سعادت کی زندگی شہادت کی موت

اللہ نے انھیں سعادت کی زندگی دی اور طاق رات میں شہادت کی موت سے نوازا

ashfaqkhan@express.com.pk

رمضان المبارک کی 25 ویں شب کو جس وقت تمام مسلمان اللہ کو راضی کرنے میں عبادات و اذکار کی محافل سجائے بیٹھے تھے عین اس وقت ایک ایسی اطلاع ملی جس نے پورے وجود میں ایک لرزہ طاری کردیا۔ اپنے ہوں یا پرائے جس کان تک یہ المناک خبر پہنچی اس نے بصارتوں کو زخمی کردیا۔

دلوں کو دہلا دیا اور آنکھوں کو نمناک کردیا۔ یہ خبر درویش صفت سیاستدان اور جرات و غیرت مند عالم دین وفاقی وزیر مذہبی امور حضرت مولانا مفتی عبدالشکور کی ایک ٹریفک حادثے میں شہادت کی تھی۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

مفتی عبدالشکور نابغہ روزگار عالم دین، شعلہ بیان خطیب، اخلاص و للہیت کے پیکر، اسلام کے سچے خادم، ختم نبوت، ناموس رسالت اور صحابہ و اہل بیت کی ناموس کے چوکیدار تھے۔

اللہ نے انھیں سعادت کی زندگی دی اور طاق رات میں شہادت کی موت سے نوازا۔ مولانا فضل الرحمان ایک وفادار و جانثار ساتھی سے محروم ہوگئے جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان ایک فقیر اور درویش صفت قائد سے۔ وہ بلاشبہ جمعیت کا اثاثہ تھے۔

میرے مرشد و مربی باباجان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی بابا جی ؒ سے ان کا قلبی اور عقیدت سے لبریز تعلق تھا، ہمارے پورے خاندان کے ساتھ بھائیوں جیسا قلبی اور احترام کا تعلق رہا۔ آج ان کے اس طرح جانے سے ہم ایسے غمزدہ ہیں جیسے ہمارا سگا بھائی دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔

باباجان ؒسے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے جنازے کے متعلق کئی بار سنا تھا ''لوگ ایک جانب ان کی کچی جھونپڑی کو دیکھ رہے تھے اور دوسری جانب جنازے میں امڈ آنے والے عوام کے جم غفیر کو دیکھ کر محو حیرت تھے۔ اللہ نے کس عظیم شان سے اپنے درویش بندے کو نوازا تھا۔

آج کے نام ونمود، مال وزر کی ہوس اور کرپشن میں ڈوبی سیاسی دنیا اور خود غرض و لالچی معاشرے میں مفتی عبدالشکورؒکے جنازے نے یہ منظر دوبارہ دنیا کو دکھلادیا۔ کرپشن اور بد عنوانی میں لتھڑی سیاست دانوں کے درمیان ایمانداری اور دیانتداری کی قابل تقلید مثالیں قائم کرکے مفتی عبد الشکور بے نیازی کی ایک مثال بن کر رب کے حضور پیش ہوگئے۔

مفتی عبدالشکور کا تعلق پسماندہ ترین علاقے لکی مروت سے تھا، پشاور میں خطابت کرتے تھے۔ جے یو آئی نے ٹکٹ دیا الیکشن لڑا اور پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔

جماعت نے انھیں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بنا دیا۔ یاد رہے کہ وفاقی وزارت برائے اوقاف ومذہبی امور زیادہ مال بنانے والی وزارتوں میں سے ایک ہے۔

اس منصب پر ان سے قبل بھی ایک دینی شخص فائز رہا' اس نام نہاد مقدس شخصیت کے خلاف بھی کرپشن کاکیس بھی بنا' گو وہ بعدمیں بری کر دیے گئے لیکن دستار کو داغ ضرور لگ گیا۔ لوگ وزارتیں لے کر پیسے کمانے کے لیے لڑتے دیکھے لیکن یہ اللہ کا درویش مفتی وزارت ملنے کے بعد جب بھی کسی سے لڑا حجاج کرام کے اخراجات کم کرانے کے لیے لڑا، انھیں اچھی سہولیات پہنچانے کے لیے لڑا۔ کبھی وزیر اعظم سے تو کبھی وزیر خزانہ سے لڑتا رہا ہے۔

گزشتہ سال حج کے دوران حجاج کرام کو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور حج سے واپسی پر ہر حاجی کو 150000 روپے واپس کر وا دیے یہ وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد طے شدہ داخلے میں کمی کے علاوہ تھی۔ کبر وغرور سے دور، سادگی واستغناء کی مورتی بنے ہوئے اس شخص نے کمال زندگی گزاری۔ دنیا میں سب کچھ کمانے کے مواقعے ہوتے ہوئے بھی فقر ودرویشی کی مثال بن کر دنیا سے چلے گئے۔ کہیں درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔

کہیں پشاوری چپل پہن کر سادہ قبائلی پٹھان بن کر فٹ پاتھوں پر پیدل چل رہے ہیں۔ نہ پروٹوکول، نہ سیکیورٹی، یہاں تک ڈرائیور تک نہیں، کہنے کو وفاقی وزیر، مگر گھوم رہے ہیں موٹر سائیکل پر۔ مال پانی بنانے والی وزارت کا قلمدان سنبھال کر بھی کنگال رہا۔


