سیاسی کارکنوں کے لیے لمحہ فکریہ
حسان نیازی جیسے نوجوان پارٹی کے لیے بے حد مشکلات اور مقدمات بھگتتے ہیں
سوشل میڈیا پر موجود ایک تصویر سیاسی کارکنوں کے لیے واقعی لمحہ فکریہ ہے کہ جس کا کیپشن ہے کہ زیر نظر تصویر پی ٹی آئی کے رہنما اور عمران خان کے حقیقی بھانجے حسان نیازی کی ہے جس میں وہ سر جھکائے بیٹھا ہے اور عدالت میں پیشی کا منتظر ہے اور اس کے والد مشہور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی اس کے ساتھ بیٹھے بے بس دکھائی دے رہے ہیں جو عمران خان کے حقیقی بہنوئی مگر ان کے ناقد ہیں جو پہلے عمران خان کے ساتھ تھے مگر بقول خود ان کے وہ عمران خان کی غلط سیاست اور جھوٹوں سے بدظن ہو کر پی ٹی آئی سے الگ ہوگئے تھے۔
تصویر کے نیچے درج ہے کہ یہ تصویر تمام سیاسی کارکنوں کے لیے پیغام ہے کہ تمام سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب کارکنوں پر برا وقت آتا ہے ان کی گرفتاریاں اور عدالتوں میں پیشیاں ہوں تو کوئی پارٹی سربراہ ان کے کام نہیں آتا اور اس کے والدین ہی اس کے پاس آتے ہیں اور ہر ممکن مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ کارکن ان کا خون ہوتا ہے جس سے جدا نہیں رہا جاسکتا۔
برسوں پہلے جب میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو کر لاڑکانہ کے دورے پر تھے جہاں(ن) لیگ کے متوالے کارکن نے اپنے قائد سے ملنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہا تھا اور نواز شریف کے جانے کے بعد ملاقات نہ ہونے سے مایوس نوجوان کارکن نے خودکشی کرلی تھی مگر اس کی موت کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور نہ کسی نے کوئی تعزیت کی تھی۔
2017 میں نااہل ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف ریلی کی شکل میں لاہور آ رہے تھے تو ضلع گجرات میں کسی گاڑی سے ہجوم میں کچل کر (ن) لیگی کارکن ہلاک ہو گیا تھا جس پر نواز شریف نے اپنے کارکن کی ہلاکت پر اس کے گھر جا کر تعزیت کا اعلان کیا تھا مگر اعلان پر عمل نہیں ہوا تھا۔2018 کی انتخابی مہم میں ملتان میں عمران خان کے جلسے میں بھگدڑ سے پی ٹی آئی کے متعدد کارکن کچل کر ہلاک ہوگئے تھے۔
جن کی لاشوں کو اسٹریچر کے ذریعے باہر منتقل کیا جا رہا تھا اور اس دوران عمران خان نے اپنی تقریر جاری رکھی تھی اور جلسہ منسوخ نہیں کیا تھا جب کہ 2013 کی انتخابی مہم میں عمران خان اپنے ہی اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تھے تو انتخابی مہم میں مصروف نواز شریف نے نہ صرف (ن) لیگ کی انتخابی مہم منسوخ کردی تھی بلکہ اسپتال جا کر عمران خان کی عیادت بھی کی تھی کیونکہ وہ کوئی سیاسی کارکن نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین تھے اور ویسے بھی ہر پارٹی میں یہ ہو رہا ہے کہ بڑے اور نامور رہنماؤں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ان کی عیادت بھی کی جاتی ہے مگر عام کارکنوں کو پارٹی لیڈر نہیں پوچھتے بلکہ عیادت سے زیادہ سیاسی مفاد کے لیے تعزیت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے مشہور ہے کہ وہ حقیقی طور پر پارٹی کے جیالے ہیں اور پارٹی کے لیے جتنی قربانیاں ورکرز نے دیں کسی اور پارٹی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پی پی کے بانی چیئرمین زیڈ اے بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں میں پارٹی کارکنوں کو اہمیت دی جاتی تھی انھیں سرکاری ملازمتیں بھی ملتی تھیں اور پارٹی میں عہدے بھی مگر بے نظیر بھٹو کے بعد کارکنوں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ بھٹو کی پھانسی پر پارٹی کارکنوں نے قیدیں ہی نہیں کاٹیں بلکہ خودسوزی بھی کی اور پارٹی کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں بھی دی تھیں جب کہ پی پی لیڈر آمر حکومت سے ڈر کر خاموش رہے تھے۔ بہت سے پارٹیاں چھوڑ گئے تھے اور باقی بیان بازیوں میں مصروف رہ کر سیاست کرتے تھے۔
