افتادگان خاک کا مخدوش مستقبل
پی ٹی آئی حکومت نے غربت کے خاتمہ کا ایک حل اسلام آباد اور لاہور میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نکالا
چاروں صوبوں میں مفت آٹا لینے والے افراد لائنوں میں کھڑے بے توقیر ہورہے ہیں۔ اب تک آٹا لینے میں بھگدڑ سے 20 کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
کراچی میں سائٹ کے علاقہ میں ایک بند فیکٹری میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران مرنے والو ں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، جو لوگ قطار میں لگے دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے ان کی تعداد علیحدہ ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اس صورتحال پر سخت ریمارکس دیے ہیں اور آٹا کی قطار میں کھڑے افراد کی تشہیر پر پابندی بھی لگادی گئی ہے۔
حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ اب تک آٹا کے 20 لاکھ تھیلے تقسیم ہوچکے ہیں مگر قطار میں لگنے والے افراد کی تعداد کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ پنجاب میں رمضان سے قبل 1156 روپے میں 10 کلو آٹا دستیاب تھا مگر اب کھلی مارکیٹ میں اس کی قیمت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ایک غریب آدمی اس کو خرید نہیں سکتا۔
گزشتہ کئی برسوں میں غربت کی لکیر کے نیچے آنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے، گزشتہ ایک سال کی کساد بازاری، بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روزگار سے محرومی پر مصارف زندگی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ کارخانوں کے بند ہونے، خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کے بحران نے لاکھوں افراد سے روزگار چھین لیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کی فصل خراب ہونے اور بڑے پیمانے پر افغانستان اسمگلنگ، روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں دنیا بھر میں گندم کی قیمتوں میں بڑھنے کے اثرات آٹے کی قیمتوں پر پڑے ہیں۔
گزشتہ سال جنوبی پنجاب اور سندھ میں آنے والے سیلاب نے صورتحال کو مزید ناگفتہ بہ کردیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی پیداوار کے بارے میں جو تخمینہ لگائے تھے وہ غلط ثابت ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھا ہوا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک 75 لاکھ افراد میں 8500 روپے کی سہ ماہی رقم ادا کی جاچکی ہے اور 90 لاکھ خاندانوں کو تعلیمی وظائف بھی دیے گئے ہیں۔
اس پروگرام کے بانی ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مربوط نظام کی مدد سے اس نظام کو شفاف بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس مقصد کے لیے رقم وصول کرنے والی خواتین کی معاشی حیثیت کا تعین کا کئی طریقہ کار سے وضح کیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس پروگرام کی کامیابی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ حقیقت ثابت نہ ہوسکے۔
پی ٹی آئی حکومت نے غربت کے خاتمہ کا ایک حل اسلام آباد اور لاہور میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نکالا۔ یہاں چند سو افراد کو رہائش کے ساتھ کھانا پینا فراہم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس راشن پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام میں رمضان پیکیج بھی شامل تھا۔
یہ پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے خاصا مختلف تھا۔ اس پروگرام کے تحت غریب افراد قریبی دکان سے اپنی روزمرہ کی اشیاء حاصل کرسکتے تھے۔ سابقہ حکومت کا دعوی ٰ تھا کہ تقریباً 20 ملین افراد کو ہر ماہ ایک ہزار روپے تک زرتلافی دی جارہی تھی۔
اس پروگرام کے لیے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقہ کار کے تحت شناختی کارڈ کے ذریعہ رجسٹریشن ہوتی تھی۔ یہ پروگرام کچھ شہروں تک محدود رہا۔ موجودہ حکومت نے معاشی بحران کی بناء پر اس پروگرام کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مذہبی اور سماجی تنظیمیں رمضان المبارک کے دوران راشن کی مفت تقسیم، سحری اور افطار کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیاضی کی شرح جی ڈی پی کے ایک فیصد کے قریب ہے۔ یہ شرح تقریباً تمام یورپی ممالک میں ہونے والی شرح کے قریب ہے مگر تمام سرکاری پالیسیوں اور غیر ریاستی عناصر کی فیاضی کے باوجود غربت کی شرح کم نہیں ہورہی۔ ایک اندازے میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 42.5 فیصد ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2018میں 3 ملین افراد غربت کی لکیر کے نیچے آچکے ہیں ۔
