کہاں قائد اعظم کہاں یہ
ایک خوشامدی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ہمیں اللہ پاک نے قائد اعظم کے بعد ان جیسا ہی لیڈر عمران خان کی شکل میں دیا ہے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو فوت ہوئے 75 برس بیت گئے مگر ان کے بعد کوئی ایک سیاسی رہنما بھی قائد اعظم جیسا سچا، اصول پرست، اپنے اصولوں پر ڈٹا رہنے والا ثابت نہ ہوسکا۔ 75 سالوں میں ہمیں قائد اعظم تو کیا ، ان کے قریب ترین بھی کوئی سیاسی رہنما نہ مل سکا جسے عوام کا درد اور ملک سے محبت ہو۔
ایک خوشامدی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ہمیں اللہ پاک نے قائد اعظم کے بعد ان جیسا ہی لیڈر عمران خان کی شکل میں دیا ہے جو ملک و قوم کا خیرخواہ ہے اور اسی وجہ سے عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
قائد اعظم نے نئے ملک کے قیام کے لیے جو عظیم جدوجہد کی تھی وہ صرف پاکستان بنانے کے لیے تھی حصول اقتدار کے لیے نہیں تھی۔ قائد اعظم نے کبھی نہیں کہا تھا کہ میں پاکستان بنا کر اس کا حکمران بنوں گا۔ قائداعظم نے تھوک کے حساب یوٹرن نہیں لیے تھے نہ اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دی تھیں۔
قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل رہنما اور بعد میں اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم لیاقت علی خان وہ تھے جنھوں نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے اپنی جائیدادیں چھوڑ دی تھیں۔
قائد اعظم کا کوئی ایسا ساتھی نہیں تھا جس کو قائد اعظم نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے کر اقتدار کے لیے اس سے سمجھوتہ کیا ہو۔ قائد اعظم نے کسی کے لیے نہیں کہا تھا کہ میں اسے چپڑاسی کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔ قائد اعظم عوام کی طاقت سے پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
انھوں نے کسی فوجی جنرل کی مدد لی تھی نہ اپنے حامی چیف جسٹس سے اپنے مخالفین کو سزا دلا کر عوام سے جھوٹے وعدے کرکے اقتدار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ قائد اعظم کی گورنر جنرل کی حیثیت میں کوئی ایک ایسی مثال موجود نہیں کہ انھوں نے سرکاری وسائل اپنے لیے استعمال کیے ہوں یا اقربا پروری کا مظاہرہ کیا ہو یا کسی لوٹے، پارٹیاں بدلنے والوں، اچھی شہرت نہ رکھنے والوں کو ملک کی کابینہ میں شامل کیا ہو۔ عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔
قائد اعظم نے ایک سچا لیڈر بننے کے لیے کسی چیف جسٹس سے خود کو صادق و امین قرار نہیں دلوایا تھا اور قوم انھیں سچا اور اصول پرست رہنما سمجھتی تھی ۔ قائد اعظم ہمیشہ اصولوں پر قائم رہے اور انھوں نے اپنے اصولوں پر کبھی رائے بدلی نہ سمجھوتہ کیا نہ کبھی ضد کا مظاہرہ کیا۔
عمران خان نے اپنے ایماندار ہونے کا تاثر دے کر عوام کو گمراہ کیا، انھیں جھوٹے خواب دکھائے۔ عمران خان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے، پی سی بی کے انتظامی سربراہ نہیں تھے۔
نہ ان کے پاس کروڑوں روپے کے فنڈز تھے کہ وہ اسے غلط استعمال کرسکتے۔ عمران خان تو کسی یوسی کے چیئرمین بھی نہیں رہے کہ انھیں خرد برد کا موقعہ ملا ہو اور انھوں نے سرکاری فنڈز غلط استعمال کیے ہوں تو وہ ایماندار ہونے کا دعویٰ کیسے کرسکتے تھے۔ جب انھیں کہیں ایمانداری دکھانے کا موقعہ ہی نہ ملا ہو تو وہ ایمانداری کا دعویٰ کیسے کرسکتے تھے۔
قائد اعظم گورنر جنرل کی حیثیت میں سرکاری وسائل استعمال کرنے کے مجاز تھے مگر انھوں نے اپنی خوراک اور دواؤں پر سرکاری فنڈ استعمال نہیں کیا جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے جھوٹے وعدے کیے اقتدار سے قبل اور بعد میں اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا ان پر جھوٹے الزامات لگائے اور اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد امریکا سمیت ملکی اداروں اور شخصیات پر بے بنیاد الزامات لگائے اور یہ الزامات بھی آئے دن تبدیل ہوتے رہے۔
انھیں آئینی طور اپنے ہٹائے جانے کو پہلے امریکی سازش قرار دیا پھر جنرل باجوہ کے جانے کے بعد ان پر سازش کا الزام لگا دیا جب کہ وہ 28نومبر سے قبل جنرل باجوہ کو مزید توسیع دلانا چاہتے تھے کیونکہ وہ ان کے محسن تھے۔ عمران خان ، قائد اعظم کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں مگر ایک خوشامدی نے انھیں قائد اعظم کے پائے کا لیڈر قرار دینے کی مذموم کوشش کی ہے۔ کہاں قائد اعظم ،کہاں عمران خان ۔