مردم شماری
انتظامی افسروں نے نااہلی یا دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اپنے فرائض انجام نہیں دیے
کیا انتظامی ڈھانچہ اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود مردم شماری کے معروضی نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے؟ شماریات کے مرکزی دفتر اسلام آباد میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبہ سندھ کی 32 ہزار عمارتوں میں ابھی تک شمارکنندہ نہیں پہنچے ہیں۔
یوں ان بلند و بالا عمارتوں میں آباد مکینوں کو مردم شماری کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد کے ذرایع کہہ رہے ہیں کہ اس دفعہ ضلع انتظامیہ کی مردم شماری کے عمل کی نگرانی کی تھی، مگر انتظامی افسروں نے نااہلی یا دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔
ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق ناظم کراچی، مصطفیٰ کمال کا بیانیہ ہے کہ شناختی کارڈ اور بچوں کی رجسٹریشن کا ب فارم ، اور NADRA کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور مردم شماری کے اب تک جاری ہونے والے نتائج میں بہت زیادہ فرق ہے۔
نادرا کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک وہ کراچی میں 13.54 ملین شناختی کارڈ جاری کر چکی ہے جب کہ 18 سال سے کم عمر کے 41 فیصد بچوں کے ب فارم کے ذریعے نادرا میں رجسٹریشن کے ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادرا کے ڈیٹا بیس میں کراچی میں 19.1 ملین افراد رجسٹرڈ ہیں۔ وہ افراد ہزاروں میں ہیں جو کراچی میں رہتے ہیں مگر ان کے شناختی کارڈ میں رہائش دیگر شہروں کی ظاہر کی گئی ہے۔
2017میں دکھائی گئی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں سے بھی اس بار دس لاکھ آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔ اس وقت کے الیکٹرک کے 3.4 ملین میٹر ہیں جب کہ کراچی میں 25 فیصد گھر بغیر میٹر کے بجلی سے مستفید ہوتے ہیں۔ محکمہ شماریات نے صرف 2.9 ملین گھروں کی گنتی کی ہے۔ بعض سیاستدانوں کے مطابق کراچی میں مردم شماری کا معاملہ ہمیشہ مشکوک رہا۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جب مردم شماری کے نتائج آئے تو جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر تھے۔ جماعت اسلامی عملی طور پر جنرل ضیاء الحق کی حلیف تھی۔ عبدالستار افغانی نے جنرل ضیاء الحق کے سامنے مردم شماری کے اعدادوشمار پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ایک پائلٹ اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا مگر یہ پائلٹ اسٹڈی بھی محکمہ شماریات والوں نے کی ، یوں کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا تھا۔ 2017میں معروف سیاسی رہنما عبد الخالق جونیجوکی قیادت میں قائم Save Sindh Committee نے مردم شماری کے مسئلہ پر ایک سیمینار منعقد کیا تھا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سیمینار میں شفاف مردم شماری کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس مردم شماری کے نتائج کو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں نے مسترد کیا تھا۔ جب ایم کیو ایم نے 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا تو ایک معاہدے پر اتفاق رائے ہوا۔ اس معاہدہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے دوبارہ مردم شماری کے انعقاد پر اتفاق کیا تھا، مگر سابقہ حکومت یہ وعدہ پورا نہ کرسکی۔
جب پیپلز پارٹی کے مرد آہن، آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو مخلوط حکومت سے دستبردار ہونے پر تیار کیا تو ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین بھی شامل ہوئے۔
ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ پیپلز پارٹی سے کیا جس کے ضامن میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن بنے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاہدہ کی ایک دو شقوں پر عملدرآمد کیا مگر وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم معاہدہ کے تحت ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال اس مردم شماری کے نگراں مقرر ہوئے۔
مردم شماری کے طریقہ کار پر سندھ کی حکومت کو بھی اعتراضات تھے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ مردم شماری کے لیے محکمہ تعلیم کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں مگر مردم شماری کے ڈیٹا کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس ڈیٹا میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ وفاقی حکومت نے اس بات کا نوٹس لیا۔ اس ضلع کے اسسٹنٹ کمشنر کو اس عمل کی ذمے داری دی گئی۔ ہر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ڈیش بورڈ لگایا گیا تاکہ ضلع میں مردم شماری کے نتائج کی نگرانی موثر انداز میں ہوسکے۔
اس فیصلہ کے نتیجہ میں سندھ کی حکومت بھی اس معاملہ میں جوابدہ ہوگئی۔ مردم شماری کے مختلف استعمال ہوتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار سے اقتصادی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پھر اس منصوبہ بندی کی بنیاد پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بجٹ تیار ہوتا ہے۔