عالمی بینک کی نئی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں مزید 39 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے جائیں گے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ شہری علاقوں کے مقابلہ میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے مگر غیر سرکاری فیاضی کی تمام اسکیمیں شہروں میں جاری ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں سے غریب لوگ مفت آٹا اور رمضان کے راشن کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف حکومتوں کے غربت کے خاتمہ کے پروگراموں اور سماجی تنظیموں کے فیاضی کے پروگراموں کے باوجود صورتحال انتہائی خراب ہے اور جب تک غربت کے خاتمہ کی حقیقی وجوہات ختم نہیں ہونگی آٹا کی تلاش میں آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمہ کی بنیادی وجوہات کے خاتمہ کے بغیر یہ صورتحال مزید گھمبیر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ غربت کے بڑھنے کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ جنوری 2023ء تک ملنے والے اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی آبادی 238.1 ملین تھی۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2022سے 2023 کے درمیان آبادی میں 4.6ملین (12.6 percent) اضافہ ہوا تھا۔
اب اگلے چند ماہ میں جب ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج سامنے آئیں گے تو یقیناً آبادی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ شرح پڑوسی ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے زیادہ ہے۔ ملک میں آبادی پر کنٹرول کرنے کی کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔ آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی طرح مہم شروع ہو تو کچھ مثبت نتائج حاصل کرسکتے تھے۔
صنعتی ترقی غربت کے خاتمہ کا ایک بڑا محرک بن سکتا ہے۔ بنگلہ دیش جب آزاد ہوا تو پاکستان سے غریب ملک تھا، اب بنگلہ دیش میں 32 لاکھ خواتین فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 51 لاکھ خواتین بے نظیر سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام اور مفت راشن کی لائنوں میں لگی ہوئی ہیں۔ خواتین میں خاص طور پر خواندگی کی شرح بڑھانے اور انھیں روزگار کی سہولتوں کی فراہمی سے غربت کم ہوسکتی ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین نے زرعی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے نہری علاقہ 45 ملین ایکڑ اور زیر ِ زمین پانی کے وسیع ذخائر سے مالامال ملک کی زراعت گزشتہ دو عشروں سے جمود کا شکار ہے۔
گزشتہ سال سیلاب سے تباہی آئی ہے اور اب پانی نگرانی کے ادارہ ارسا کا کہنا ہے کہ خریف کی فصل میں پانی کی کمی 37فیصد تک پہنچ جائے گی۔ گزشتہ ہفتہ پنجاب میں شدید بارشوں سے گندم اور کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کو بے زمین کسانوں کو زمین دینے، نئی زرعی اصلاحات کرنے اور زراعت کی ترقی کے لیے جدید ترین طریقوں کے فوری استعمال پر توجہ دینا ہوگی۔
بلوچستان میں تو سی پیک کے منصوبہ پر عملدرآمد کے باوجود خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ صوبہ میں سڑکوں کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی کمزور تھا مگر گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے ریت پر بنی سڑکوں کو مٹادیا۔ سندھ میں انفرااسٹرکچر خاصی اچھی حالت میں ہے۔
اگرچہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے پورے سندھ کے انفرااسٹرکچر کو تہہ و بالا کیا تھا مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے دیہی علاقوں میں کارخانوں کے قیام پر توجہ نہیں دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹل فارمنگ اور زراعت پر انحصار کرنے والی صنعتیں ہر اضلاع میں قائم ہوں، حکومت ان صنعتوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے، کارخانہ لگانے میں رشوت کے عنصر کو ختم کردیا جائے تو سستی اشیاء غیر ممالک میں مارکیٹ بناسکتی ہیں۔
پنجاب کی حکومت جنوبی پنجاب میں صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتے تو روزگار کی سہولتیں غربت کی شرح کو کم کرسکتی ہیں۔ خیبرپختون خوا میں دہشت گردی صنعتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاحت کے شعبہ کو ترقی دی جائے تو صوبے خوشحال ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان کے لسبیلہ ڈویژن میں ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہیں موجود ہیں، اگر اس علاقہ میں جدید ایئر پورٹ اور جدید ہوٹل قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو پوری دنیا سے ہندو مذہب کے ماننے والے لاکھوں افراد پوری دنیا سے آجائیں گے۔
سندھ کے ضلع تھر سیاحت کا بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ ایسے ہی سیکڑوں مقامات بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختون خوا میں موجود ہیں۔ معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سے تجارت شروع کردی جائے تو گندم، سبزیوں اور ادویات کی قیمتیں انتہائی کم ہوسکتی ہیں مگر غربت کے خاتمہ کے لیے سب سے اہم فیصلہ اس ملک کی سیکیورٹی اسٹیٹ کی حیثیت ختم کرنے کا ہے۔ جب تک یہ ملک سیکیورٹی اسٹیٹ رہے گا افتادگان خاک کا مستقبل مخدوش رہے گا۔
