’’بروقت طبی امداد سے زندگی بچ سکتی ہے‘‘
ممتاز ماہر امراض قلب ڈاکٹر فرقد عالمگیر سے گفتگو
ڈاکٹر فرقد عالمگیر ممتاز پاکستانی کارڈیالوجسٹ ہیں، جنہوں نے اپنے شعبے میں دنیا بھر میں نام کمایا اور وطن عزیز کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔
وہ کچھ عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ دل کا دورہ ہونے پر پاکستان میں مریض کا فوری علاج کیا جائے، تاکہ اس کی زندگی بچانے کے ساتھ اس کے دل کو بھی کسی بڑے نقصان سے بچا لیا جائے۔ وہ اس پروگرام کا برطانیہ میں بڑی کامیابی سے نفاذ کر چکے تھے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی ان کے مجوزہ پروگرام کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پنجاب میں رائج کرنے کی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر فرقد سے ایک ملاقات میں اس پروگرام کی ضرورت و افادیت اور مختلف امراض قلب سے بچاؤ اور علاج پر گفتگو ہوئی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس: ہارٹ اٹیک ہونے پر فوری اینجیوپلاسٹی کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: دل کا دورہ یا ہارٹ اٹیک بہت سنگین بیماری ہے۔ ایک ہے دل کا درد یعنی انجائنا، یہ اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں۔ ہارٹ اٹیک میں خون کی شریان کلاٹ سے بند ہو جاتی ہے، اس کا بہترین علاج ہے کہ ہم اسی وقت اینجیو پلاسٹی کریں اور بلون، سٹنٹ سے شریان کھول کے خون رواں کر دیں۔
اس کو پرائمری پی سی آئی یا پرائمری انجیو پلاسٹی کہتے ہیں۔ یہاں دل کے دورے کے بعد بھی مریضوں کو دقیانوسی طریقے سے ٹریٹ کیا جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا ملک میں اتنے بڑے بڑے ہسپتال ہیں لیکن ایک آدھ جگہ کے علاوہ کوئی بھی فوری آپریٹ نہیں کر رہا۔ بس ٹیکہ لگا دیتے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے، جس سے لوگوں کے دل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا تھا۔
انجیکشن صرف 30 فیصد مریضوں میں مدد کرتا ہے، اینجیوپلاسٹی 100 فیصد لوگوں میں مدد کرتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے ہماری نہیں سنی، ان کو میں نے پریزنٹیشنز بھی دیں۔ محسن نقوی صاحب کو کہا کہ آپ کچھ وقت کے لیے آئے ہیں، یہ نیک کام کر جائیں، اس سے لوگوں کی زندگیاں بچتی ہیں۔
ایکسپریس: آپ کا مجوزہ پروگرام کیا ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: میں نے برطانیہ میں بھی اس پروگرام کا آغاز کیا تھا کہ دل کا دورہ ہونے کے 90 منٹ کے اندر مریض کو ٹریمنٹ دیا جائے۔ اگر دو گھنٹے کے فاصلے پر کوئی بڑا طبی سہولت کا مرکز موجود نہیں تو فوری طور پر مریض کو ٹیکہ لگا کر اینجیو پلاسٹی کے لیے 12 گھنٹے کے اندر کسی بڑے طبی مرکز منتقل کیا جائے، جسے ڈرپ اینڈ شفٹ کہتے ہیں۔ ہماری پریزنٹیشن پر وزیراعلیٰ محسن نقوی نے 48 سے 72 گھنٹے کے اندر پورے پنجاب میں اسے رائج کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ انہوںنے صوبے کے ماہرین امراض قلب کی میٹنگ بلائی اور اس پر فوراً عمل کرا دیا۔
پنجاب میں جتنے بھی بڑے ہسپتال ہیں جہاں اینجیو گرافی کی سہولت موجود ہے، وہاں اب دل کے دورے کے بعد مریض کو انجیکشن کے بجائے فوراً اینجیو پلاسٹی کی جاتی ہے۔
