وہ دن ہوا ہوئے…
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہوشرباء مہنگائی نے ہمیں اپنے پیاروں سے دور کر دیا ہے
رمضان المبارک کا آخری عشرہ اختتام پذیر ہونے کوہے، یہ مہینہ مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ہے جس میں وہ اپنے رب کے حضور سر بسجود اور اس کی بے پایاں رحمت کے طلب گار رہتے ہیں۔
حکومت نے شاید یہ سوچا ہو، عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ان کو یہ بہانہ مل جائے کہ وہ سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور اسی کو بہانہ بنا کر وہ اپنے عزیز و اقرباء سے معذرت کر لیں۔
لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ چند روز کے لیے موخر کر لیا جاتا، عوام کو یہ جھٹکا عید کے بعد بھی دیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کہ یہ مجبوری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد کر رہی ہے لیکن یہ عالمی ساہوکار ادارہ حکومت کی تمام تر کاوشوں اور اس کی شرائط پر عمل کرنے کے باوجود بھی قرض دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف فرماتے ہیں کہ دوست ممالک کی جانب سے قرض کے وعدے پاکستان کے مالیاتی تقاضوں سے کم ہیں اور پاکستان کو مزید تین ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔ جب کہ تیرہ رکنی حکومتی اتحاد کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔
اب معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کی اس سادگی پر کون نہ مرجائے کہ جس نے قرض دینا ہے اس کے تقاضوں میں مسلسل اضافہ ہو تا جارہا ہے اور ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس سے اپنی مرضی کا کوئی معاہدہ یا رعایت حاصل کر سکیں۔ مخدوش معاشی صورتحال میں عوام کو مزید ظلم سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے لیکن معلوم نہیں کہ عوام کے لیے ستم کی اس رات کی سحر کب ہو گی۔
بات رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے شروع کی تھی لیکن مہنگائی نے مت ہی مار دی ہے اور خیالات کہیں سے کہیں نکل گئے۔ مہنگائی نے زمانے کو بدل دیا ہے اور زمانہ کیا بدلہ دنیا ہی اور سے اور ہو گئی ہے۔ زمانے کے اسی بدلنے میں ہمارے معاشرے کی روایات بھی کہیں گم ہو گئی ہیں۔ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ،روزی روزگار کے سلسلے میں شہروں میں مقیم خاندان ہر عید کے موقع پرآبائی گاؤں ضرور واپس لوٹتے تھے اور عید سے چند روز پہلے ہی گاؤں کی رونق میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
گلی محلوں میں ان پردیسیوں کے دم سے رونقیں دوبالا ہو جاتیں اور گاؤں کی ہر بیٹھک اور چوپال ان دنوں آباد ہو جاتی تھی۔ دور علاقوں سے آئے یہ پردیسی گاؤں میں اپنے عزیز رشتہ داروں اوربچوں کے لیے عید کی مناسبت سے شہری تحائف بھی لاتے تھے۔
سر شام ہر گھر کے صحن آباد ہوجاتے تھے، مغرب کی اذان کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا اور پھر چائے پر گپ شپ شروع ہو جاتی تھی جو رات گئے تک چلتی رہتی تھی۔ گاؤں میں رہنے والی مائیں عید پراپنے بیٹوں کی منتظر رہتی تھیں اور یہ وہ موقع ہوتا تھا کہ ان کے بیٹے جو روز گار کے سلسلے میں کہیںدور مقیم ہوتے وہ اپنے عید پرآبائی گھر ضرور واپس لوٹتے تھے اور اپنی ماؤں کی پیاسی ممتا کی پیاس بجھاتے تھے۔
