مسئلہ فلسطین اور چین کی ثالثی کی پیشکش
مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب پیش قدمی سے بھی بہت سی امیدیں اور توقعات پیدا ہو چلی ہیں
چین نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات میں ثالثی یا سہولت کاری کا کردار ادا کرنے کی پیشکش ہے تاکہ برسوں سے جاری کشیدگی کا خاتمہ کرکے خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔
چینی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ کن کینگ نے ٹیلی فونک گفتگو میں اپنے ہم منصبوں پر امن مذاکرات کے لیے دو ریاستی حل کے نفاذ پر زور دیا، جس کے لیے خود چین پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا دباؤ ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ معمول کے تعلقات اور امن چاہتے ہیں۔
اس وقت مثبت سفارتی رویوں کے باعث چین دنیا میں ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے، چین کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور اعتماد حیران کن ہے اور وہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مستقبل کا لائحہ عمل مل کر طے کرنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اب مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب پیش قدمی سے بھی بہت سی امیدیں اور توقعات پیدا ہو چلی ہیں۔
اپنی مثبت پالیسیوں ہی کی وجہ سے چین دن بہ دن ترقی کی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے۔ امریکا کا یہ خیال ہے کہ چین کے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی اور معاشی کردار کو روکنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ فائدہ مند ہے یعنی بھارت امریکا کا انتہائی اہم شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر عرب اکثریت میں جب کہ یہودی اقلیت میں تھے۔ دونوں اقوام میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمے داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں '' قومی گھر'' کی تشکیل کرے۔
یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔
ادھر یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔فلسطین اور اسرائیل تنازع کے حل کے لیے پہلے بھی امن معاہدے مذاکرات اور ثالثی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، مگر اسرائیل کی ریاست پھیلتی گئی اور فلسطین سکڑتا گیا۔ عرب لیگ ، او آئی سی کی حمایت کے با وجود فلسطینی اپنا حق اقوام عالم سے تسلیم کروانے میں ناکام ہیں۔
فلسطین اسرائیل تنازع دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا جب 15مئی 1947کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک کمیٹی بنائی جس میں 3 ستمبر 1947کو برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کے ساتھ یرو شلم کے شہر کو بھی الگ کرنے کا فیصلہ کیا، یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھنے کی بات کی گئی۔ 29 نومبر1947کو جنرل اسمبلی نے اس بارے قرار داد منظور کی۔
یہودیوں کی نمایندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کیا جب کہ عرب لیگ اور فلسطین کی کمیٹی نے اسے مسترد کردیا۔ 14مئی 1948کو برطانوی راج کے خاتمے کے دن جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گو ریان نے مملکت اسرائیل کا اعلان کیا، اس پر مصر، شام، اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہوگئیں اور 1948کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔11مئی 1949میں اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی اس کے بعد سے مختلف ادوار میں جنگ، امن معاہدے مذاکرات اور ثالثی کی کوششیں ہوتی رہیں۔
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی حل طلب ہے ایک ایسا حل جس کو دونوں ممالک تسلیم کریں تاحال اقوام عالم اسے پیش کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا آج بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔
کہنے کو فلسطین ایک محدود تسلیم شدہ ریاست ہے جس کی آزادی کا اعلان 15نومبر 1988کو کیا گیا تھا، مگر اسرائیل امریکا کی پشت پناہی میں اس ریاست کو محدود کرنے کا خواہشمند ہے، جب کہ بیت المقدس قبلہ اول اور پیغمبروں کی سرزمین ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان فلسطین سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں اور تمام اسلامی ممالک فلسطین کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کا امریکا میں اتنا دخل ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والا امریکی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ نہ اسے اچھی نوکری مل سکتی ہے نہ وہ کسی شعبے میں آگے جاسکتا ہے۔
پوری دنیا میں یہ لوگ اپنی دادا گیری چلاتے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی ہیں جو دنیا کی بھیجی ہوئی امداد سے اپنی زندگی چلاتے ہیں۔ ان کے ہاں کھانا بھی دوسروں کا بھیجا ہوا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں امریکا پورا دخل رکھتا ہے اور اسرائیل پر ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتا۔ پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام نے یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کو گنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