کراچی میں سائٹ کے علاقہ میں ایک بند فیکٹری میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران مرنے والو ں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، جو لوگ قطار میں لگے دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے ان کی تعداد علیحدہ ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اس صورتحال پر سخت ریمارکس دیے ہیں اور آٹا کی قطار میں کھڑے افراد کی تشہیر پر پابندی بھی لگادی گئی ہے۔
حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ اب تک آٹا کے 20 لاکھ تھیلے تقسیم ہوچکے ہیں مگر قطار میں لگنے والے افراد کی تعداد کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ پنجاب میں رمضان سے قبل 1156 روپے میں 10 کلو آٹا دستیاب تھا مگر اب کھلی مارکیٹ میں اس کی قیمت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ایک غریب آدمی اس کو خرید نہیں سکتا۔
گزشتہ کئی برسوں میں غربت کی لکیر کے نیچے آنے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے، گزشتہ ایک سال کی کساد بازاری، بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور روزگار سے محرومی پر مصارف زندگی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ کارخانوں کے بند ہونے، خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کے بحران نے لاکھوں افراد سے روزگار چھین لیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کی فصل خراب ہونے اور بڑے پیمانے پر افغانستان اسمگلنگ، روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں دنیا بھر میں گندم کی قیمتوں میں بڑھنے کے اثرات آٹے کی قیمتوں پر پڑے ہیں۔
گزشتہ سال جنوبی پنجاب اور سندھ میں آنے والے سیلاب نے صورتحال کو مزید ناگفتہ بہ کردیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گندم کی پیداوار کے بارے میں جو تخمینہ لگائے تھے وہ غلط ثابت ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھا ہوا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک 75 لاکھ افراد میں 8500 روپے کی سہ ماہی رقم ادا کی جاچکی ہے اور 90 لاکھ خاندانوں کو تعلیمی وظائف بھی دیے گئے ہیں۔
اس پروگرام کے بانی ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مربوط نظام کی مدد سے اس نظام کو شفاف بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس مقصد کے لیے رقم وصول کرنے والی خواتین کی معاشی حیثیت کا تعین کا کئی طریقہ کار سے وضح کیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس پروگرام کی کامیابی کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ حقیقت ثابت نہ ہوسکے۔
پی ٹی آئی حکومت نے غربت کے خاتمہ کا ایک حل اسلام آباد اور لاہور میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نکالا۔ یہاں چند سو افراد کو رہائش کے ساتھ کھانا پینا فراہم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس راشن پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام میں رمضان پیکیج بھی شامل تھا۔
یہ پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے خاصا مختلف تھا۔ اس پروگرام کے تحت غریب افراد قریبی دکان سے اپنی روزمرہ کی اشیاء حاصل کرسکتے تھے۔ سابقہ حکومت کا دعوی ٰ تھا کہ تقریباً 20 ملین افراد کو ہر ماہ ایک ہزار روپے تک زرتلافی دی جارہی تھی۔
اس پروگرام کے لیے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقہ کار کے تحت شناختی کارڈ کے ذریعہ رجسٹریشن ہوتی تھی۔ یہ پروگرام کچھ شہروں تک محدود رہا۔ موجودہ حکومت نے معاشی بحران کی بناء پر اس پروگرام کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مذہبی اور سماجی تنظیمیں رمضان المبارک کے دوران راشن کی مفت تقسیم، سحری اور افطار کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں فیاضی کی شرح جی ڈی پی کے ایک فیصد کے قریب ہے۔ یہ شرح تقریباً تمام یورپی ممالک میں ہونے والی شرح کے قریب ہے مگر تمام سرکاری پالیسیوں اور غیر ریاستی عناصر کی فیاضی کے باوجود غربت کی شرح کم نہیں ہورہی۔ ایک اندازے میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کل آبادی کا 42.5 فیصد ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2018میں 3 ملین افراد غربت کی لکیر کے نیچے آچکے ہیں ۔
