چین کی حیران کن ترقی
شرح نمو مالی استحکام کا اہم جزو ہے، یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کے بغیر مالی استحکام حاصل نہیں کیا جاسکتا
عالمی مالیاتی نظام کافی دباؤ کا شکار ہے، ایسے میں چین کی اقتصادی ترقی، چین کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی استحکام کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، میڈیا نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں مانیٹری اینڈ کیپٹل مارکیٹس ڈپارٹمٹ کے اہم عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے شرح نمو مالی استحکام کا اہم جزو ہے، یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کے بغیر مالی استحکام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلے برس میں چین کی جی ڈی پی گروتھ امریکا سے بھی زیادہ ہوجائے گی اور وہ عالمی فہرست میں پہلے نمبر پہنچ جائے گا جب کہ امریکا دوسری پوزیشن پر آجائے، جاپان تیسرے اور اندیا تیسری پوزیشن پر ہوگا۔
چین نے معاشی و اقتصادی ترقی کا سفر انتہائی سکون، صبروتحمل اور لگن کے ساتھ شروع کیا، ٹیکنالوجی اور سانئسی ایجوکیشن کو ترجیح بنایا اور اس پر بھاری سرمایہ کاری کی ، اس کا نتیجہ ہے کہ آج چین ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ چین میں غربت میں کمی آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں مختلف عالمی مالیاتی و سرمایہ کاری تنظیموں اور ماہرین اقتصادیات نے چین کے معاشی اشاریوں کی زبردست پذیرائی کی ہے۔
مبصرین پر امید ہیں کہ چینی معیشت اپنی اچھی بنیادوں، موثر میکرو پالیسی پر عمل درآمد اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول کی بہتر پالیسیوں کی بدولت تیزی سے بحال ہو گی۔
جس سے عالمی ترقی کی توقعات کو بھی تقویت ملے گی۔ آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں کہا کہ 2023 میں چین کی شرح نمو 5.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں نظام زندگی اور پیداواری سرگرمیاں کس زبردست انداز سے دوبارہ بحال ہو رہی ہیں۔ چین کا 2023 میں عالمی ترقی میں حصہ تقریباً ایک تہائی ہوگا جو عالمی معیشت کے لیے خوش آیند ہے۔
قوموں کی زندگی میں بعض واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جو انھیں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مربوط کر دیتے ہیں۔ کورونا کے بحران میں دنیا نے دیکھا کہ چینی قوم مزید منظم اور متحد ہو کر اُبھری۔ وائرس کے خاتمے کے بعد چین کا دنیا بھر کے لیے فلاحی کردار رہا ہے۔
چین نے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ تعاون کیا اور ایسے ممالک جو چین کے خلاف سرگرم رہے کو بھی کووڈ سے بچاؤ کی ویکسین فراہم کی۔ اس وباء سے نمٹنے کے سلسلے میں چین ایک مددگار ملک کے طور پرسامنے آیا۔چین کی ترقی کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
چین نے زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کی۔ انتہائی مضبوط بنیادوں پر چین کا اقتصادی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔ چینی قوم نے اپنے عظیم رہنماء دنگ شیاؤ پھنگ کے ویژن پر مکمل عمل کیا اور چار دہائیوں پر مشتمل مختصر عرصے میں اپنے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اس مقام پر پہنچ گیا جہاں دوسری قوموں کو پہنچنے میں شاید صدیاں لگیں۔
چین نے اس عرصے میں ترقی کے وہ کمالات کر دکھائے ہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ترقی کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے چینی قوم نے متحد ہو کر زبردست جدوجہد کی۔ ایسے لگتا ہے کہ چینی قوم نے بانی پاکستان قائد اعظم کے قول '' کام، کام اور بس کام '' پر صحیح معنوں میں عمل کیا۔ کاش ہم بابائے قوم کے احکامات پر عمل کرتے تو آج ترقی کر چکے ہوتے۔
چینی لیڈر شپ نے اپنی تمام تر توجہ تعمیر و ترقی پر مرکوز رکھی۔ چین کی قیادت نے عالمی اور علاقائی تنازعات میں الجھنے سے گریز کیا ، یہی وجہ ہے کہ آج امریکا ہو یا یورپ یا کوئی اور ملک چین کی محیر العقول ترقی سے ورطہ حیرت میں ہیں۔
عالمی اقتصادی طاقت کا یہ مقام حاصل کرنے میں چین کو صدیاں نہیں صرف چار دہائیاں لگیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ امریکا کے بعد سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ہے اور تیل کا یہ تجارتی لین دین چین کی کرنسی یوان میں ہوگا۔ جس سے امریکی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن ڈالر کے مستقبل کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
