یوٹیوبرز اور انٹرنیٹ صارفین کا رجحان

یوٹیوبرز وہی کچھ بناتے ہیں جو دیکھنے والے پسند کرتے ہیں، قصور بنانے والوں سے زیادہ دیکھنے والوں کا ہے

میمز بنانے والوں سے ایک معصوم بچہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ (فوٹو: فائل)

کچھ دنوں سے چار پانچ ماہ کے بچے ''باسل'' کی میمز انٹرنیٹ پر وائرل ہورہی ہیں۔ ہم حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے۔ گوگل بھائی سے تھوڑی سی مدد لی تو علم ہوا کہ معاذ صفدر نامی ایک یوٹیوبر جو اپنی روزمرہ گھریلو زندگی پر ویڈیوز بنانے کی وجہ سے یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مشہور ہے، اس نے اپنے چار ماہ کے بیٹے کو ایک گھنٹے کا روزہ رکھوایا، جس پر یہ سب ٹرولنگ شروع ہوئی ہے۔


وائرل ہونے والی میمز میں ایک بچے کی تصویر کے ساتھ مختلف مزاحیہ کیپشن لکھے ہوئے ہیں، جیسے 'پاپا مجھے آپ کے وی لاگ میں نہیں آنا'، 'معاذ نے بیٹا نہیں کانٹینٹ پیدا کیا ہے'، وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر جملے مزاح سے زیادہ پھکڑپن پر مشتمل ہیں جسے ایک بچے کی تصویر کے ساتھ دیکھ کر میمز بنانے والوں کی ذہنی حالت پر ترس ہی آتا ہے۔


پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے عمومی رجحانات اور مزاج کا اندازہ لگانا اب زیادہ مشکل نہیں رہا۔ افسوسناک امر ہے کہ انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت سنجیدہ مزاج نہیں رکھتی۔ یوٹیوب صرف ایک تفریحی پلیٹ فارم نہیں بلکہ سیکھنے والوں کےلیے ایک تعلیمی پلیٹ فارم بھی ہے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو تعلیمی چینلز کے مقابلے میں تفریحی کانٹینٹ اپ لوڈ کرنے والے زیادہ کامیاب ہیں۔


معاذ صفدر کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر آپ اس یوٹیوبر کے چینل پر جاکر دیکھیے تو کسی بھی قسم کا کارآمد مواد آپ کو نظر نہیں آئے گا، محض اپنی روزمرہ گھریلو زندگی کی ویڈیو اپ لوڈ کرنا جس میں کسی قسم کا کوئی اخلاقی پیغام نہیں، نہ ہی کانٹینٹ میں کوئی ایسی خاصیت ہے جس سے لوگ کچھ سیکھ سکیں، کوئی فائدہ اٹھا سکیں، لیکن اس کے باوجود آپ کو ہر ویڈیو پر لاکھوں کی تعداد میں ویوز نظر آئیں گے۔


یہ رجحان ان ویڈیوز کے دیکھنے والوں کی نفسیات کو بھی ظاہر کرتا ہے، لوگ کچھ اچھا دیکھنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے، کسی کے گھر میں کیا ہورہا ہے۔ بلاشبہ یہ رویہ قابل ستائش نہیں لیکن ہو یہی رہا ہے۔ معاذ صفدر نے بھی یوٹیوب پر جب اپنا چینل بنایا تو اپنا موبائل اٹھا کر اپنے گھر کے مختلف حصوں کی ویڈیو بنائی، جس میں اس کی والدہ گھر کے کچن میں کام کررہی تھیں، اپنے فیملی ممبرز سے یونہی کچھ بات چیت کی اور وہ ویڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی۔ صرف ایک ہی دن میں ایک نئے چینل پر جب ہزار سے زیادہ ویوز آگئے تو معاذ صفدر کو ایک لائن مل گئی۔ اسے اس طرح کے کانٹینٹ میں ہی اپنی کامیابی نظر آنے لگی۔