عالمی بینک کی نئی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں مزید 39 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے جائیں گے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ شہری علاقوں کے مقابلہ میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے مگر غیر سرکاری فیاضی کی تمام اسکیمیں شہروں میں جاری ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں سے غریب لوگ مفت آٹا اور رمضان کے راشن کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف حکومتوں کے غربت کے خاتمہ کے پروگراموں اور سماجی تنظیموں کے فیاضی کے پروگراموں کے باوجود صورتحال انتہائی خراب ہے اور جب تک غربت کے خاتمہ کی حقیقی وجوہات ختم نہیں ہونگی آٹا کی تلاش میں آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمہ کی بنیادی وجوہات کے خاتمہ کے بغیر یہ صورتحال مزید گھمبیر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ غربت کے بڑھنے کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ جنوری 2023ء تک ملنے والے اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی آبادی 238.1 ملین تھی۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2022سے 2023 کے درمیان آبادی میں 4.6ملین (12.6 percent) اضافہ ہوا تھا۔
اب اگلے چند ماہ میں جب ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج سامنے آئیں گے تو یقیناً آبادی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ شرح پڑوسی ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے زیادہ ہے۔ ملک میں آبادی پر کنٹرول کرنے کی کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔ آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی طرح مہم شروع ہو تو کچھ مثبت نتائج حاصل کرسکتے تھے۔
صنعتی ترقی غربت کے خاتمہ کا ایک بڑا محرک بن سکتا ہے۔ بنگلہ دیش جب آزاد ہوا تو پاکستان سے غریب ملک تھا، اب بنگلہ دیش میں 32 لاکھ خواتین فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 51 لاکھ خواتین بے نظیر سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام اور مفت راشن کی لائنوں میں لگی ہوئی ہیں۔ خواتین میں خاص طور پر خواندگی کی شرح بڑھانے اور انھیں روزگار کی سہولتوں کی فراہمی سے غربت کم ہوسکتی ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین نے زرعی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے نہری علاقہ 45 ملین ایکڑ اور زیر ِ زمین پانی کے وسیع ذخائر سے مالامال ملک کی زراعت گزشتہ دو عشروں سے جمود کا شکار ہے۔
گزشتہ سال سیلاب سے تباہی آئی ہے اور اب پانی نگرانی کے ادارہ ارسا کا کہنا ہے کہ خریف کی فصل میں پانی کی کمی 37فیصد تک پہنچ جائے گی۔ گزشتہ ہفتہ پنجاب میں شدید بارشوں سے گندم اور کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کو بے زمین کسانوں کو زمین دینے، نئی زرعی اصلاحات کرنے اور زراعت کی ترقی کے لیے جدید ترین طریقوں کے فوری استعمال پر توجہ دینا ہوگی۔
بلوچستان میں تو سی پیک کے منصوبہ پر عملدرآمد کے باوجود خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ صوبہ میں سڑکوں کا انفرااسٹرکچر پہلے ہی کمزور تھا مگر گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے ریت پر بنی سڑکوں کو مٹادیا۔ سندھ میں انفرااسٹرکچر خاصی اچھی حالت میں ہے۔
اگرچہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے پورے سندھ کے انفرااسٹرکچر کو تہہ و بالا کیا تھا مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے دیہی علاقوں میں کارخانوں کے قیام پر توجہ نہیں دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹل فارمنگ اور زراعت پر انحصار کرنے والی صنعتیں ہر اضلاع میں قائم ہوں، حکومت ان صنعتوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے، کارخانہ لگانے میں رشوت کے عنصر کو ختم کردیا جائے تو سستی اشیاء غیر ممالک میں مارکیٹ بناسکتی ہیں۔
پنجاب کی حکومت جنوبی پنجاب میں صنعتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتے تو روزگار کی سہولتیں غربت کی شرح کو کم کرسکتی ہیں۔ خیبرپختون خوا میں دہشت گردی صنعتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاحت کے شعبہ کو ترقی دی جائے تو صوبے خوشحال ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان کے لسبیلہ ڈویژن میں ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہیں موجود ہیں، اگر اس علاقہ میں جدید ایئر پورٹ اور جدید ہوٹل قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو پوری دنیا سے ہندو مذہب کے ماننے والے لاکھوں افراد پوری دنیا سے آجائیں گے۔
سندھ کے ضلع تھر سیاحت کا بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ ایسے ہی سیکڑوں مقامات بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختون خوا میں موجود ہیں۔ معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت سے تجارت شروع کردی جائے تو گندم، سبزیوں اور ادویات کی قیمتیں انتہائی کم ہوسکتی ہیں مگر غربت کے خاتمہ کے لیے سب سے اہم فیصلہ اس ملک کی سیکیورٹی اسٹیٹ کی حیثیت ختم کرنے کا ہے۔ جب تک یہ ملک سیکیورٹی اسٹیٹ رہے گا افتادگان خاک کا مستقبل مخدوش رہے گا۔