چین کے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے سے بحیرہ ہند، جنوب مشرقی ایشیا اور جزیرہ نما کوریا میں چین کے اثر و نفوذ کو کم کرنے کی امریکی پالیسی بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں امریکا کا بڑا اتحادی بھارت بھی روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور امریکا اپنے پرانے اتحادی سعودی عرب کے ذریعے روس کی معیشت پر اثر انداز ہونے میں بھی ناکام رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا ہے کہ چینی معیشت میں زبردست بحالی ہوئی ہے اور آئی ایم ایف کی جنوری کی پیش گوئی کے مطابق رواں سال اس کی جی ڈی پی نمو 5.2 فیصد ہے جو 2022 کی شرح سے 2 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔ جارجیوا کے مطابق آئی ایم ایف کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے چین میں جی ڈی پی کی نمو میں ایک فیصد پوائنٹ کا اضافہ دیگر ایشیائی معیشتوں میں اوسطا 0.3 فیصد پوائنٹ کا اضافہ کرتا ہے۔
البتہ عالمی معیشت کے لیے ابھی بہار آنا باقی ہے۔ یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق حالیہ دہائیوں میں چین کھپت، تجارت اور سرمایہ کاری میں عالمی اقتصادی رہنما کے طور پر ابھرا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انھی معاشی کامیابیوں کے ثمرات ہیں کہ چین نے عالمی ترقی کے انجن کے طور پر بامعنیٰ کردار ادا کیا ہے۔
عالمی اداروں اور معاشی ماہرین کے چین پربھر پور اعتماد کا نچوڑ یہی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت زوال پذیر ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی شدید کساد بازاری کا شکار ہوسکتے ہیں تو، صرف چین ہی وہ ملک ہے جو عالمی ترقی کا ایک بڑا انجن اور متحرک قوت بنا رہے گا۔
چین کی ترقی پوری دنیا کے لیے بالعموم اور پاکستان بالخصوص توجہ کا باعث ہونی چاہیے۔چین نے محیر العقول ترقی کر لی، کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں رہ گئے؟
دنیا کے مختلف اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک میں چین نے مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں جس سے ان ممالک میں ترقی کا دور شروع ہو رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ایک عظیم وژن اور منصوبہ جو پوری دنیا کو امن اور ترقی سے منسلک کرتا ہے۔
چین نے جس انداز میں دنیا کے سامنے ترقی اور خوشحالی کا منصوبہ متعارف کرایا ہے اس سے ایک طرف ان کی قدرومنزلت میں اضافہ اور یہ ثابت ہوا کہ چین ''مشترکہ خوشحالی'' اور '' مشترکہ ترقی'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ترقی کے مقام پر چین پہنچ چکا ہے، اس سے پاکستان ہی نہیں خطے کے دیگر ممالک بالخصوص افغانستان بھی فائدہ اٹھا کر اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
چین کے اقتصادی منصوبوں بالخصوص سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ میں شامل ہوکر افغانستان پاکستان اور دیگر ممالک زبردست ترقی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو صرف چین ہی وہ واحد ملک ہے جس کے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن عملاً صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اگر اپنے مسائل پر قابو پانا چاہتا ہے تو چین سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
چین نے ایک ایسے موقع پر سی پیک منصوبہ کا آغاز کیا جب پاکستان معاشی لحاظ سے مشکلات سے دوچار تھا۔ یہ بہترین وقت ہے کہ چین اور پاکستان اپنی ترجیحات کو ازسر نو مرتب کریں۔ انسانی تحفظ، انسانی ترقی، صحت کی بہتر دیکھ بھال اور ماحولیاتی تبدیلی پر توجہ مرکوز کریں۔
پاکستان کی قیادت اور عوام کو چین کی ترقی کا ایک '' کیس اسٹڈی'' کے طور پر بغور اور گہرا جائزہ لینا چاہیے۔ چین نے اس قلیل عرصے میں کیسے ترقی کی اور وہ کونسے اقدامات اور عوامل تھے جن کے باعث آج چین کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت میں شمار ہو رہی ہے۔ چین کی ترقی پاکستان کے لیے باعث تقلید ہونا چاہیے۔
چین کی قیادت نے عالمی تنازعات میں نہ الجھنے کی جو پالیسی اپنائی' اس کی بدولت چین کی معیشت مستحکم رفتار کے ساتھ چلتی رہی' جیسے جیسے معیشت رواں ہوتی گئی۔