یوٹیوب پر ویڈیوز بنانے والوں کی اکثریت یہاں مشہور ہونے اور پیسہ کمانے کےلیے ہی آتی ہے۔ معاذ نے بھی اسے بہترین موقع جانا اور اسی ٹریک پر چلتا ہوا آج وہ یہاں تک آگیا کہ نہ صرف اپنی شادی، اپنی بیوی کے ساتھ گزرے لمحات، اپنے بچے کی پیدائش بلکہ اس کے کھانے پینے سونے جاگنے تک کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے لگا۔ اور بلاشبہ پیسہ بھی خوب کمایا اور اب بھی کما رہا ہے۔


معاذ کو ٹرول کرنے والے اخلاقیات کا درس دیتے بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی طعنے دیے جارہے ہیں کہ اپنی نجی زندگی کو سوشل میڈیا پر لے آئیے اور وائرل ہوجائیں۔ لیکن ان اعتراضات کی کیا حقیقت ہے؟ اخلاقیات کا پیمانہ کیا ہے؟ معاذ صفدر کو یہ لائن کس نے فراہم کی؟ یقیناً آپ دیکھنے والوں نے، جو کہ اب اس پر اعتراض کررہے ہیں۔ اگر وہ اپنی گھریلو زندگی کو اس طرح پبلک کررہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ ہر کسی کی نظر میں شرم و حیا کا تصور الگ ہوتا ہے (فی الحال یہاں مذہب اور پردے کی بات نہیں ہورہی)۔



اگر معاذ کی پہلی ہی ویڈیو پر اس کی والدہ اسے ٹوک دیتیں یا گھر کے بڑے سمجھا دیتے کہ اس طرح گھریلو زندگی کو پبلک کرنا ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے تو شاید وہ مزید ویڈیوز نہ بناتا، اگر معاذ کی بیوی اس کا ساتھ دینے سے انکار کردیتی کہ بچے کی پیدائش کے وقت اس سے گفتگو کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ نہ کرے تو شاید وہ نہ کرتا۔ لیکن چونکہ ان کی نظروں میں یہ سب معیوب نہیں، اس لیے وہ ایسا سب کچھ کررہے ہیں۔ لیکن دیکھنے والے تو آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ ہی ایسا کانٹینٹ نہ دیکھیں گے تو کوئی کیوں بنائے گا؟ یوٹیوبرز کا مقصد پیسہ کمانا ہے اور جب اس طرح کا کانٹینٹ لاکھوں کی تعداد میں دیکھا جارہا ہے جس پر لاکھوں کی آمدنی ہورہی ہے تو وہ یوٹیوبر مزید نئے خیالات کے ساتھ اپنی نجی زندگی کو سامنے لائے گا۔ اور جب گھر میں پیسہ آرہا ہو تو بیوی یا والدین بھی کیوں اعتراض کریں گے؟


یہاں تمام تر قصور صرف دیکھنے والوں کا ہے۔ ذرا سا تحقیق کیجئے کہ پاکستان میں تفریحی ویڈیوز کتنی دیکھی جاتی ہیں اور تعلیمی مواد کو کتنی پذیرائی ملتی ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ گوگل کے ذریعے ہی ہمیں علم ہوا کہ پاکستانی یوٹیوبر ڈکی بھائی کے چینل کی سالانہ انکم اندازاً 225 ہزار ڈالر سے 1.35 ملین ڈالر سالانہ ہوسکتی ہے۔ کچھ ذرائع کے مطابق یہ کمائی 1.5 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ ہمیں تو یہ تعداد ہندسوں میں بھی لکھنے میں نہیں آتی، کمائی کا تصور تو محال ہے لیکن کیلکولیٹر کی مدد سے علم ہوا کہ 1.5 ملین کا مطلب پاکستانی 42 کروڑ روپے ہے۔ (ہمیں تو اب بھی یقین نہیں آرہا، لیکن انٹرنیٹ کی معلومات کے مطابق اس یوٹیوبر کا تذکرہ ''فوربس'' میں بھی آچکا ہے)۔ بہرحال ہم حاسدین میں سے نہیں، انھیں مزید کمائی کا موقع ملے۔