حکام نے ایسی پالیسیاں اختیارکی ہیں جن کا مقصد خود ان کے بقول، '' فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرے'' کو کم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یروشلم میں شہر کے مغربی اور مقبوضہ مشرقی علاقوں سمیت میونسپلٹی کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کا مقصد شہر میں یہودی اکثریت کو برقرار رکھنا ہے، اور یہاں تک کہ منصوبے میں آبادی کے ایسے تناسب کا ذکر بھی ہے جو اسرائیلی حکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کے ذریعے امریکی مفادات کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔ اہم امر یہ ہے کہ چین کا مشرق وسطیٰ میں مثبت کردار اور اثرورسوخ امریکا کے لیے دردِ سر ہے۔
اس اہم امر کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین نا صرف اس خطے کی بلکہ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت کا روپ دھار چکا ہے اور امریکا کے بس کی بات نہیں چین کی عسکری اور معاشی قوت کو روکنے کے لیے امریکا کو بھارت کی اشد ضرورت پڑے گی۔ امریکا کی پوری کوشش یہی ہوگی کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جوبائیڈن کی یہی حکمت عملی ہوگی کہ خطے میں طاقت کے توازن کو چین کے حق میں نہ جانے دیا جائے۔
سوویت یونین کے خاتمے کا سب سے زیادہ فائدہ مغرب کو نہیں، بلکہ چین کو پہنچا۔ اپنے عہد زریں کے دوران اگر امریکا اپنی رویہ کو معتدل کردیتا تو آج اس کے بہت سارے دوست اس کے ساتھ ہوتے۔ مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسر اقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔
اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اورکارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ رواں برس ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی یہاں صورتحال کافی کشیدہ ہے۔
متعدد فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بیدخل کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ محض زبانی بیانات کے علاوہ کسی بھی مسلم ملک نے فلسطین کے حق میں کوئی ٹھوس اقدام، اور نہ ہی یکجہتی ظاہر کی۔
امریکا کی طرف سے 2020میں ثالثی کے لیے ابراہم معاہدہ کیا گیا جس میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش سمیت متعدد عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں مدد ملی۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سعودی عرب کو عربوں اور مسلمانوں کے درمیان علاقائی طاقت اور موقف حاصل ہے۔
ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی اتفاق نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوالات ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہو گا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکٹھے رہ سکتے ہیں، اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے۔ گزشتہ 25 سالوں میں امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں مگر معاملات حل نہیں ہو سکے۔
اب چین کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کی جانے والی کوششیں کیا رنگ لاتی ہیں، یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا۔
چینی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ کن کینگ نے ٹیلی فونک گفتگو میں اپنے ہم منصبوں پر امن مذاکرات کے لیے دو ریاستی حل کے نفاذ پر زور دیا، جس کے لیے خود چین پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا دباؤ ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ معمول کے تعلقات اور امن چاہتے ہیں۔
اس وقت مثبت سفارتی رویوں کے باعث چین دنیا میں ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے، چین کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور اعتماد حیران کن ہے اور وہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مستقبل کا لائحہ عمل مل کر طے کرنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اب مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب پیش قدمی سے بھی بہت سی امیدیں اور توقعات پیدا ہو چلی ہیں۔
اپنی مثبت پالیسیوں ہی کی وجہ سے چین دن بہ دن ترقی کی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے۔ امریکا کا یہ خیال ہے کہ چین کے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی اور معاشی کردار کو روکنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ فائدہ مند ہے یعنی بھارت امریکا کا انتہائی اہم شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر عرب اکثریت میں جب کہ یہودی اقلیت میں تھے۔ دونوں اقوام میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمے داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں '' قومی گھر'' کی تشکیل کرے۔
یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔
ادھر یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔فلسطین اور اسرائیل تنازع کے حل کے لیے پہلے بھی امن معاہدے مذاکرات اور ثالثی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، مگر اسرائیل کی ریاست پھیلتی گئی اور فلسطین سکڑتا گیا۔ عرب لیگ ، او آئی سی کی حمایت کے با وجود فلسطینی اپنا حق اقوام عالم سے تسلیم کروانے میں ناکام ہیں۔
فلسطین اسرائیل تنازع دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا جب 15مئی 1947کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک کمیٹی بنائی جس میں 3 ستمبر 1947کو برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کے ساتھ یرو شلم کے شہر کو بھی الگ کرنے کا فیصلہ کیا، یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھنے کی بات کی گئی۔ 29 نومبر1947کو جنرل اسمبلی نے اس بارے قرار داد منظور کی۔