اس کی رفتار بھی بڑھتی گئی' چین کی قیادت نے زرعی معیشت اور صنعتی معیشت پر یکساں کام کیا ' سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور ریسرچ پر بھاری بجٹ خرچ کیا گیا جس کے نتیجے میں چین کے پاس جدید علوم سے لیس افرادی قوت وجود میں آئی ' جدید علوم سے لیس اس قوت نے معیشت کو پرانے عہد سے نکال کر جدید دور میں داخل کر دیا ۔آج چین عالمی کھیل کا اہم کھلاڑی بن گیا ہے۔ پاکستان کی قیادت کو بھی یہی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلے برس میں چین کی جی ڈی پی گروتھ امریکا سے بھی زیادہ ہوجائے گی اور وہ عالمی فہرست میں پہلے نمبر پہنچ جائے گا جب کہ امریکا دوسری پوزیشن پر آجائے، جاپان تیسرے اور اندیا تیسری پوزیشن پر ہوگا۔
چین نے معاشی و اقتصادی ترقی کا سفر انتہائی سکون، صبروتحمل اور لگن کے ساتھ شروع کیا، ٹیکنالوجی اور سانئسی ایجوکیشن کو ترجیح بنایا اور اس پر بھاری سرمایہ کاری کی ، اس کا نتیجہ ہے کہ آج چین ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ چین میں غربت میں کمی آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں مختلف عالمی مالیاتی و سرمایہ کاری تنظیموں اور ماہرین اقتصادیات نے چین کے معاشی اشاریوں کی زبردست پذیرائی کی ہے۔
مبصرین پر امید ہیں کہ چینی معیشت اپنی اچھی بنیادوں، موثر میکرو پالیسی پر عمل درآمد اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول کی بہتر پالیسیوں کی بدولت تیزی سے بحال ہو گی۔
جس سے عالمی ترقی کی توقعات کو بھی تقویت ملے گی۔ آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں کہا کہ 2023 میں چین کی شرح نمو 5.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں نظام زندگی اور پیداواری سرگرمیاں کس زبردست انداز سے دوبارہ بحال ہو رہی ہیں۔ چین کا 2023 میں عالمی ترقی میں حصہ تقریباً ایک تہائی ہوگا جو عالمی معیشت کے لیے خوش آیند ہے۔
قوموں کی زندگی میں بعض واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جو انھیں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مربوط کر دیتے ہیں۔ کورونا کے بحران میں دنیا نے دیکھا کہ چینی قوم مزید منظم اور متحد ہو کر اُبھری۔ وائرس کے خاتمے کے بعد چین کا دنیا بھر کے لیے فلاحی کردار رہا ہے۔
چین نے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ تعاون کیا اور ایسے ممالک جو چین کے خلاف سرگرم رہے کو بھی کووڈ سے بچاؤ کی ویکسین فراہم کی۔ اس وباء سے نمٹنے کے سلسلے میں چین ایک مددگار ملک کے طور پرسامنے آیا۔چین کی ترقی کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
چین نے زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کی۔ انتہائی مضبوط بنیادوں پر چین کا اقتصادی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔ چینی قوم نے اپنے عظیم رہنماء دنگ شیاؤ پھنگ کے ویژن پر مکمل عمل کیا اور چار دہائیوں پر مشتمل مختصر عرصے میں اپنے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اس مقام پر پہنچ گیا جہاں دوسری قوموں کو پہنچنے میں شاید صدیاں لگیں۔
چین نے اس عرصے میں ترقی کے وہ کمالات کر دکھائے ہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ترقی کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے چینی قوم نے متحد ہو کر زبردست جدوجہد کی۔ ایسے لگتا ہے کہ چینی قوم نے بانی پاکستان قائد اعظم کے قول '' کام، کام اور بس کام '' پر صحیح معنوں میں عمل کیا۔ کاش ہم بابائے قوم کے احکامات پر عمل کرتے تو آج ترقی کر چکے ہوتے۔
چینی لیڈر شپ نے اپنی تمام تر توجہ تعمیر و ترقی پر مرکوز رکھی۔ چین کی قیادت نے عالمی اور علاقائی تنازعات میں الجھنے سے گریز کیا ، یہی وجہ ہے کہ آج امریکا ہو یا یورپ یا کوئی اور ملک چین کی محیر العقول ترقی سے ورطہ حیرت میں ہیں۔
عالمی اقتصادی طاقت کا یہ مقام حاصل کرنے میں چین کو صدیاں نہیں صرف چار دہائیاں لگیں۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ امریکا کے بعد سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ہے اور تیل کا یہ تجارتی لین دین چین کی کرنسی یوان میں ہوگا۔ جس سے امریکی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن ڈالر کے مستقبل کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