مفتی صاحب صرف جمہوری علماء کے لیے نہیں بلکہ قوم کے مال پر لینڈ کروزرز میں گھومنے والوں سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں کے لیے بھی مثال چھوڑ گئے ہیں۔

پھر بھی کچھ ضمیر کے سوداگر، انسانی خون کے خریدار اور دو بالشتیے اٹھ کر باچھیں کھول کر کہتے ہیں کہ سیاسی علماء تو اسلام آباد کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے عناصر کے چہروں پر لگنے والے عطر سے مفتی شکور کی جوتیوں پر پڑنے والی گردوغبار زیادہ قیمتی ہے۔

آج کل لوگ عام طور پر یہ جملہ کہتے ہیں کہ ہم علماء کا احترام کرتے ہیں مگر سیاسی علماء کا احترام نہیں کرتے۔ مفتی عبدالشکور شہید نے اس پر تحقیق کی اور اپنی تقاریر میں اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ اصطلاح مسلمانوں کے دشمنوں کی ایجاد کردہ ہے تاکہ علماء کے درمیان سیاسی اور غیر سیاسی تفریق ڈال کر قوم کو ان سے متنفر کیا جائے۔ علماء سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، وہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ ان کا احترام ہر مسلمان پر لازم ہے۔

ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ مفتی عبدالشکور 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے گاڑی چلا رہے تھے جب کہ انھیں ہٹ کرنے والا ویگو ڈالہ 110 کلومیٹر کی اسپیڈ سے آیا حالانکہ جائے حادثہ والی شاہراہ پر حد رفتار 60 کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر ہے۔ بہ ظاہر تو یہ ایک حادثہ ہے مگر یہ قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے تفتیش کاروں کویہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

مفتی عبد الشکور کی نماز جنازہ اسلام آباد کے سیکٹر جی 6کے جامعہ دارالسلام میں مولانا فضل الرحمن نے پڑھائی۔ بعد ازاں ان کا جسد خاکی اْن کے آبائی علاقے لکی مروت روانہ کردیا گیا، جہاں گزشتہ روز نماز ظہر کے بعد اْن کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

مفتی عبدالشکور کی شہادت پرپاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ اْن کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا، انتہائی نا مناسب جملے شیئر کیے۔

یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔ نہ ہی یہ اخلاقی طور پردرست ہے اور نہ اسلام اِس قسم کے رویے کی اجازت دیتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مرنے والوں کو برا مت کہو کیونکہ جو اعمال انھوں نے آگے بھیجے وہ ان تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ گالم گلوچ اْن تک نہیں پہنچتی بلکہ اِس سے تو زندہ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

وہ درویش صفت سیاستدان، جرات مند و غیرت مند عالم دین، اورانتہائی سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ آج بھی اْن کا اپنا گھر مٹی سے بنا ہوا کچا گھر ہے جس کی مرمت بھی وہ خود کرتے تھے۔ گزشتہ رمضان مولانا فضل الرحمن کے گھر افطاری پر مدعو تھے وہ جس وقت مولانا کے گھر پہنچے تو لیٹ ہوگئے اور گیٹ پر ہی افطاری ہوگئی۔ جہاں کچھ سیکیورٹی گارڈ زمین پر بیٹھ کر افطاری کر رہے تھے، مفتی عبدالشکور نے ایک وفاقی وزیر ہونے کے باوجود کوئی عار محسوس نہیں کی، اْنہی کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر افطاری کرلی۔

ایسے اللہ کے ولی کے بارے میں اخلاق باختہ گفتگو کرنے والوں نے اپنا نامہ اعمال برباد کیا ہے۔ مفتی صاحب کو تو اللہ نے سعادت کی زندگی دی اور شہادت کی موت۔ ان کے لیے تو یہی اعزاز کافی ہے۔ اللہ کریم اْنکی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک تصویر نظر سے گزری جس میں مفتی صاحبؒ کے اکلوتے بیٹے محمد اپنے بابا جان کے چہرے پہ ہاتھ رکھ کے مسکرا رہا ہے ، یہ فرشتہ صفت معصوم محمد یہ سمجھ رہا ہے کہ ان کے باباجان سو رہے ہیں' تھوڑی دیر بعد جاگ جائیں گے۔

ان کو کیا پتہ یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے' اب وہ اپنے بابا کی آواز میں کبھی خود کوپکارتے ہوئے نہیں پائینگے، مگر اللہ رب العزت جب بچے کے سر سے ایسے درویش باپ کا سایہ اٹھاتا ہے تو اس بچے کو باپ جیسا بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اللہ رب العزت محمد کو اپنے باباجان کا بہترین نعم البدل، داد جان کا مضبوط سہارا اور اپنی اماں جان کے زخموں کا مرہم بنا کر جسمانی اور روحانی صحت کے ساتھ عمر خضر سے نوازیں۔ اور مجھ سمیت جمعیت علماء اسلام کے اکابرین، کارکنان، متعلقین و معتقدین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔
Load Next Story