ایک اور چورن

قہرخداوندی اکثر ان دنوں کی کہانیاں سناتا ہے جب دونوں میں پکی یاری تھی

barq@email.com

ہمیں چوں کہ ایک بار بھی حج یا عمرے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی ہے کیوںکہ اکثر علمائے کرام اور مشائخ عظام کہتے ہیں کہ ایں سعادت بزوربازو بھی نہیں اور بغیر آرزوبھی نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے لیے ''وہاں'' سے ''بلاوا'' آتاہے اوروہاں سے ''بلاوے''کے لیے ایک خاص قسم کی ''پاک ومنزہ'' صاف وشفاف اورحلال دولت کی ضرورت ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ حج اورعمرہ کیا ہوتے ہیں ۔

کس سے پوچھیں کہ وصل کیا ہے

ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں

لیکن حاجی صاحبان اور عمرائی صاحبان سے تو واقف ہیں بلکہ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کوئڈ نائنٹین کی وساطت سے کچھ زیادہ ہی واقف ہیں کیوں کہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو ایک مستقل حاجی یعنی الحاج اورعمرائی ہیں اوروہ اس کا مستقل ہدف رہتا ہے۔

اب تک علامہ جتنے حجوںاورعمروں کا جتنا ڈھیرلگاچکے ہیں، قہرخداوندی اس سے دس گنا بڑا ڈھیر اس کے خلاف حق گوئی و بیباکی کا لگا چکا ہے، قہرخداوندی کو کہاں کی بات کہاں کہاں لگانے میں بے پناہ تجربہ ہے چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ حج اورعمرہ علامہ بطور چورن کے استعمال کرتے ہیں۔


قہرخداوندی اکثر ان دنوں کی کہانیاں سناتا ہے جب دونوں میں پکی یاری تھی اور جب بھی علامہ قرب وجوار میں کسی جمعہ جمعرات یاچہلم برسی پر وزٹ کرتے تو قہرخداوندی کو بطورمدد گار کے ساتھ جانا نہیں بھولتے۔

قہرخداوندی کی روایت ہے کہ ایسے مواقع پر علامہ اپنے خاندانی چورن۔ سب کچھ ہضم، کی ایک شیشی ضرور اپنے ساتھ رکھتے اورمعرکہ سر کرنے کے بعد ایک پھکی ضرور پھانکتے اور پھر الحمد اللہ کے ساتھ جو ڈکار نشر فرماتے اس میں چورن کی پبلسٹی کا عنصر بھی ہوتا کیوںکہ حاضرین بھی ایک پھکی کے طالب ہوجاتے اورعلامہ چورن کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیاں بھی بیان کرتے، اس بات کو ایک خوبصورت سا موڑ دے کے قہرخداوندی آکر کہتا ہے کہ علامہ حج اورعمرے کو بھی بطورچورن استعمال کرتے ہیں ،سال بھر اتنی ثقیل غذائیں کھانے کے بعد یہ لازمی ہوجاتاہے ورنہ بلاسٹ کاخطرہ ہوسکتاہے ،آخر سال بھر مختلف دینی انڈسٹریوں میں اتنا ثقیل مال اتنی وافر مقدار میں جو آتا ہے۔

خود علامہ نے بتایاہے کہ اس وقت ان کایہ چورن سب کچھ ہضم،سب سے بیسٹ سیلرجا رہا ہے اورملک کے تقریباً سارے اکابرین اس کے خریدارہیں ،چوںکہ اس چورن میں سب کچھ ہضم کا وہ نسخہ جس میں حج عمرہ، داڑھی، تسبیح اورسفید مخروطی ٹوپی بطورجزواعظم شامل تو اکثر اکابرین کافیورٹ ہے۔

اس لیے حکومت اگر اس کے استعمال پر اس طرح کی ناروا پابندیاں لگاتی رہی تو وہ بھی دن خدا نہ کرے خدا نہ کرے آسکتاہے کہ حکومت حج اورعمرے پر مکمل پابندی لگادے، اور اس کا جواز بھی موجود ہے ،مقروض پرتو حج فرض نہیں ہوتاہے اورپاکستان اس وقت دنیا کامقروض اعظم ہے۔

اس طرح ہرپاکستانی بھی مقروض ہے، یہ قرضہ اس نے زرمبادلہ میں ادا کرناہے اورحج وعمرے پر بھی زرمبادلہ ہی خرچ ہوتاہے لیکن تسلی کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے طبیعت ہی کچھ ایسی پائی ہے کہ جو کرتی ہے وہ ہوتا نہیں اورجوہوتاہے وہ کرتی نہیں کیوںکہ یہاں ممانعت برائے ترغیب کا سلسلہ رائج ہے کسی بھی چیزکو فروغ دینا ہوتو اس پر پابندی لگادو۔ اوراس کاثبوت یہ ہے کہ ایک طرف تو ایک سے زیادہ بار عمرے پر پابندی کا ڈھول بجایا جا رہاہے اوردوسری طرف ''امیرانہ حج'' اورغریبانہ حج کے پیکیج دیے جارہے ہیں یعنی شوقین بلکہ جذبہ عبادت سے سرشار لوگ چاہیں تو صرف پینتیس لاکھ روپے خرچ کرکے امیرانہ یعنی لگژری اور وی آئی پی حج کرسکتے ہیں جب کہ غریبانہ حج گیارہ بارہ لاکھ میں ہوجاتا ہے، مطلب یہ کہ چورن کواور زیادہ تیر بہدف اور پرتاثیر بنایاگیاہے۔
Load Next Story