میری دادی مرحومہ جب تک زندہ رہیں، والد صاحب ہر عید پر لاہور سے گاؤں جاتے تھے اور ان کے ساتھ عید کے چند روز گزار کراور ڈھیروں بے لوث دعاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر واپس لاہور روانہ ہوتے تھے۔ عید کے موقع پر گاؤں کی مرکزی شاہراہ پردیسیوں کی گاڑیوں سے بھر جاتی تھی جو بچوں کے لیے ایک نئی تفریح کا باعث ہوتی تھی اور وہ عید کے روز اپنے عزیزوں کی گاڑیوں پرپکنک منانے ضرور جاتے تھے۔
ایک سادگی تھی، شائستگی تھی، پیار تھا، وضع داری تھی، سماجی روایات تھیں جن کی پاسداری ہر ایک خوشی خوشی کرتا تھا لیکن پھر رشتے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے گئے اورآج وہ وقت آگیا ہے کہ کسی تہوار پر آبائی علاقوں کولوٹنے والے اب کسی مجبور ی میں بھی سفرسے کتراتے ہیں اور فون پر ہی معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ بڑھتی مہنگائی نے ہم سے یہ دائمی خوشیاں بھی چھین لی ہیں اور اب چاہت کے باوجود بھی سفر کے اسباب اتنے مشکل اور مہنگے ہو گئے ہیں کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہوشرباء مہنگائی نے ہمیں اپنے پیاروں سے دور کر دیا ہے اور سال میں ایک دو دفعہ جو مل بیٹھنے کا بہانہ مل جاتا تھا وہ بہانہ بھی اس ظالم زمانے نے ہم سے چھین لیا ہے۔ یہ کسی ایک کی نہیں ہم سب کی کہانی ہے اور وہ وقت اب آگیا ہے جب یہ تہوار ہمارے لیے ایک معمول کی چھٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں اورہم فون پر ہی ان تہواروں کی مبارکباد دے کر خوش ہو جاتے ہیں۔
متحدہ ہندوستان کے بے مثال شاعر لالہ مادھو رام جوہرؔ شاید انھی دنوں کی پیش بینی میں کہہ گئے کہ۔۔۔
کیا یاد کر کے روؤں کہ کیسا شباب تھا
کچھ بھی نہ تھا، ہوا تھی۔ کہانی تھی، خواب تھا
اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا
پردیسوں کی آبائی علاقوں میں واپسی کے لیے حکومت نے عید سے پہلے چھٹیوں کا اعلان کر دیا ہے لیکن ساتھ ہی پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کا بھی اعلان کر دیا ہے، شاید حکمران یہ نہیں چاہتے ہیں کہ پردیسی اپنے آبائی گھروں میں واپس جائیں اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوں۔
حکومت نے شاید یہ سوچا ہو، عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ان کو یہ بہانہ مل جائے کہ وہ سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور اسی کو بہانہ بنا کر وہ اپنے عزیز و اقرباء سے معذرت کر لیں۔
لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ چند روز کے لیے موخر کر لیا جاتا، عوام کو یہ جھٹکا عید کے بعد بھی دیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کہ یہ مجبوری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد کر رہی ہے لیکن یہ عالمی ساہوکار ادارہ حکومت کی تمام تر کاوشوں اور اس کی شرائط پر عمل کرنے کے باوجود بھی قرض دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف فرماتے ہیں کہ دوست ممالک کی جانب سے قرض کے وعدے پاکستان کے مالیاتی تقاضوں سے کم ہیں اور پاکستان کو مزید تین ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔ جب کہ تیرہ رکنی حکومتی اتحاد کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔
اب معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کی اس سادگی پر کون نہ مرجائے کہ جس نے قرض دینا ہے اس کے تقاضوں میں مسلسل اضافہ ہو تا جارہا ہے اور ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس سے اپنی مرضی کا کوئی معاہدہ یا رعایت حاصل کر سکیں۔ مخدوش معاشی صورتحال میں عوام کو مزید ظلم سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے لیکن معلوم نہیں کہ عوام کے لیے ستم کی اس رات کی سحر کب ہو گی۔
