔ حال ہی میں اس گروپ نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کی حیفہ بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے کےلیے 1.2 بلین ڈالرز کا معاہدہ کیا ہے۔
پاکستان میں سیالکوٹ ایئرپورٹ لمیٹڈ کمپنی، سیالکوٹ ایئرپورٹ کو مکمل طور پر ایک نجی ادارے کی صورت میں کامیابی سے چلارہی ہے۔ کمپنی کی ڈائریکٹرز رپورٹ کے مطابق مالیاتی سال 2021-22 کے دوران کمپنی نے 1381 ملین روپے منافع کمایا، اگر اس میں ٹیکس کی رقم بھی شامل کرلی جائے تو یہ منافع 2141 ملین روپے بنتا ہے۔ یہاں پر یہ پیش نظر رہے کہ اس دورانیے میں سیالکوٹ ایئرپورٹ سے 4361 پروازیں آپریٹ کی گئیں، جبکہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے بالترتیب 31361، 29172 اور 42508 پروازیں آپریٹ کی گئیں۔ جس سے آپ حاصل ہونے والے منافع کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ایئرکرافٹ اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن (AOOA) کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ان ہوائی اڈوں کو اتنہائی کم قیمت میں غیر ملکی سرمایہ کار کو آوٹ سورس کیا جارہا ہے۔ ان تمام تر حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر حکومت پاکستان بھی مقامی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کرے تو یہ خوش آئند قدم ہوگا۔
اس اقدام کے ساتھ معیشت کی بہتری اور زرمبادلہ کے حصول کےلیے حکومت کو ایک زیادہ موثر برآمدی پالیسی جاری کرنی چاہیے اور برآمدی صنعتوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون یقینی بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی خام مال کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے تاکہ خام مال کو تیار مال کی صورت میں برآمد کیا جائے۔ اس سے کئی گنا زیادہ زرمبادلہ کا حصول تو ممکن ہوگا ہی، ساتھ ہی نئی صنعتوں کا قیام بھی عمل میں آئے گا، جس سے ملک میں موجود بے روزگاروں کی بڑی تعداد کو روزگار میسر ہوگا۔ سابقہ حکومتوں نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی، مثال کے طور پر ریکوڈک منصوبے کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والی دھاتوں کو خام مال کی صورت میں برآمد کرکے بعد ازاں تیار لوہا، تانبا اور سونے کی شکل میں درآمد کیا جاتا ہے۔ ریکوڈک منصوبے میں محض کان کنی کے بجائے اگر Processing & Extraction کا کارخانہ بھی لگایا جاتا تو درآمدی لاگت کی بچت کے ساتھ ساتھ مقامی صنعتوں کو فروغ ملتا اور یہ ملکی جی ڈی پی میں اضافے کا باعث ہوتا۔ خام دھاتیں، قیمتی پتھر، ماربل، گرینائٹ اور دیگر کئی اشیاء ایسی ہیں جن کو اگر تیار مال کی صورت میں برآمد کیا جائے تو کثیر زرمبادلہ کا حصول اور متنوع معیشت کا احیاء ہوگا۔
بہرحال پاکستان کی معیشت پر آؤٹ سورسنگ کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کو آؤٹ سورسنگ سے قلیل المدتی فائدہ، جیسا کہ فوری ڈالرز کا حصول تو حاصل ہوگا لیکن طویل المدتی اثرات زیادہ مثبت نہیں ہوں گے۔ حکومت پاکستان کو اس کے نقصانات اور فوائد کو احتیاط سے تول کر قومی سلامتی، اقتصادی پالیسی اور عوام کی فلاح و بہبود پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لے کر حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