سپریم کورٹ کا حکومت کو الیکشن کیلیے 27 اپریل تک فنڈز دینے کا حکم

وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہونے کی بنا پر نمٹائی جا رہی ہے، انحراف کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو 27 اپریل تک فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے پر امن ، منصفانہ اور شفاف انتخابات پر زور دیا، درخواست گزار کے مطابق عام انتخابات میں شرکت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام اور مفاہمت ہونی چاہیے۔

درخواست گزار کے مطابق 1970,1977 کے انتخابات کے برعکس ایک وقت انتخابات ہونے کے زیادہ بہتر نتائج نکلے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظرمیں درخواست گزار کا موقف مناسب ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ سیاسی مذاکرات کو عدالت کے 14 مئی کے حکم سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا، ہم درخواست گزار کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:انتخابات کیس؛ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما سپریم کورٹ طلب

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی انتخابات اکتوبر میں کروانے کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ 14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم حتمی ہو چکا، قومی اسمبلی سے انتخابات کے لیے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں، بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اکثریت کھونے کے ممکنات کو اٹارنی جنرل نے یکسر مسترد کردیا ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم اور کابینہ پر پارلیمان کی اکثریت کا اعتماد ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالتی حکم عدولی اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج بارے حکومت کو بتائیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل دستخط کیے بغیر واپس بھیج دیا

سپیریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہونے کی بنا پر نمٹائی جا رہی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مذاکرات کو عدالت کے 14 مئی کے حکم سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا، ہم درخواست گزار کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، 14مئی کو انتخابات کروانے کا حکم حتمی ہو چکا، جمہوریت اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد ہے، انتخابات بل کے مسترد ہونے کے سنجیدہ نتائج ہیں، آئین کے مطابق وزیر اعظم کو اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد لازم ہے، قومی اسمبلی سے رقم کے بل کے مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بل مسترد ہونے کا ایک ممکنہ اثر یہ ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے، اکثریت کھونے کے ممکنات کو اٹارنی جنرل نے یکسر مسترد کردیا، اٹارنی جنرل کے مطابق وزیر اعظم اور کابینہ پر پارلیمان کی اکثریت کا اعتماد ہے۔ ڈیماندڈ مسترد ہونے کی صورت حال کو جلد تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ عدالتی حکم عدولی اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔


سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل عدالتی حکم عدولی کے نتائج بارے حکومت کو بتائیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔

واضح رہے کہ 18 اپریل کو وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے پنجاب میں الیکشن کا حکم واپس لینے اور ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا کی تھی۔

وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے، قومی،بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ہی انتخابات کرائے جائیں۔

اور پڑھیں؛ الیکشن فنڈز بل مسترد کرنے کی سفارشات سینیٹ سے منظور

وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ انتخابات کیلیے 3 لاکھ 85 ہزار سے زائد آرمڈ فورس اور رینجرز کے جوانوں کی خدمات درکار ہوں گی، سیاسی حالات کے پیش نظر اضافی نفری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موجودہ صورت حال کی روشنی میں پولیس سیکیورٹی انتظامات کیلیے ناکافی ہوگی جبکہ کے پی اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی وجہ سے جوانوں کو فوری ہٹانا ممکن نہیں ہے، ان دونوں صوبوں میں آپریشنز کی وجہ سے ہی پنجاب اور سندھ کی صورت حال بہتر ہے اگر جوانوں کو ہٹایا گیا تو پنجاب اور سندھ میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوجائے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر کے آغاز تک سیکیورٹی فورسز دستیاب ہوں گی۔

مزید پڑھیں: الیکشن فنڈز کی عدم فراہمی کی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو فنڈ نہ ملنے سمیت ساری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے رپورٹ سپریم کورٹ رجسٹرار کو جمع کرادی تھی جبکہ اسٹیٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں الیکشن کمیشن کو رقم منتقل نہ کرنے کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔

اسٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک کو فنڈ کے اجرا سے روکا ہے۔ علاوہ ازیں وزارت خزانہ نے بھی اپنی رپورٹ اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے جمع کرائی تھی جس میں وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات ایک ہی وقت میں نہ کرائے گئے تو انارکی پھیلے گی، الیکشن کمیشن

وزارت خزانہ کی رپورٹ میں عدالتی حکم پر اسٹیٹ بینک کو فراہم کردہ معاونت کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا تھا جبکہ فنڈز منتقلی پر قانونی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔
Load Next Story