چین کے مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے سے بحیرہ ہند، جنوب مشرقی ایشیا اور جزیرہ نما کوریا میں چین کے اثر و نفوذ کو کم کرنے کی امریکی پالیسی بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں امریکا کا بڑا اتحادی بھارت بھی روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور امریکا اپنے پرانے اتحادی سعودی عرب کے ذریعے روس کی معیشت پر اثر انداز ہونے میں بھی ناکام رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے کہا ہے کہ چینی معیشت میں زبردست بحالی ہوئی ہے اور آئی ایم ایف کی جنوری کی پیش گوئی کے مطابق رواں سال اس کی جی ڈی پی نمو 5.2 فیصد ہے جو 2022 کی شرح سے 2 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔ جارجیوا کے مطابق آئی ایم ایف کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے چین میں جی ڈی پی کی نمو میں ایک فیصد پوائنٹ کا اضافہ دیگر ایشیائی معیشتوں میں اوسطا 0.3 فیصد پوائنٹ کا اضافہ کرتا ہے۔
البتہ عالمی معیشت کے لیے ابھی بہار آنا باقی ہے۔ یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق حالیہ دہائیوں میں چین کھپت، تجارت اور سرمایہ کاری میں عالمی اقتصادی رہنما کے طور پر ابھرا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انھی معاشی کامیابیوں کے ثمرات ہیں کہ چین نے عالمی ترقی کے انجن کے طور پر بامعنیٰ کردار ادا کیا ہے۔
عالمی اداروں اور معاشی ماہرین کے چین پربھر پور اعتماد کا نچوڑ یہی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت زوال پذیر ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی شدید کساد بازاری کا شکار ہوسکتے ہیں تو، صرف چین ہی وہ ملک ہے جو عالمی ترقی کا ایک بڑا انجن اور متحرک قوت بنا رہے گا۔
چین کی ترقی پوری دنیا کے لیے بالعموم اور پاکستان بالخصوص توجہ کا باعث ہونی چاہیے۔چین نے محیر العقول ترقی کر لی، کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں رہ گئے؟
دنیا کے مختلف اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک میں چین نے مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں جس سے ان ممالک میں ترقی کا دور شروع ہو رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ایک عظیم وژن اور منصوبہ جو پوری دنیا کو امن اور ترقی سے منسلک کرتا ہے۔
چین نے جس انداز میں دنیا کے سامنے ترقی اور خوشحالی کا منصوبہ متعارف کرایا ہے اس سے ایک طرف ان کی قدرومنزلت میں اضافہ اور یہ ثابت ہوا کہ چین ''مشترکہ خوشحالی'' اور '' مشترکہ ترقی'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ترقی کے مقام پر چین پہنچ چکا ہے، اس سے پاکستان ہی نہیں خطے کے دیگر ممالک بالخصوص افغانستان بھی فائدہ اٹھا کر اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
چین کے اقتصادی منصوبوں بالخصوص سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ میں شامل ہوکر افغانستان پاکستان اور دیگر ممالک زبردست ترقی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو صرف چین ہی وہ واحد ملک ہے جس کے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن عملاً صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اگر اپنے مسائل پر قابو پانا چاہتا ہے تو چین سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
چین نے ایک ایسے موقع پر سی پیک منصوبہ کا آغاز کیا جب پاکستان معاشی لحاظ سے مشکلات سے دوچار تھا۔ یہ بہترین وقت ہے کہ چین اور پاکستان اپنی ترجیحات کو ازسر نو مرتب کریں۔ انسانی تحفظ، انسانی ترقی، صحت کی بہتر دیکھ بھال اور ماحولیاتی تبدیلی پر توجہ مرکوز کریں۔
پاکستان کی قیادت اور عوام کو چین کی ترقی کا ایک '' کیس اسٹڈی'' کے طور پر بغور اور گہرا جائزہ لینا چاہیے۔ چین نے اس قلیل عرصے میں کیسے ترقی کی اور وہ کونسے اقدامات اور عوامل تھے جن کے باعث آج چین کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت میں شمار ہو رہی ہے۔ چین کی ترقی پاکستان کے لیے باعث تقلید ہونا چاہیے۔
چین کی قیادت نے عالمی تنازعات میں نہ الجھنے کی جو پالیسی اپنائی' اس کی بدولت چین کی معیشت مستحکم رفتار کے ساتھ چلتی رہی' جیسے جیسے معیشت رواں ہوتی گئی۔
اس کی رفتار بھی بڑھتی گئی' چین کی قیادت نے زرعی معیشت اور صنعتی معیشت پر یکساں کام کیا ' سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور ریسرچ پر بھاری بجٹ خرچ کیا گیا جس کے نتیجے میں چین کے پاس جدید علوم سے لیس افرادی قوت وجود میں آئی ' جدید علوم سے لیس اس قوت نے معیشت کو پرانے عہد سے نکال کر جدید دور میں داخل کر دیا ۔آج چین عالمی کھیل کا اہم کھلاڑی بن گیا ہے۔ پاکستان کی قیادت کو بھی یہی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