چاہے رات ہو یا دن، چوبیس گھنٹے اینجو پلاسٹی کے لیے لیب کھلی ہوئی ہے۔ ہمیں ڈاکٹرز کے نام اور اعداد و شمار کا علم ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے پاس ڈیٹا آ رہا ہے۔ ہم پرائیویٹ شعبے کا تعاون بھی حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اصل مقصد مریض کا فائدہ ہے، اور اب صحت کارڈ کی وجہ سے اخراجات کی ادائیگی کا مسئلہ نہیں رہا۔ ویسے سرکاری ہسپتالوں میں یہ سب ٹریٹمنٹ مفت ہے، کیونکہ جب ہارٹ اٹیک ہو تو کوئی بھی آپریشن کے لیے جیب میں چار پانچ لاکھ روپے لے کر نہیں گھوم رہا ہوتا۔
تاہم ملک کی بڑی آبادی چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہتی ہے، مثلاً چونیاں، قصور، جھنگ، چنیوٹ، شیخوپورہ وغیرہ۔ ہارٹ اٹیک تو وہاں بھی ہوتے ہیں اور ان کو فوراً اینجیوپلاسٹی کی سہولت میسر نہیں۔
ان علاقوں کے لیے یہ پالیسی بنائی ہے مقامی صحت کے مراکز میں ان کو فوری طور پر ٹیکہ لگا کر 12 گھنٹے کے اندر بڑے صحت کے مرکز میں شفٹ کرنا ہے۔ نزدیک کسی پرائیویٹ ہسپتال میں سہولت میسر ہے تو وہاں لے جا کر مریض کو ٹریٹ کیا جائے گا۔
ایکسپریس: پروگرام کے عمل درآمد میں کون سی مشکلات درپیش آئیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: دل کے امراض کے علاج کے لیے انفراسٹرکچر تو صوبے میں موجود تھا، ڈویژن کی سطح اور بڑے شہروں میں اچھے ہسپتال موجود ہیں۔ اب ہم نے ڈاکٹرز کی تربیت شروع کر دی ہے اور ہمیں روزانہ کے اعداد و شمار مل رہے ہیں۔ ایک مسئلہ ڈاکٹروں کی دستیابی کا بھی ہے۔
ہارٹ اٹیک عموماً رات کو یا صبح کے وقت ہوتے ہیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ ان اوقات میں بھی مریض کو فوراً آپریٹ کیا جائے۔ طبی عملے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ برطانیہ میں بھی شروع کیا تو ڈاکٹروں کو مختلف انٹنسیو دیئے کہ دل کے دورے کے بعد فوری آپریٹ کیا جائے۔ جہاں دو گھنٹے کے اندر اینجوپلاسٹی ممکن نہیں، وہاں ڈرپ اینڈ شفٹ کی پالیسی ہے کہ انجیکشن لگا کے مریض کو 12 گھنٹے کے اندر بڑے مرکز منتقل کیا جائے، تاکہ اس کا بھی جلد علاج شروع کیا جائے۔
ایکسپریس: ابھی تک پروگرام کے نتائج سے مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: ہم نے پنجاب بھر کے ہسپتالوں کو کہا ہے کہ دل کے دورے کے بعد مریض کا فوری آپریٹ کیا جائے، کیونکہ اس میں 90 منٹ کے اندر بند شریان کو کھولنا ہوتا ہے۔ اس میں وقت بہت اہم ہے۔ ہمیں اس کا ڈیٹا ہر روز ملتا ہے، اس بات کی خوشی ہے کہ یہ پروگرام شروع ہو گیا ہے اور لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے، ہم اسے مانیٹر کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک کیس کا علم ہوا کہ رحیم یار خان میں ایک چالیس سالہ شخص ہارٹ اٹیک کے بعد رات کو بارہ بجے ہسپتال آیا تو اسے کسی نے نہیں دیکھا اور دو گھنٹے کے بعد اس کو ٹیکہ لگا ہے، حالانکہ رحیم یار خان میں اس کی انجیو پلاسٹی ہونی چاہیے تھی۔
تاخیر سے دل ڈیمج ہو جاتا ہے ، یہ واحد ایسی بیماری ہے جس میں ڈیمج ہو جائے تو ریکوری بڑی مشکل ہوتی ہے۔ ہماری کوشش ہے ایسا نہ ہو، بہرحال لوگوں کو اس پروگرام سے فائدہ مل رہا ہے۔جب سے چیف منسٹر کا انشیٹو شروع ہوا ہے، اس سے پہلے ڈیڑھ دو ہزار کیسز روزانہ ہوتے تھے ، اب پانچ ہزار کیسز ہو گئے ہیں، دگنی تعداد میں مریضوں کو فائدہ مل رہا ہے۔