جب ہم نے ڈکی بھائی کی ویڈیوز دیکھیں تو وہاں بھی مایوسی ہوئی کہ کسی ایک ویڈیو میں بھی کوئی تخلیقی خیال یا کارآمد بات کم از کم ہمارے لیے نہیں تھی۔ لیکن یقیناً انٹرنیٹ کے عمومی یوزرز کےلیے وہاں دیکھنے کےلیے بہت کچھ ہے کہ کس طرح ڈکی اپنی گرل فرینڈ کو گفٹ دینے جارہا ہے، کس طرح روٹھنے پر منا رہا ہے، اور شادی کے بعد کس طرح اپنے روز و شب گزار رہا ہے۔ ہاں! جن لوگوں کو دوسروں کے گھروں میں جھانکنے اور دوسروں کی ذاتی زندگی جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے، ان کےلیے یقیناً بہت کچھ ہے دیکھنے کےلیے۔


اب بات کرتے ہیں اخلاقیات کی۔ لوگ اپنی ماں، بہن، بیوی کو یوں سرعام لوگوں کے سامنے لانے پر اعتراض کررہے ہیں تو بھئی ان یوٹیوبرز کی نظر میں پردہ یا اپنی نجی زندگی کو اپنے تک محدود رکھنے کا وہ تصور نہیں جو آپ لوگوں کے ذہن میں ہے۔ اگر وہ اسے برا نہیں سمجھتے تو آپ کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ اسے پسند نہیں کرتے تو دیکھنا چھوڑ دیجئے۔ یونہی برسبیل تذکرہ بتادیتے ہیں، جب گوگل پر یوٹیوبرز کی نیٹ ورتھ تلاش کررہے تھے تو گوگل نے ''نیٹ ورتھ'' کے ''کی ورڈ'' میں از خود ہی یہ معلومات بھی فراہم کردیں کہ عالمی طور پر غیر اخلاقی فلموں کی انڈسٹری کا سالانہ ریونیو 97 بلین ڈالرز ہے۔ اخلاقی طور پر تو یہ بھی بہت غلط ہے لیکن ظاہر ہے جب لوگ دیکھ رہے ہیں تبھی تو اتنی زیادہ غیر اخلاقی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔


پس ثابت ہوا کہ کسی بھی قسم کا کانٹینٹ وائرل ہونا دیکھنے والوں کے مزاج سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر لوگ اس قسم کا کانٹینٹ دیکھنا چھوڑ دیں گے تو ڈکی بھائی اور معاذ صفدر جیسے یوٹیوبرز خود ہی اپنی ''لائن'' بدل لیں گے، ورنہ اگر انھیں ایسے ہی پذیرائی ملتی رہی تو ممکن ہے وہ اپنی نجی زندگی کی ویڈیوز بنانے میں مزید چار ہاتھ آگے نکل جائیں۔


اگر آپ یوٹیوب پر تعلیمی مواد فراہم نہیں کرسکتے تو اچھے تفریحی مواد سے بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے گزشتہ ماہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا اسٹار سلمان نعمان نے یوٹیوب پر 10 ملین سبسکرائبرز کے ساتھ ڈائمنڈ بٹن حاصل کیا اور ان کے اعزاز میں گورنر سندھ نے تقریب بھی رکھی۔ سلمان نعمان کی تمام ویڈیوز تفریحی ہیں اور ڈکی بھائی، معاذ صفدر کے مقابلے میں سلمان نعمان کا کانٹینٹ زیادہ بہتر ہے۔


اس تمام بحث میں وہ ننھا سا بچہ تو کہیں دور رہ گیا جس سے بات کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک باپ اپنا فیم بڑھانے کےلیے جو کررہا ہے اسے کرنے دیجئے لیکن ایک معصوم بچے کو انٹرنیٹ پر ٹرول کرنا بند کیجئے۔ اس سب میں اس بچے کا کوئی قصور نہیں۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ سب کےلیے صلاح ہے کہ خدارا! اپنے بچوں کےلیے ایسے یوٹیوبرز یا سوشل میڈیا اسٹارز کو ''رول ماڈل'' نہ بننے دیجئے۔ مشہور ہونے کےلیے اندھی تقلید کے نتائج کبھی مثبت نہیں آئیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story