چاند چاند اور پھر چاند

جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی کے باوجود ہماری قوم آج تک رویت ہلال کے مسئلے پر تقسیم کا شکار ہے

اس جمعرات کو سائنسی حساب سے چاند رویت کے قابل نہیں ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

شوال کے چاند کی پیدائش مورخہ 20 اپریل کو صبح تقریباً 9 بجے کے لگ بھگ ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ غروبِ آفتاب تک اس نئے چاند کی عمر اندازاً 10-11 گھنٹے ہوگی۔

پاکستان میں عید کا چاند ہمیشہ سے ہی اختلاف کا باعث رہا ہے۔ بطور پشاور کا مکین، یہ مسئلہ باقی ملک کی نسبت میرے جیسے لاکھوں پشاور کے شہریوں کےلیے ہر سال ایک نئے مخمصے اور الجھن کا باعث بنتا ہے۔ کس کا روزہ ہوگا، کس کو عید کی مبارکباد دینی ہے، آدھا دن تو یہی سوچتے سوچتے گزر جاتا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنے بڑے بڑے مدارس، جامعات، یونیورسیٹیوں، محکہ موسمیات، سپارکو جیسے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ایک چاند کا مسئلہ کیونکر حل نہیں ہوسکتا؟ کیا وجہ ہے کہ ہر سال لوگوں کی فرض عبادات، چاہے روزہ ہو یا قربانی، پر غیر یقینی کے بادل کیوں چھائے رہتے ہیں۔

بحیثیتِ قوم ہم جتنے جوش و جذبے کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتے ہیں، جتنا زور ہم عبادات و تلاوت وغیرہ پر دیتے ہیں، وہ سب اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن رمضان کا اختتام آتے آتے ہر سال چاند کا جھگڑا سر اٹھا کر آجاتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ عوامی سطح پر ایسے اختلافی امور چلتے ہی رہتے ہیں لیکن اس معاملے میں یہ اختلاف عوام کا نہیں بلکہ اہلِ علم کے درمیان ہے۔ ایک جانب مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹیاں ہیں جبکہ دوسری طرف ایک غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی ہے۔ دونوں کی سربراہی علمائے کرام کے پاس ہے، اور دونوں ہی ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم کرنا تو کجا سننے یا سمجھنے تک کو تیار نہیں۔

میں ان اختلافی معاملات کی بات نہیں کرنا چاہتا کہ کس فقہ میں رویت یا عید کےلیے کون کون سی شرائط ہیں اور پاکستان میں ان کا نفاذ کیوں نہیں ہوسکتا۔ یہ سعی لاحاصل سابق وزیر سائنس فواد چوہدری اپنے وقت میں بخوبی کرچکے ہیں۔ ہمارے کیلنڈر میں ماہ و سال سورج اور چاند دونوں پر منحصر ہیں۔ زمیں سورج کے گرد ایک سال میں اپنا چکر پورا کرتی ہے جبکہ چاند زمین کے گرد تقریباً ایک ماہ میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں، ہزاروں برسوں سے دنیا بھر میں آباد انسان اس امر سے واقف ہیں اور ان دونوں اجسامِ فلکی کی مدد سے وقت کا حساب رکھتے ہیں۔

آج ہمیں یہ ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ نئے چاند کی پیدائش کتنے بج کر کتنے منٹ پر ہوگی، کس دن اور کس وقت پر سورج اور چاند کو گرہن لگیں گے۔ لیکن ان سب کے باوجود بھی اگر ہم سال میں دو ایام کی صحیح سے تاریخ کا تعین نہ کرسکیں تو کیا فائدہ ایسی سرکاری اور پرائیوٹ کمیٹیوں کا جو صرف تفرقہ کا باعث بنتی ہیں۔


ہم جانتے ہیں کہ شوال کے چاند کی پیدائش مورخہ 20 اپریل کو صبح تقریباً 9 بجے کے لگ بھگ ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ غروبِ آفتاب تک اس نئے چاند کی عمر اندازاً 10-11 گھنٹے ہوگی۔ عمومی طور پر ماہرینِ فلکیات کہتے ہیں کہ چاند کی عمر رویت کےلیے تقریباً 20 گھنٹے ہونی چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ اس جمعرات کو سائنسی حساب سے چاند رویت کے قابل نہیں ہوگا۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی شہادت آتی ہے تو سرکاری رویت ہلال کمیٹی اس شہادت کو شاید قبول نہ کرے، جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ کمیٹی قبول کرلے تو پھر ہر سال والا تنازع درپیش ہوگا۔

اس کا مؤثر حل تو باہمی افہام و تفہیم ہی ہے جس میں ہم من حیث القوم ذرا برابر دلچسپی نہیں رکھتے۔ چلیے کچھ اور سوچتے ہیں۔ عمومی طور پر تو ان کمیٹیوں میں اصل تنازعے کا باعث رویت کی غیر مستند اور غیر مصدقہ شہادتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان شہادتوں کےلیے کوئی ایسا انتظام کرلیا جائے کہ شہادت دینے والے کی جگہ (صحیح کوآرڈی نیٹس یعنی عرض بلد اور طول بلد)، رویت کا وقت، اور چاند کی شکل کا ریکارڈ حاصل کیا جاسکے تو ان غیر مصدقہ شہادتوں کی صحیح رویت سے الگ کرنا کوئی خاص مشکل نہیں ہوگا، بھلے وہ سرکاری کمیٹی ہو یا پرائیویٹ۔

اس غرض کےلیے ایک عد د موبائل ایپ بنائی جاسکتی ہے اور یہ اصول طے کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ شہادت صرف اس ایپ کی مدد سے وصول کی جاسکے گی۔ ویسے بھی آج کل ہر کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے اور اس میں مفت انٹرنیٹ۔ ایپ اسٹور پر آپ کو کئی ایپس مل جائیں گی جو کہ آپ کو نہ صرف آسمان پر موجود ستاروں کے نام بتادیتی ہیں بلکہ سورج، چاند اور نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کا صحیح صحیح مقام بھی بتا دیتی ہیں۔ یہ ایپس ہر کسی کے استعمال کےلیے مفت دستیاب ہیں۔ ان ایپس کی دستیابی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوئی ایسی پیچیدہ ٹیکنالوجی نہیں جو پاکستان میں قابلِ عمل نہ ہوسکے۔

آج جب کہ ہماری قوم ہر ایک موضوع پر شدید قسم کی تقسیم کا شکار ہے تو ہمیں اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ایسے اختلافات اور خلیج کو دور کرتے ہوئے قومی یگانگت اور ہم آہنگی کے فروغ کےلیے کام کریں۔ بات محض نیت کی ہے اگر کسی کی ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story