ایکسپریس: پہلے ہارٹ اٹیک میں زندگی بچنے کا امکان کتنے فیصد ہوتا ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: جو میجر ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جس کی میں بات کر رہا ہوں اور جسے میڈیکل کی زبان میں 'ایس ٹی ایلیویشن مائیکارڈیل انفارکشن' ST-elevation myocardial infarction (STEMI) کہا جاتا ہے، اس کی تشخیص ای سی جی سے ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ای سی جی میں تبدیلی ضرور آتی ہے۔
چاہے درد نہ بھی ہو۔ میجر ہارٹ اٹیک میں آپ فوراً علاج نہ کریں تو شرح اموات بہت زیادہ ہے، کیونکہ پھر مرض پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ویسے ٹریٹمنٹ میں بھی تھوڑا سا رسک فیکٹر ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت زیادہ ہے کیونکہ لوگوں کو پھر ہارٹ فلئیر نہیں ہوتے، ان کی نبض خراب نہیں ہوتی اور درد نہیں ہوتا۔ ہمارے لوگ بیچارے suffer کرتے ہیں کیونکہ ان کا مکمل علاج نہیں ہوتا تھا، ہم نے اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایکسپریس:دل کے امراض کے بڑے اسباب کیا ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: پاکستان میں کئی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے دل کا مرض ہوتا ہے، اس میں شوگراور کولیسٹرول زیادہ ہونا، غذا میں بدپرہیزی، ماحول کی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ اب یہ مرض چھوٹی عمر کے افراد تیس، چالیس بلکہ پچیس سال کے لوگوں میں بھی آ گیا ہے، یہ مرض وراثت میں بھی ملتا ہے۔
'پری وینٹیو کارڈیالوجی' کا مطلب ہے لوگوں کو دل کے امراض کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ موجودہ صوبائی وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم نے پری وینٹو کارڈیالوجی شروع کرائی ہے، اس میں یہ ہے کہ جو لوگ ابتدائی سٹیجز پہ ہیں۔
ان کا فوراً علاج کیا جائے کہ وہ دل کے امراض میں مبتلا نہ ہوں، لیکن اگر خدانخواستہ کسی کو ہوتا ہے تو اس کو فوراً ٹریٹ کیا جائے، اور اس دوسرے مرحلے پر ہم خود کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے تعلیم اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اپنے دل کے مسائل کا بہت دیر سے پتا چل رہا ہے۔
ایکسپریس: امراض قلب کی کیا علامات ہیں؟ تشخیص کے لیے کون سے ٹیسٹ مفید ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: سانس چڑھنا، چھاتی میں درد اور بوجھ پڑنا، جبڑے، کمر میں درد وغیرہ۔ چالیس سال کی عمر کے بعد آپ کا باقاعدگی سے بلڈ ٹیسٹ ہونا چاہیے، ہر ایک کو اپنا کولیسٹرول چیک کرانا چاہیے۔
فاسٹنگ لیپڈ پروفائل، شوگر کا ٹیسٹ۔ علامات مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کے خاندان میں بھی دل کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جتنی جلدی آپ ڈاکٹر کو دکھائیں اس کی جلدی تشخیص ہو سکتی ہے ، اور بروقت تشخیص سے اچھا علاج ہو سکتا ہے۔
صحت مندانہ لائف سٹائل اختیار کریں، خالی پیٹ واک کریں۔ کھانے کے بعد واک کرنا اچھی عادت نہیں، کھانا اگر کھا لیا ہے تو اس کے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد واک کرنی چاہیے جو دل کے لیے اچھی چیز سمجھی جاتی ہے۔
اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تو آج کل اچھے علاج کے ساتھ آدمی نارمل زندگی گزار سکتا ہے، اس کے بعد آپ کو ریگولر دوائیاں کھانی ہیں، سال میں ایک دفعہ کارڈیالوجسٹ کو دکھانا ہے، شوگر کو کنٹرول کرنا ہے، گردوں اور بلڈ پریشر کا دھیان رکھنا ہے، یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔
برطانیہ میں صحت کا پورا عملہ نرسنگ سٹاف وغیرہ محنت اور دلجمعی سے کام کرتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ صحت کارڈ کے غلط استعمال سے بھی نقصان ہو رہا ہے، اس ضمن میں اصلاح احوال کی ضرورت ہے۔
عالمی شہرت یافتہ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر فرقد عالمگیر نے ابتدائی تعلیم لاہور کے سینٹ اینتھونی ہائی اسکول سے حاصل کی۔ ایچی سن کالج میں اول آنے پر انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
ان کے والد پروفیسر عالمگیر خان کنگ ایڈوڑ میڈیکل کالج میں پروفیسر آف میڈیسن تھے، ڈاکٹر فرقد نے بھی اسی معتبر ادارے سے 1981ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ امراض قلب میں مہارت کی ابتدائی تربیت میو ہسپتال لاہور سے حاصل کرنے کے بعد امریکا اور پھر برطانیہ چلے گئے۔ MRCP کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ رائل لندن ہاسپٹل اور لندن چیسٹ ہاسپٹل سے قلب کی جراحت کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے برطانیہ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فرقد کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے دل کے متاثرہ والو کو ٹھیک کرنے کے لیے برطانیہ میں اوپن ہارٹ سرجری کے بجائے نیا طریقہ (Mitraclip and Tricuspid clip procedure) شروع کیا، جو کہ پرانے طریقے سے زیادہ محفوظ تھا اور پھر اسے یورپ کے مختلف ممالک، مشرق بعید اور مشرق وسطی ، نیوزی لینڈ کے ڈاکٹرز کو سکھایا۔ بیرون ممالک سفر کے دوران وہ والدین سے ملنے باقاعدگی سے پاکستان آتے، اس دوران ملک میں بھی ڈاکٹروں کی رہنمائی اور تربیت کرنے کا موقع ملا۔انہیں جدہ میں 'کنگ فیصل کارڈیک سنٹر' کا پہلا چیئرمین نامزد کیا گیا۔
انہوں نے برطانیہ میں پروگرام کا آغاز کیا کہ دل کے دورے کا شکار ہونے والے افراد کا 90 منٹ کے اندر آپریشن کیا جائے، تاکہ ان کی زندگی کو لاحق خطرے کو کم کیا جا سکے۔ ان کی خدمات پر ملکہ برطانیہ کی طرف سے 'ممبر آف برٹش ایمپائر' (MBE) ایوارڈ ملا، جب کہ 2012ء میں حکومت پاکستان نے 'ستارئہ پاکستان' سے نوازا۔
اپنی 96 سالہ والدہ سے ان کا تعلق بہت خاص ہے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور دیکھ بھال کی خاطر اب وہ مہینے میں دو تین ہفتے پاکستان رہتے ہیں اور ایک ہفتے کے لیے برطانیہ چلے جاتے ہیں۔ دوست احباب کے مشورے پر انہوں نے کوشش کی کہ پاکستان میں بھی امراض قلب کے مریضوں کے لیے خدمات انجام دیں۔
وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی دل کا دورہ ہونے پر متاثرہ شخص کی 90 منٹ کے اندر اینجیوپلاسٹی کر دی جائے۔ گزشتہ حکومت میں صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد، عثمان بزدار اور عمران خان کو انہوں نے اپنی تجاویز دیں، جن پر عمل نہ ہوا۔
موجودہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے رابطہ ہوا تو انہوں نے ان کے مجوزہ پروگرام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے فوری نفاذ کا فیصلہ کیا اور انہیں صحت کے شعبے میں اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا۔علاوہ ازیں وہ لاہور کے بحریہ ٹاؤن ہسپتال میں دل کے مریضوں کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