اگر بلدیاتی اداروں کی قیادت منتخب ہو تو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے یہ اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے مردم شماری کے اعداد و شمار کے تجزیے کے بعد مختلف شعبوں میں امداد، گرانٹ یا قرضے دینے کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔
غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیمیں ان ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ طے کرتی ہیں کہ کس شعبہ میں کام کرنے والی مقامی این جی اوز کوگرانٹ دی جائے مگر مردم شماری کے اعداد و شمار کا ایک اور اہم ترین استعمال قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے تعین کے لیے ہوتا ہے۔
جب مردم شماری کے نتائج مکمل ہونگے تو الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کرے گا اور اس بات کا تعین ہوگا کہ کس ضلع میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کتنی نشستیں ہونگی، جو مردم شماری کے اعداد و شمار الیکٹرونک میڈیا کی سرخیوں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
ان کے مطابق حیدرآباد اور کراچی کی آبادی میں چند لاکھ کا فرق رہ گیا ہے، یوں بقول فواد چوہدری کراچی کی قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوجائے گی۔ سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں میں ایک تضاد موجود ہے، یوں یہ معاملہ زیادہ سنجیدہ شکل اختیار کرگیا ہے۔
ڈیموگرافی کے بعض ماہرین کا یہ مفروضہ ہے کہ کراچی شہر میں سندھی بولنے والے افراد ، سرائیکی بولنے والے اور پشتو بولنے والی برادریوں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے جب کہ مفروضہ یہ ہے کہ اردو بولنے والی آبادی کی تعداد میں مختلف وجوہات کی بناء پر کم اضافہ ہوا ہے۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ صوبائی مشینری خاص طور پر اسسٹنٹ کمشنروں نے اس پورے معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ اعداد و شمار فوراً مرتب ہوتے ہیں، یوں بروقت مردم شماری کے عمل میں نقائص کی نشاندہی ہوگئی ہے۔
وفاقی حکومت کے افسران تو اسلام آباد کے دفتر میں لگے ڈیش بورڈز کے ذریعہ نگرانی کا فریضہ انجام دینے کا دعویٰ کررہے ہیں مگر سندھ کی حکومت کے افسران تو اب براہِ راست اس عمل میں شامل ہیں، یوں اب سندھ کی حکومت نتائج سے بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔ مردم شماری کے عمل میں ہر شخص کی گنتی ضروری ہے۔
اس بات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ کراچی میں 32 ہزار عمارتوں کی خانہ شماری اور مردم شماری کیوں نہیں ہوئی۔ اگرچہ کسی افسر کی غلطی ہے تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
ملک مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے، اگر وفاق اور سندھ کی حکومت نے مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو ایک اور بحران پیدا ہوجائے گا۔ کراچی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیا بحران سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
یوں ان بلند و بالا عمارتوں میں آباد مکینوں کو مردم شماری کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد کے ذرایع کہہ رہے ہیں کہ اس دفعہ ضلع انتظامیہ کی مردم شماری کے عمل کی نگرانی کی تھی، مگر انتظامی افسروں نے نااہلی یا دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔
ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق ناظم کراچی، مصطفیٰ کمال کا بیانیہ ہے کہ شناختی کارڈ اور بچوں کی رجسٹریشن کا ب فارم ، اور NADRA کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور مردم شماری کے اب تک جاری ہونے والے نتائج میں بہت زیادہ فرق ہے۔
نادرا کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک وہ کراچی میں 13.54 ملین شناختی کارڈ جاری کر چکی ہے جب کہ 18 سال سے کم عمر کے 41 فیصد بچوں کے ب فارم کے ذریعے نادرا میں رجسٹریشن کے ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نادرا کے ڈیٹا بیس میں کراچی میں 19.1 ملین افراد رجسٹرڈ ہیں۔ وہ افراد ہزاروں میں ہیں جو کراچی میں رہتے ہیں مگر ان کے شناختی کارڈ میں رہائش دیگر شہروں کی ظاہر کی گئی ہے۔
2017میں دکھائی گئی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں سے بھی اس بار دس لاکھ آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔ اس وقت کے الیکٹرک کے 3.4 ملین میٹر ہیں جب کہ کراچی میں 25 فیصد گھر بغیر میٹر کے بجلی سے مستفید ہوتے ہیں۔ محکمہ شماریات نے صرف 2.9 ملین گھروں کی گنتی کی ہے۔ بعض سیاستدانوں کے مطابق کراچی میں مردم شماری کا معاملہ ہمیشہ مشکوک رہا۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جب مردم شماری کے نتائج آئے تو جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر تھے۔ جماعت اسلامی عملی طور پر جنرل ضیاء الحق کی حلیف تھی۔ عبدالستار افغانی نے جنرل ضیاء الحق کے سامنے مردم شماری کے اعدادوشمار پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ایک پائلٹ اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا مگر یہ پائلٹ اسٹڈی بھی محکمہ شماریات والوں نے کی ، یوں کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا تھا۔ 2017میں معروف سیاسی رہنما عبد الخالق جونیجوکی قیادت میں قائم Save Sindh Committee نے مردم شماری کے مسئلہ پر ایک سیمینار منعقد کیا تھا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سیمینار میں شفاف مردم شماری کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس مردم شماری کے نتائج کو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں نے مسترد کیا تھا۔ جب ایم کیو ایم نے 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا تو ایک معاہدے پر اتفاق رائے ہوا۔ اس معاہدہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے دوبارہ مردم شماری کے انعقاد پر اتفاق کیا تھا، مگر سابقہ حکومت یہ وعدہ پورا نہ کرسکی۔