یہودیوں کی نمایندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کیا جب کہ عرب لیگ اور فلسطین کی کمیٹی نے اسے مسترد کردیا۔ 14مئی 1948کو برطانوی راج کے خاتمے کے دن جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گو ریان نے مملکت اسرائیل کا اعلان کیا، اس پر مصر، شام، اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہوگئیں اور 1948کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔11مئی 1949میں اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی اس کے بعد سے مختلف ادوار میں جنگ، امن معاہدے مذاکرات اور ثالثی کی کوششیں ہوتی رہیں۔
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی حل طلب ہے ایک ایسا حل جس کو دونوں ممالک تسلیم کریں تاحال اقوام عالم اسے پیش کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا آج بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔
کہنے کو فلسطین ایک محدود تسلیم شدہ ریاست ہے جس کی آزادی کا اعلان 15نومبر 1988کو کیا گیا تھا، مگر اسرائیل امریکا کی پشت پناہی میں اس ریاست کو محدود کرنے کا خواہشمند ہے، جب کہ بیت المقدس قبلہ اول اور پیغمبروں کی سرزمین ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان فلسطین سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں اور تمام اسلامی ممالک فلسطین کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کا امریکا میں اتنا دخل ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والا امریکی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ نہ اسے اچھی نوکری مل سکتی ہے نہ وہ کسی شعبے میں آگے جاسکتا ہے۔
پوری دنیا میں یہ لوگ اپنی دادا گیری چلاتے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی ہیں جو دنیا کی بھیجی ہوئی امداد سے اپنی زندگی چلاتے ہیں۔ ان کے ہاں کھانا بھی دوسروں کا بھیجا ہوا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں امریکا پورا دخل رکھتا ہے اور اسرائیل پر ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتا۔ پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام نے یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کو گنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
حکام نے ایسی پالیسیاں اختیارکی ہیں جن کا مقصد خود ان کے بقول، '' فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرے'' کو کم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یروشلم میں شہر کے مغربی اور مقبوضہ مشرقی علاقوں سمیت میونسپلٹی کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کا مقصد شہر میں یہودی اکثریت کو برقرار رکھنا ہے، اور یہاں تک کہ منصوبے میں آبادی کے ایسے تناسب کا ذکر بھی ہے جو اسرائیلی حکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرورسوخ کے ذریعے امریکی مفادات کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔ اہم امر یہ ہے کہ چین کا مشرق وسطیٰ میں مثبت کردار اور اثرورسوخ امریکا کے لیے دردِ سر ہے۔
اس اہم امر کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین نا صرف اس خطے کی بلکہ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت کا روپ دھار چکا ہے اور امریکا کے بس کی بات نہیں چین کی عسکری اور معاشی قوت کو روکنے کے لیے امریکا کو بھارت کی اشد ضرورت پڑے گی۔ امریکا کی پوری کوشش یہی ہوگی کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جوبائیڈن کی یہی حکمت عملی ہوگی کہ خطے میں طاقت کے توازن کو چین کے حق میں نہ جانے دیا جائے۔
سوویت یونین کے خاتمے کا سب سے زیادہ فائدہ مغرب کو نہیں، بلکہ چین کو پہنچا۔ اپنے عہد زریں کے دوران اگر امریکا اپنی رویہ کو معتدل کردیتا تو آج اس کے بہت سارے دوست اس کے ساتھ ہوتے۔ مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسر اقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔
اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اورکارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔ رواں برس ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی یہاں صورتحال کافی کشیدہ ہے۔
متعدد فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بیدخل کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ محض زبانی بیانات کے علاوہ کسی بھی مسلم ملک نے فلسطین کے حق میں کوئی ٹھوس اقدام، اور نہ ہی یکجہتی ظاہر کی۔
امریکا کی طرف سے 2020میں ثالثی کے لیے ابراہم معاہدہ کیا گیا جس میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش سمیت متعدد عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں مدد ملی۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سعودی عرب کو عربوں اور مسلمانوں کے درمیان علاقائی طاقت اور موقف حاصل ہے۔
ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی اتفاق نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوالات ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہو گا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکٹھے رہ سکتے ہیں، اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے۔ گزشتہ 25 سالوں میں امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں مگر معاملات حل نہیں ہو سکے۔
اب چین کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کی جانے والی کوششیں کیا رنگ لاتی ہیں، یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا۔