وہ کچھ عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ دل کا دورہ ہونے پر پاکستان میں مریض کا فوری علاج کیا جائے، تاکہ اس کی زندگی بچانے کے ساتھ اس کے دل کو بھی کسی بڑے نقصان سے بچا لیا جائے۔ وہ اس پروگرام کا برطانیہ میں بڑی کامیابی سے نفاذ کر چکے تھے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی ان کے مجوزہ پروگرام کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پنجاب میں رائج کرنے کی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر فرقد سے ایک ملاقات میں اس پروگرام کی ضرورت و افادیت اور مختلف امراض قلب سے بچاؤ اور علاج پر گفتگو ہوئی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس: ہارٹ اٹیک ہونے پر فوری اینجیوپلاسٹی کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: دل کا دورہ یا ہارٹ اٹیک بہت سنگین بیماری ہے۔ ایک ہے دل کا درد یعنی انجائنا، یہ اتنا سنجیدہ معاملہ نہیں۔ ہارٹ اٹیک میں خون کی شریان کلاٹ سے بند ہو جاتی ہے، اس کا بہترین علاج ہے کہ ہم اسی وقت اینجیو پلاسٹی کریں اور بلون، سٹنٹ سے شریان کھول کے خون رواں کر دیں۔
اس کو پرائمری پی سی آئی یا پرائمری انجیو پلاسٹی کہتے ہیں۔ یہاں دل کے دورے کے بعد بھی مریضوں کو دقیانوسی طریقے سے ٹریٹ کیا جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا ملک میں اتنے بڑے بڑے ہسپتال ہیں لیکن ایک آدھ جگہ کے علاوہ کوئی بھی فوری آپریٹ نہیں کر رہا۔ بس ٹیکہ لگا دیتے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے، جس سے لوگوں کے دل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا تھا۔
انجیکشن صرف 30 فیصد مریضوں میں مدد کرتا ہے، اینجیوپلاسٹی 100 فیصد لوگوں میں مدد کرتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے ہماری نہیں سنی، ان کو میں نے پریزنٹیشنز بھی دیں۔ محسن نقوی صاحب کو کہا کہ آپ کچھ وقت کے لیے آئے ہیں، یہ نیک کام کر جائیں، اس سے لوگوں کی زندگیاں بچتی ہیں۔
ایکسپریس: آپ کا مجوزہ پروگرام کیا ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: میں نے برطانیہ میں بھی اس پروگرام کا آغاز کیا تھا کہ دل کا دورہ ہونے کے 90 منٹ کے اندر مریض کو ٹریمنٹ دیا جائے۔ اگر دو گھنٹے کے فاصلے پر کوئی بڑا طبی سہولت کا مرکز موجود نہیں تو فوری طور پر مریض کو ٹیکہ لگا کر اینجیو پلاسٹی کے لیے 12 گھنٹے کے اندر کسی بڑے طبی مرکز منتقل کیا جائے، جسے ڈرپ اینڈ شفٹ کہتے ہیں۔ ہماری پریزنٹیشن پر وزیراعلیٰ محسن نقوی نے 48 سے 72 گھنٹے کے اندر پورے پنجاب میں اسے رائج کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ انہوںنے صوبے کے ماہرین امراض قلب کی میٹنگ بلائی اور اس پر فوراً عمل کرا دیا۔
پنجاب میں جتنے بھی بڑے ہسپتال ہیں جہاں اینجیو گرافی کی سہولت موجود ہے، وہاں اب دل کے دورے کے بعد مریض کو انجیکشن کے بجائے فوراً اینجیو پلاسٹی کی جاتی ہے۔
چاہے رات ہو یا دن، چوبیس گھنٹے اینجو پلاسٹی کے لیے لیب کھلی ہوئی ہے۔ ہمیں ڈاکٹرز کے نام اور اعداد و شمار کا علم ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے پاس ڈیٹا آ رہا ہے۔ ہم پرائیویٹ شعبے کا تعاون بھی حاصل کر رہے ہیں کیونکہ اصل مقصد مریض کا فائدہ ہے، اور اب صحت کارڈ کی وجہ سے اخراجات کی ادائیگی کا مسئلہ نہیں رہا۔ ویسے سرکاری ہسپتالوں میں یہ سب ٹریٹمنٹ مفت ہے، کیونکہ جب ہارٹ اٹیک ہو تو کوئی بھی آپریشن کے لیے جیب میں چار پانچ لاکھ روپے لے کر نہیں گھوم رہا ہوتا۔
تاہم ملک کی بڑی آبادی چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہتی ہے، مثلاً چونیاں، قصور، جھنگ، چنیوٹ، شیخوپورہ وغیرہ۔ ہارٹ اٹیک تو وہاں بھی ہوتے ہیں اور ان کو فوراً اینجیوپلاسٹی کی سہولت میسر نہیں۔
ان علاقوں کے لیے یہ پالیسی بنائی ہے مقامی صحت کے مراکز میں ان کو فوری طور پر ٹیکہ لگا کر 12 گھنٹے کے اندر بڑے صحت کے مرکز میں شفٹ کرنا ہے۔ نزدیک کسی پرائیویٹ ہسپتال میں سہولت میسر ہے تو وہاں لے جا کر مریض کو ٹریٹ کیا جائے گا۔
ایکسپریس: پروگرام کے عمل درآمد میں کون سی مشکلات درپیش آئیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: دل کے امراض کے علاج کے لیے انفراسٹرکچر تو صوبے میں موجود تھا، ڈویژن کی سطح اور بڑے شہروں میں اچھے ہسپتال موجود ہیں۔ اب ہم نے ڈاکٹرز کی تربیت شروع کر دی ہے اور ہمیں روزانہ کے اعداد و شمار مل رہے ہیں۔ ایک مسئلہ ڈاکٹروں کی دستیابی کا بھی ہے۔
ہارٹ اٹیک عموماً رات کو یا صبح کے وقت ہوتے ہیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ ان اوقات میں بھی مریض کو فوراً آپریٹ کیا جائے۔ طبی عملے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ برطانیہ میں بھی شروع کیا تو ڈاکٹروں کو مختلف انٹنسیو دیئے کہ دل کے دورے کے بعد فوری آپریٹ کیا جائے۔ جہاں دو گھنٹے کے اندر اینجوپلاسٹی ممکن نہیں، وہاں ڈرپ اینڈ شفٹ کی پالیسی ہے کہ انجیکشن لگا کے مریض کو 12 گھنٹے کے اندر بڑے مرکز منتقل کیا جائے، تاکہ اس کا بھی جلد علاج شروع کیا جائے۔
ایکسپریس: ابھی تک پروگرام کے نتائج سے مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: ہم نے پنجاب بھر کے ہسپتالوں کو کہا ہے کہ دل کے دورے کے بعد مریض کا فوری آپریٹ کیا جائے، کیونکہ اس میں 90 منٹ کے اندر بند شریان کو کھولنا ہوتا ہے۔ اس میں وقت بہت اہم ہے۔ ہمیں اس کا ڈیٹا ہر روز ملتا ہے، اس بات کی خوشی ہے کہ یہ پروگرام شروع ہو گیا ہے اور لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے، ہم اسے مانیٹر کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک کیس کا علم ہوا کہ رحیم یار خان میں ایک چالیس سالہ شخص ہارٹ اٹیک کے بعد رات کو بارہ بجے ہسپتال آیا تو اسے کسی نے نہیں دیکھا اور دو گھنٹے کے بعد اس کو ٹیکہ لگا ہے، حالانکہ رحیم یار خان میں اس کی انجیو پلاسٹی ہونی چاہیے تھی۔
تاخیر سے دل ڈیمج ہو جاتا ہے ، یہ واحد ایسی بیماری ہے جس میں ڈیمج ہو جائے تو ریکوری بڑی مشکل ہوتی ہے۔ ہماری کوشش ہے ایسا نہ ہو، بہرحال لوگوں کو اس پروگرام سے فائدہ مل رہا ہے۔جب سے چیف منسٹر کا انشیٹو شروع ہوا ہے، اس سے پہلے ڈیڑھ دو ہزار کیسز روزانہ ہوتے تھے ، اب پانچ ہزار کیسز ہو گئے ہیں، دگنی تعداد میں مریضوں کو فائدہ مل رہا ہے۔