جب پیپلز پارٹی کے مرد آہن، آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو مخلوط حکومت سے دستبردار ہونے پر تیار کیا تو ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین بھی شامل ہوئے۔
ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ پیپلز پارٹی سے کیا جس کے ضامن میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن بنے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس معاہدہ کی ایک دو شقوں پر عملدرآمد کیا مگر وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم معاہدہ کے تحت ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال اس مردم شماری کے نگراں مقرر ہوئے۔
مردم شماری کے طریقہ کار پر سندھ کی حکومت کو بھی اعتراضات تھے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ مردم شماری کے لیے محکمہ تعلیم کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں مگر مردم شماری کے ڈیٹا کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس ڈیٹا میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ وفاقی حکومت نے اس بات کا نوٹس لیا۔ اس ضلع کے اسسٹنٹ کمشنر کو اس عمل کی ذمے داری دی گئی۔ ہر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ڈیش بورڈ لگایا گیا تاکہ ضلع میں مردم شماری کے نتائج کی نگرانی موثر انداز میں ہوسکے۔
اس فیصلہ کے نتیجہ میں سندھ کی حکومت بھی اس معاملہ میں جوابدہ ہوگئی۔ مردم شماری کے مختلف استعمال ہوتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار سے اقتصادی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پھر اس منصوبہ بندی کی بنیاد پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بجٹ تیار ہوتا ہے۔
اگر بلدیاتی اداروں کی قیادت منتخب ہو تو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے یہ اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے مردم شماری کے اعداد و شمار کے تجزیے کے بعد مختلف شعبوں میں امداد، گرانٹ یا قرضے دینے کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔
غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیمیں ان ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ طے کرتی ہیں کہ کس شعبہ میں کام کرنے والی مقامی این جی اوز کوگرانٹ دی جائے مگر مردم شماری کے اعداد و شمار کا ایک اور اہم ترین استعمال قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے تعین کے لیے ہوتا ہے۔
جب مردم شماری کے نتائج مکمل ہونگے تو الیکشن کمیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کرے گا اور اس بات کا تعین ہوگا کہ کس ضلع میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کتنی نشستیں ہونگی، جو مردم شماری کے اعداد و شمار الیکٹرونک میڈیا کی سرخیوں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
ان کے مطابق حیدرآباد اور کراچی کی آبادی میں چند لاکھ کا فرق رہ گیا ہے، یوں بقول فواد چوہدری کراچی کی قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوجائے گی۔ سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں میں ایک تضاد موجود ہے، یوں یہ معاملہ زیادہ سنجیدہ شکل اختیار کرگیا ہے۔
ڈیموگرافی کے بعض ماہرین کا یہ مفروضہ ہے کہ کراچی شہر میں سندھی بولنے والے افراد ، سرائیکی بولنے والے اور پشتو بولنے والی برادریوں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے جب کہ مفروضہ یہ ہے کہ اردو بولنے والی آبادی کی تعداد میں مختلف وجوہات کی بناء پر کم اضافہ ہوا ہے۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ صوبائی مشینری خاص طور پر اسسٹنٹ کمشنروں نے اس پورے معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ اعداد و شمار فوراً مرتب ہوتے ہیں، یوں بروقت مردم شماری کے عمل میں نقائص کی نشاندہی ہوگئی ہے۔
وفاقی حکومت کے افسران تو اسلام آباد کے دفتر میں لگے ڈیش بورڈز کے ذریعہ نگرانی کا فریضہ انجام دینے کا دعویٰ کررہے ہیں مگر سندھ کی حکومت کے افسران تو اب براہِ راست اس عمل میں شامل ہیں، یوں اب سندھ کی حکومت نتائج سے بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔ مردم شماری کے عمل میں ہر شخص کی گنتی ضروری ہے۔
اس بات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ کراچی میں 32 ہزار عمارتوں کی خانہ شماری اور مردم شماری کیوں نہیں ہوئی۔ اگرچہ کسی افسر کی غلطی ہے تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
ملک مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے، اگر وفاق اور سندھ کی حکومت نے مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو ایک اور بحران پیدا ہوجائے گا۔ کراچی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیا بحران سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ کن ہوسکتا ہے۔