پاکستان میں اندازاً 10 ہزار بچوں کے ہیموفیلیا کا شکار ہونے کا انکشاف

دُنیا بَھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے لیکن تشویش ناک امر یہ ہے

ہیماٹالوجسٹ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 ہزار بچے ہیموفیلیا کا شکار ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچے مرض سے متاثر ہیں، مگربدقسمتی سے مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سےمتاثرہ بچوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہیمو فیلیا کے عالمی دن کے موقع پر چلڈرن اسپتال گلشن اقبال میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔ جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجود خون جمانے والے ذرّات میں اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی چوٹ یا زخم لگ جائے تو خون رُکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانےکے نتیجے میں موت کے امکانات بڑھ جاتےہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیماری کی شدّت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہوسکتا ہے۔ جگر میں بننے والے پروٹینز جن کو فیکٹرز کہا جاتا ہے خون کو جمانے کے نظام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ فیکٹر 1 سے لے کر 13 تک ہوتے ہیں۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پرایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خود بخود ایک جھلی سی بن جاتی ہے، جوخون روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس جھلی کو طبی اصطلاح میں 'کلاٹ' کہتے ہیں،لیکن اگر جھلی بنانے والے پروٹین (فیکٹر) کی جین متاثر ہو جائے تو پروٹین بننے کا عمل رُک جاتا ہے اور خون جم نہیں پاتا اور یہی عمل ہیموفیلیا کا سبب بن جاتا ہے۔


دُنیا بَھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے 75 فی صدافراد میں اس کی تشخیص نہیں ہ وپاتی یا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں سِرے سےعلاج کی سہولت ہی میسّر نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہیمو فیلیا کی تین اقسام ہیں: ۔ہیموفیلیا اے، بی اور ریئرفیکٹر ڈیفیشنسیز (Rare Factor Deficiencies)۔ ان میں سب سے عام ہیموفیلیا اے ہے۔ ہر پانچ ہزار نو زائیدہ بچوں میں سے ایک بچہ ہیموفیلیا اے کا شکار ہوتا ہے۔ اس قسم میں فیکٹر viii کی کمی ہوتی ہے۔ ہیمو فیلیا کی شدّت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا (Mild Hemophillia) ہے، جس میں کلاٹنگ فیکٹرز کی تعداد5فی صد سے زائد پائی جاتی ہے۔دوسرے درجے،معتدل ہیموفیلیا (Moderate Hemophillia) میں فیکٹرز کی تعداد ایک سے 5 فی صد اورشدید ہیموفیلیا (Severe Hemophillia) میں کلاٹنگ فیکٹرز کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بتایا کہ عمومی طور پر مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں بچے کی ناک سے مسلسل خون کا بہنا،پیشاب میں خون کا اخراج،مسوڑھوں سے خون رِسنااور جوڑوں میں سوجن اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔ عموماً ہیموٹولوجسٹس سےشدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی رجوع کرتے ہیں،موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو،کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔مائلڈ اور موڈریٹ ہیمو فیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے،لیکن اس مرض کا ایسا کوئی مستقل علاج نہیں ،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر شفا مل سکے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ مرض میں مبتلا والدین کا علاج کر دیا جائے ،تو ان کے بچّوں میں مرض منتقل نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ دُنیا بھَر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو 48 گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹر viii یا ix بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔یہ وہ فیکٹرز ہیں،جومریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائےجاتے۔ مگر چوں کہ یہ فیکٹر انجیکشن بہت زیادہ منہگے ہوتےہیں اور پاکستان میں دستیاب بھی نہیں چنانچہ ہمارے یہاں مریضوں کوفریش فروزن پلازما (FFP: Fresh Frozen Plasma) یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے، یعنی صاف اور صحت مند خون کا بروقت انتقال۔ صحت مند خون سے خون کے خلیے اورپلیٹ لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہی فریش فروزن پلازما کہلاتا ہے۔ پاکستان میں ہیمو فیلیا ہی کی طرح کی ایک اور بیماری von Willebrand Disease بھی عام ہے۔ اس مرض میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے اوریہ بھی موروثی طور پر منتقل ہو تی ہے۔
Load Next Story