ایکسپریس: پہلے ہارٹ اٹیک میں زندگی بچنے کا امکان کتنے فیصد ہوتا ہے؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: جو میجر ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جس کی میں بات کر رہا ہوں اور جسے میڈیکل کی زبان میں 'ایس ٹی ایلیویشن مائیکارڈیل انفارکشن' ST-elevation myocardial infarction (STEMI) کہا جاتا ہے، اس کی تشخیص ای سی جی سے ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ای سی جی میں تبدیلی ضرور آتی ہے۔
چاہے درد نہ بھی ہو۔ میجر ہارٹ اٹیک میں آپ فوراً علاج نہ کریں تو شرح اموات بہت زیادہ ہے، کیونکہ پھر مرض پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ویسے ٹریٹمنٹ میں بھی تھوڑا سا رسک فیکٹر ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت زیادہ ہے کیونکہ لوگوں کو پھر ہارٹ فلئیر نہیں ہوتے، ان کی نبض خراب نہیں ہوتی اور درد نہیں ہوتا۔ ہمارے لوگ بیچارے suffer کرتے ہیں کیونکہ ان کا مکمل علاج نہیں ہوتا تھا، ہم نے اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایکسپریس:دل کے امراض کے بڑے اسباب کیا ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: پاکستان میں کئی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے دل کا مرض ہوتا ہے، اس میں شوگراور کولیسٹرول زیادہ ہونا، غذا میں بدپرہیزی، ماحول کی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ اب یہ مرض چھوٹی عمر کے افراد تیس، چالیس بلکہ پچیس سال کے لوگوں میں بھی آ گیا ہے، یہ مرض وراثت میں بھی ملتا ہے۔
'پری وینٹیو کارڈیالوجی' کا مطلب ہے لوگوں کو دل کے امراض کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ موجودہ صوبائی وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم نے پری وینٹو کارڈیالوجی شروع کرائی ہے، اس میں یہ ہے کہ جو لوگ ابتدائی سٹیجز پہ ہیں۔
ان کا فوراً علاج کیا جائے کہ وہ دل کے امراض میں مبتلا نہ ہوں، لیکن اگر خدانخواستہ کسی کو ہوتا ہے تو اس کو فوراً ٹریٹ کیا جائے، اور اس دوسرے مرحلے پر ہم خود کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے تعلیم اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اپنے دل کے مسائل کا بہت دیر سے پتا چل رہا ہے۔
ایکسپریس: امراض قلب کی کیا علامات ہیں؟ تشخیص کے لیے کون سے ٹیسٹ مفید ہیں؟
ڈاکٹر فرقد عالمگیر: سانس چڑھنا، چھاتی میں درد اور بوجھ پڑنا، جبڑے، کمر میں درد وغیرہ۔ چالیس سال کی عمر کے بعد آپ کا باقاعدگی سے بلڈ ٹیسٹ ہونا چاہیے، ہر ایک کو اپنا کولیسٹرول چیک کرانا چاہیے۔
فاسٹنگ لیپڈ پروفائل، شوگر کا ٹیسٹ۔ علامات مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کے خاندان میں بھی دل کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن جتنی جلدی آپ ڈاکٹر کو دکھائیں اس کی جلدی تشخیص ہو سکتی ہے ، اور بروقت تشخیص سے اچھا علاج ہو سکتا ہے۔
صحت مندانہ لائف سٹائل اختیار کریں، خالی پیٹ واک کریں۔ کھانے کے بعد واک کرنا اچھی عادت نہیں، کھانا اگر کھا لیا ہے تو اس کے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد واک کرنی چاہیے جو دل کے لیے اچھی چیز سمجھی جاتی ہے۔
اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تو آج کل اچھے علاج کے ساتھ آدمی نارمل زندگی گزار سکتا ہے، اس کے بعد آپ کو ریگولر دوائیاں کھانی ہیں، سال میں ایک دفعہ کارڈیالوجسٹ کو دکھانا ہے، شوگر کو کنٹرول کرنا ہے، گردوں اور بلڈ پریشر کا دھیان رکھنا ہے، یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔
برطانیہ میں صحت کا پورا عملہ نرسنگ سٹاف وغیرہ محنت اور دلجمعی سے کام کرتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ صحت کارڈ کے غلط استعمال سے بھی نقصان ہو رہا ہے، اس ضمن میں اصلاح احوال کی ضرورت ہے۔
عالمی شہرت یافتہ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر فرقد عالمگیر نے ابتدائی تعلیم لاہور کے سینٹ اینتھونی ہائی اسکول سے حاصل کی۔ ایچی سن کالج میں اول آنے پر انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
ان کے والد پروفیسر عالمگیر خان کنگ ایڈوڑ میڈیکل کالج میں پروفیسر آف میڈیسن تھے، ڈاکٹر فرقد نے بھی اسی معتبر ادارے سے 1981ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ امراض قلب میں مہارت کی ابتدائی تربیت میو ہسپتال لاہور سے حاصل کرنے کے بعد امریکا اور پھر برطانیہ چلے گئے۔ MRCP کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ رائل لندن ہاسپٹل اور لندن چیسٹ ہاسپٹل سے قلب کی جراحت کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے برطانیہ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فرقد کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے دل کے متاثرہ والو کو ٹھیک کرنے کے لیے برطانیہ میں اوپن ہارٹ سرجری کے بجائے نیا طریقہ (Mitraclip and Tricuspid clip procedure) شروع کیا، جو کہ پرانے طریقے سے زیادہ محفوظ تھا اور پھر اسے یورپ کے مختلف ممالک، مشرق بعید اور مشرق وسطی ، نیوزی لینڈ کے ڈاکٹرز کو سکھایا۔ بیرون ممالک سفر کے دوران وہ والدین سے ملنے باقاعدگی سے پاکستان آتے، اس دوران ملک میں بھی ڈاکٹروں کی رہنمائی اور تربیت کرنے کا موقع ملا۔انہیں جدہ میں 'کنگ فیصل کارڈیک سنٹر' کا پہلا چیئرمین نامزد کیا گیا۔
انہوں نے برطانیہ میں پروگرام کا آغاز کیا کہ دل کے دورے کا شکار ہونے والے افراد کا 90 منٹ کے اندر آپریشن کیا جائے، تاکہ ان کی زندگی کو لاحق خطرے کو کم کیا جا سکے۔ ان کی خدمات پر ملکہ برطانیہ کی طرف سے 'ممبر آف برٹش ایمپائر' (MBE) ایوارڈ ملا، جب کہ 2012ء میں حکومت پاکستان نے 'ستارئہ پاکستان' سے نوازا۔
اپنی 96 سالہ والدہ سے ان کا تعلق بہت خاص ہے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور دیکھ بھال کی خاطر اب وہ مہینے میں دو تین ہفتے پاکستان رہتے ہیں اور ایک ہفتے کے لیے برطانیہ چلے جاتے ہیں۔ دوست احباب کے مشورے پر انہوں نے کوشش کی کہ پاکستان میں بھی امراض قلب کے مریضوں کے لیے خدمات انجام دیں۔
وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی دل کا دورہ ہونے پر متاثرہ شخص کی 90 منٹ کے اندر اینجیوپلاسٹی کر دی جائے۔ گزشتہ حکومت میں صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد، عثمان بزدار اور عمران خان کو انہوں نے اپنی تجاویز دیں، جن پر عمل نہ ہوا۔
موجودہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے رابطہ ہوا تو انہوں نے ان کے مجوزہ پروگرام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے فوری نفاذ کا فیصلہ کیا اور انہیں صحت کے شعبے میں اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا۔علاوہ ازیں وہ لاہور کے بحریہ ٹاؤن ہسپتال میں دل کے مریضوں کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