بات رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے شروع کی تھی لیکن مہنگائی نے مت ہی مار دی ہے اور خیالات کہیں سے کہیں نکل گئے۔ مہنگائی نے زمانے کو بدل دیا ہے اور زمانہ کیا بدلہ دنیا ہی اور سے اور ہو گئی ہے۔ زمانے کے اسی بدلنے میں ہمارے معاشرے کی روایات بھی کہیں گم ہو گئی ہیں۔ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ،روزی روزگار کے سلسلے میں شہروں میں مقیم خاندان ہر عید کے موقع پرآبائی گاؤں ضرور واپس لوٹتے تھے اور عید سے چند روز پہلے ہی گاؤں کی رونق میں اضافہ ہو جاتا تھا۔
گلی محلوں میں ان پردیسیوں کے دم سے رونقیں دوبالا ہو جاتیں اور گاؤں کی ہر بیٹھک اور چوپال ان دنوں آباد ہو جاتی تھی۔ دور علاقوں سے آئے یہ پردیسی گاؤں میں اپنے عزیز رشتہ داروں اوربچوں کے لیے عید کی مناسبت سے شہری تحائف بھی لاتے تھے۔
سر شام ہر گھر کے صحن آباد ہوجاتے تھے، مغرب کی اذان کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا اور پھر چائے پر گپ شپ شروع ہو جاتی تھی جو رات گئے تک چلتی رہتی تھی۔ گاؤں میں رہنے والی مائیں عید پراپنے بیٹوں کی منتظر رہتی تھیں اور یہ وہ موقع ہوتا تھا کہ ان کے بیٹے جو روز گار کے سلسلے میں کہیںدور مقیم ہوتے وہ اپنے عید پرآبائی گھر ضرور واپس لوٹتے تھے اور اپنی ماؤں کی پیاسی ممتا کی پیاس بجھاتے تھے۔
میری دادی مرحومہ جب تک زندہ رہیں، والد صاحب ہر عید پر لاہور سے گاؤں جاتے تھے اور ان کے ساتھ عید کے چند روز گزار کراور ڈھیروں بے لوث دعاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر واپس لاہور روانہ ہوتے تھے۔ عید کے موقع پر گاؤں کی مرکزی شاہراہ پردیسیوں کی گاڑیوں سے بھر جاتی تھی جو بچوں کے لیے ایک نئی تفریح کا باعث ہوتی تھی اور وہ عید کے روز اپنے عزیزوں کی گاڑیوں پرپکنک منانے ضرور جاتے تھے۔
ایک سادگی تھی، شائستگی تھی، پیار تھا، وضع داری تھی، سماجی روایات تھیں جن کی پاسداری ہر ایک خوشی خوشی کرتا تھا لیکن پھر رشتے بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے گئے اورآج وہ وقت آگیا ہے کہ کسی تہوار پر آبائی علاقوں کولوٹنے والے اب کسی مجبور ی میں بھی سفرسے کتراتے ہیں اور فون پر ہی معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ بڑھتی مہنگائی نے ہم سے یہ دائمی خوشیاں بھی چھین لی ہیں اور اب چاہت کے باوجود بھی سفر کے اسباب اتنے مشکل اور مہنگے ہو گئے ہیں کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہوشرباء مہنگائی نے ہمیں اپنے پیاروں سے دور کر دیا ہے اور سال میں ایک دو دفعہ جو مل بیٹھنے کا بہانہ مل جاتا تھا وہ بہانہ بھی اس ظالم زمانے نے ہم سے چھین لیا ہے۔ یہ کسی ایک کی نہیں ہم سب کی کہانی ہے اور وہ وقت اب آگیا ہے جب یہ تہوار ہمارے لیے ایک معمول کی چھٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں اورہم فون پر ہی ان تہواروں کی مبارکباد دے کر خوش ہو جاتے ہیں۔
متحدہ ہندوستان کے بے مثال شاعر لالہ مادھو رام جوہرؔ شاید انھی دنوں کی پیش بینی میں کہہ گئے کہ۔۔۔
کیا یاد کر کے روؤں کہ کیسا شباب تھا
کچھ بھی نہ تھا، ہوا تھی۔ کہانی تھی، خواب تھا
اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا