ورلڈ کپ 2011 کا سیمی فائنل نہ کھیلنے کا افسوس ہے شعیب اختر

ٹیم میں اب کوئی ہیرو باقی نہیں رہا، فکسنگ الزامات اور سیاست سے ہماری کرکٹ تباہ ہوگئی، شعیب اختر

ملکی کرکٹ کو بے لوث شخص چاہیے، کوچنگ میں بھی جارحانہ رویہ برقرا رکھوں گا، سابق پیسر۔ فوٹو: فائل

سابق فاسٹ بولر شعیب اخترکا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم میں اب کوئی ہیروباقی نہیں رہا، فکسنگ الزامات اور اندورنی سیاست نے ہماری کرکٹ کو تباہ کردیا۔

ورلڈ کپ 2011 کا سیمی فائنل نہ کھیلنے کا ابھی تک افسوس ہے، کوچنگ میں بھی جارحانہ رویہ برقرار رکھوں گا، ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔سابق فاسٹ بولر شعیب اختر اب کوچنگ میں نیا کیریئر شروع کرنیوالے ہیں، انھوں نے ڈومیسٹک ٹیم اسٹیٹ بینک کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، وہ اس میدان میں بھی اپناجارحانہ پن برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب میں کرکٹ کھیلتا تھا اس وقت کوچ بننے کا کبھی نہیں سوچا تھا، صاف بات تو یہ ہے کہ مجھ میں اس کیلیے درکار ٹمپرامنٹ ہی نہیں تھا مگر اب میں کافی بدل چکا ہوں، اس لیے سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی معلومات نئی نسل کو منتقل کرنی چاہئیں، فاسٹ بولر ایک رویے کا نام ہے، اس میں آپ کو جارحانہ انداز اختیار کرنا پڑتا ہے، اس کا مطلب حریف سائیڈ سے گالم گلوچ یا کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ پوری شدت سے بولنگ کرکے وکٹیں اڑانا اور ٹیم کو جتوانا ہے، میں اسی انداز میں کوچنگ بھی کرنا چاہتا ہوں۔


غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں رہنے کے حوالے سے سوال پر شعیب اختر نے کہا کہ میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ پاکستان کو ایک اور عمران خان کی ضرورت ہے، مجھے کبھی مناسب رہنمائی ملی ہی نہیں، میں گلیوں میں کھیلتا ہوا ٹیم تک پہنچا، ایسے میں کوئی ہماری رہنمائی کرنیوالا نہیں تھا، ہم جیسے کرکٹرز صرف اپنے غلطیوں سے سیکھتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا، انھوں نے کہا کہ میں 1996 سے ہی انجریز کی زد میں رہا مگر اس کے باوجود کھیلتا رہا، ہر کوئی مجھے ہر روز کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں خود کتنی تکلیف سے دوچار ہوں، جب عامر اور آصف فکسنگ کیس میں ملوث ہوئے تب میں نے پاکستان کیلیے مزید کھیلنے کا فیصلہ کیا اگر میں ذہنی طور پر مضبوط نہ ہوتا تو شاید میرا کیریئر دو تین برس میں ہی ختم ہوجاتا، شعیب اخترکوابھی تک ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل میں نہ کھلائے جانے پر افسوس ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے ٹیم مینجمنٹ سے کہا تھا کہ مجھے کھیلنے کی اجازت دی جائے، ابتدائی دس اوورز میں ہی بھارتی ٹیم کے ہوش اڑا دوں گا مگر انھوں نے مجھے موقع نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ٹیم میں بڑے نام شامل تھے جن سے دوسروں کو سیکھنے اور اچھا کھیلنے کی ترغیب ملتی تھی اب کوئی ہیرو نہیں ہے، فکسنگ الزامات اور اندرونی سیاست نے ڈریسنگ روم کا ماحول خراب کردیا اور اس کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا ہے، ہم اپنے ہیروز کا کھلے عام مذاق اڑاتے ہیں، پاکستان کرکٹ کو ایک انتہائی مخلص اور بے لوث شخص کی ضرورت ہے۔ شعیب اختر نے آئی پی ایل کے حوالے سے کہا کہ میں ہمیشہ سے اس بات کے حق میں ہوں کہ کرکٹرز کو بھی دولت کمانے کے مواقع میسر ہونے چاہئیں تاہم کھلاڑیوں کو بھی اپنی قومی ذمہ داریوں کو اہمیت دینا چاہیے۔
Load Next Story