مارشل لا دور میں پیپلز پارٹی کی طلبا کی تنظیم سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی جس کے شکارپور ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان لالہ جہانگیر توڑی پھاٹک کے پاس کسی سرکاری ادارے کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا تھا مگر وہ زندہ بچ گئے تھے۔
1988 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی تو انھوں نے سرکاری طور پر علاج کے لیے لالہ جہانگیر کو لندن بھجوایا تھا اور ان کے ساتھ سپاف کے مقامی رہنما نثار مگسی بھی تھے جو جہانگیر کے قریبی ساتھی تھے۔ لندن میں لالہ جہانگیر کا علاج کامیاب نہیں ہو سکا تھا اور دونوں واپس آگئے تھے اور پارٹی کی طرف سے آمد و رفت کے لیے جہانگیر خان کو ایک چھوٹی کار، معذوروں والی سائیکل دی گئی تھی اور مالی معاونت بھی کی جاتی تھی۔
2008 میں پی پی کی حکومت آئی اور آصف زرداری صدر مملکت بنے تو پیپلز پارٹی میں عام کارکنوں کے بجائے بڑے لوگوں کو اہمیت، مراعات اور عہدے ملنے لگے اور جیالے کارکنوں کو نظرانداز کیا جانے لگا تو لالہ جہانگیر بھی پارٹی سے مایوس ہوئے وہ 1990 سے قبل مجھے ملنے آتے تھے اور نظرانداز کیے جانے کی شکایات کرتے تھے مگر بے نظیر بھٹو کے احسان مند تھے کہ جنھوں نے ان کے علاج پر توجہ دی تھی مگر وہ صحت یاب نہ ہو سکے تھے۔
سیاست میں جوانی برباد کرنے والے جہانگیر کو بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی میں نظرانداز کیے جانے پر بے حد صدمہ تھا وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو چکا تھا اس نے شکارپور کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس کی مگر قریبی دوست نثار مگسی کو بھی اپنے پاس نہ بیٹھنے کی استدعا کی جس پر نثار بھی حیران تھا۔
اس موقع پر جہانگیر نے پارٹی کی طرف سے کوئی تعاون نہ ملنے کا شکوہ اور پارٹی کے لیے اپنی خدمات اور عمر بھر کی معذوری اور زندگی سے مایوس ہو جانے کا صحافیوں کو بتایا اور پھر اچانک اپنا ریوالور نکال کر کنپٹی پر رکھا اور خودکشی کر لی۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد پریس کانفرنس تھی جس کی خبر بی بی سی نے بھی نشر کی تھی۔
پی ٹی آئی رہنما حسان نیازی کی تصویر کے نیچے کیپشن ہے کہ اس تصویر میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان کا حقیقی بھانجا ہے جو عمران خان کی حمایت میں اداروں کو برا بھلا کہتا تھا اور اس نے اپنے والد کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا مگر دیکھ لیں کہ مصیبت کے وقت وہی باپ ساتھ دے رہا ہے جب کہ عمران خان اپنے گھر میں آرام سے ہے جس نے بھانجے کی خبر گیری تک نہیں کی۔
حسان نیازی جیسے نوجوان پارٹی کے لیے بے حد مشکلات اور مقدمات بھگتتے ہیں مگر پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت کسی پر اثر نہیں پڑتا اس لیے سیاسی کارکنوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔
سیاسی کارکنوں کی قدر نہ کرنے کے معاملے میں سب رہنما ایک جیسے ثابت ہوئے ہیں جو عام کارکنوں پر پیسے والے رہنماؤں کو اہمیت دے کر ان سے پارٹی فنڈز لیتے ہیں اور کارکنوں سے صرف اپنے اور پارٹی کے لیے قربانیاں لی جاتی ہیں اور کام نکل جانے پر ان سے آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں اور ان کی قدر نہیں کی جاتی۔