’انسرٹین زون‘
پراسراریت میں لپٹا انسانی دماغ کا حصہ
انسانی دماغ طاقت کے ساتھ ساتھ پراسراریت بھی رکھتا ہے۔ دماغ کا وزن قریب ڈیڑھ کلوگرام ہوتا ہے مگر اس میں لگ بھگ 8600 کروڑ نیوران اس کی باہری تہہ، جسے 'گرے میٹر' کے نام سے جانا جاتا ہے، بناتے ہیں۔
یہ تعداد کائنات میں موجود ستاروں جتنی ہے۔ نیوران ایک دوسرے سے سائنیپسز (جن کی مدد سے الیکٹریکل سنگل منتقل ہوتا ہے) کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ میں سائنیپسز کی تعداد اندازاً ایک کے بعد 15 صفر پر مشتمل ہے۔
سائنسدانوں کو معلوم ہے کہ نیوران کے بیچ رابطے سائنیپسز کے ذریعے ہوتے ہیں مگر وہ یہ تعین کرنے سے قاصر ہیں کہ تمام معلومات، جو دماغ تک پہنچتی ہیں، وہ کیسے پیدا ہوتی ہیں، کہاں محفوظ رکھی جاتی ہیں اور کس طرح ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ دماغ اور یادداشت کے بیچ کا معمہ 'انسرٹین زون' یا غیر یقینی کی جگہ کہلاتا ہے۔
یہ وہ حصہ ہے جہاں جواب سے زیادہ سوال ہیں۔ سوئس نیورو اناٹمسٹ اگستے ہنری فورل نے 1877ء میں اس حصے کے متعلق کہا، ''یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔'' آج تقریباً 150 سال بعد بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔
طب اور ٹیکنالوجی میں نئی دریافتوں کے باوجود کوئی بھی پوری طرح انسرٹین زون کو سمجھ نہیں پایا۔ تاہم ماہرین کے پاس ایسے شواہد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی جسم میں یہ جگہ یادداشت کی نگرانی کرتی ہے۔ اگرچہ اس حصے پر بہت زیادہ تحقیق نہیں ہو سکی تاہم حالیہ تحقیق سے اس اہم مگر نظر انداز کی گئی جگہ کے بارے میں کچھ معلومات ملی ہیں۔
انسرٹین زون کے بارے میں کیا شواہد ہیں؟
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں نیورو سائنسز کے ماہر ڈاکٹر تاؤ کا کہنا ہے کہ گرے میٹر میں واقع یہ جگہ دراصل نیورانز کی ایک تہہ ہے جو تھیلمس اور ہائپو تھیلمس کے بیچ ہے۔
انسرٹین زون میں چار مزید جگہوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ سب کا اپنا اپنا کردار ہے جن میں توجہ سے بیداری جیسی غیر ارادی حرکات پیدا ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر تاؤ کہتے ہیں کہ اسی حصے کی مدد سے انسانی جسم سو پاتا ہے، درد محسوس کرتا ہے اور کچھ سیکھ سکتا ہے۔
چوہوں پر حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ حصہ طویل مدتی یادداشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر یہ کیسے کام کرتا ہے، حرکات کروانے کے لیے دماغ کے دیگر حصوں سے کیسے رابطہ کرتا ہے۔
اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ مثلاً پارکنسنز کے مریضوں میں عام طور پر اسی حصے کو نشانہ بنا کر متحرک کیا جاتا ہے۔ تاہم سائنسدان اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ حصہ بیماری کی علامات پر قابو پانے کی صلاحیت کیوں رکھتا ہے۔
اسے سمجھنا مشکل کیوں؟
ڈاکٹر تاؤ بتاتے ہیں کہ انسرٹین زون دماغ کی گہرائی میں پائی جانے والی ایک باریک جھلی ہے چنانچہ زندہ لوگوں پر اس کی تحقیق مشکل ہے۔
ماہرین کے مطابق اس جھلی کی کیمیائی اور خلیاتی ساخت پیچیدہ ہے۔ اس میں ہر جگہ کا مختلف کام ہے اور نیورانز کے ہر کام میں بیس مختلف نیورو ٹرانسمیٹرز تک ملوث ہوتے ہیں جس سے اس کا باریک جائزہ لینا مشکل ہے۔
ڈاکٹر تاؤ کا کہنا ہے کہ دماغ کے دوسرے حصوں کے ساتھ اس کا رابطے کا عمل بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ دماغ کے کورٹیکس سے لے کر ریڑھ کی ہڈی تک، نیورل سرکٹ کے تقریباً ہر مرکز کے ساتھ انسرٹین زون کا رابطہ رہتا ہے اور اسی لیے مختلف حرکات میں اس کا عمل دخل رہتا ہے۔
ماہرین کو کیا شواہد ملے ہیں؟
جرمنی میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار برین ریسرچ اور یونیورسٹی آف فریبرگ نے چوہوں پر تحقیق کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ توجہ برتنے کے دورانیے اور طویل مدتی یادداشت میں انسرٹین زون کا کردار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کو پتا چلا کہ یہ سیریبرل نیو کورٹیکس (دماغ کا سب سے بڑا حصہ) سے منسلک ہے۔
انسانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیو کورٹیکس میں طویل مدتی یادداشت محفوظ ہوتی ہے۔ اسے سوچ، شعور اور زبان جیسے افعال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں کیا جا سکا کہ یہاں یادداشت کیسے پہنچتی ہے اور محفوظ رکھی جاتی ہے۔
اندرونی اور بیرونی سگلنلز
نئی یادداشتوں کے قیام کے لیے دماغ بیرونی اور اندرونی سگنلز کے ذریعے حسوں سے معلومات لیتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے جڑی معلومات وہاں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ اس کے لیے نیوران سگنلز کا تبادلہ کرتے ہیں جس سے دماغ کے مخصوص حصے فعال یا غیر فعال ہو جاتے ہیں۔
ماضی کی تحقیقات میں یہ دیکھا گیا کہ سیکھنے یا یادداشت بنانے میں کون سے دماغی حصے متحرک ہوتے ہیں۔ مگر اس نئی تحقیق میں انسرٹین زون میں غیر فعالی کے سگنل ابھرنے پر غور کیا گیا۔ یعنی ماہرین نے دیکھا کہ انسرٹین زون نیورانز کے فعال ہونے کے بجائے غیر فعال ہونے سے سیکھنے اور یادداشت میں کردار ادا کرتا ہے۔
انسرٹین زون میں غیر فعالی کا نیٹ ورک بنتا ہے جو مخصوص رابطے ختم کر دیتا ہے تاکہ دوسری جگہوں میں فعالی کے رابطے مؤثر ہوسکیں۔ یہ ٹریفک لائٹس جیسا نظام ہے جس میں ہری اور سرخ بتیاں آپس میں رابطہ کر کے طے کرتی ہیں کہ کس سڑک پر ٹریفک روکنی ہے تاکہ دوسری سڑک پر ٹریفک رواں رہے۔
ڈاکٹر تاؤ کہتے ہیں، ''یہ دلچسپ تحقیق ہے۔ یہ تحقیق عصبی نظام میں سیکھنے اور یادداشت قائم کرنے کے حوالے سے نئی معلومات دیتی ہے۔'' اس لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ تحقیق کے مصنفین کے مطابق یادداشت کے نظام کو سمجھ کر ہم یادداشت کھونے، اضطراب اور پارکنسز جیسی بیماریوں کا علاج کر سکیں گے۔
تحقیق کاروں نے مصنوعی ذہانت اور سافٹ ویئر بنانے کی تحقیق پر بھی اس کے مثبت اثرات کا امکان ظاہر کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے محققین ان شواہد کو دیکھ کر انسرٹین زون کے معمے کو حل کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ (بشکریہ بی بی سی اردو)
یہ تعداد کائنات میں موجود ستاروں جتنی ہے۔ نیوران ایک دوسرے سے سائنیپسز (جن کی مدد سے الیکٹریکل سنگل منتقل ہوتا ہے) کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ میں سائنیپسز کی تعداد اندازاً ایک کے بعد 15 صفر پر مشتمل ہے۔
سائنسدانوں کو معلوم ہے کہ نیوران کے بیچ رابطے سائنیپسز کے ذریعے ہوتے ہیں مگر وہ یہ تعین کرنے سے قاصر ہیں کہ تمام معلومات، جو دماغ تک پہنچتی ہیں، وہ کیسے پیدا ہوتی ہیں، کہاں محفوظ رکھی جاتی ہیں اور کس طرح ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ دماغ اور یادداشت کے بیچ کا معمہ 'انسرٹین زون' یا غیر یقینی کی جگہ کہلاتا ہے۔
یہ وہ حصہ ہے جہاں جواب سے زیادہ سوال ہیں۔ سوئس نیورو اناٹمسٹ اگستے ہنری فورل نے 1877ء میں اس حصے کے متعلق کہا، ''یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔'' آج تقریباً 150 سال بعد بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔
طب اور ٹیکنالوجی میں نئی دریافتوں کے باوجود کوئی بھی پوری طرح انسرٹین زون کو سمجھ نہیں پایا۔ تاہم ماہرین کے پاس ایسے شواہد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی جسم میں یہ جگہ یادداشت کی نگرانی کرتی ہے۔ اگرچہ اس حصے پر بہت زیادہ تحقیق نہیں ہو سکی تاہم حالیہ تحقیق سے اس اہم مگر نظر انداز کی گئی جگہ کے بارے میں کچھ معلومات ملی ہیں۔
انسرٹین زون کے بارے میں کیا شواہد ہیں؟
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں نیورو سائنسز کے ماہر ڈاکٹر تاؤ کا کہنا ہے کہ گرے میٹر میں واقع یہ جگہ دراصل نیورانز کی ایک تہہ ہے جو تھیلمس اور ہائپو تھیلمس کے بیچ ہے۔
انسرٹین زون میں چار مزید جگہوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ سب کا اپنا اپنا کردار ہے جن میں توجہ سے بیداری جیسی غیر ارادی حرکات پیدا ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر تاؤ کہتے ہیں کہ اسی حصے کی مدد سے انسانی جسم سو پاتا ہے، درد محسوس کرتا ہے اور کچھ سیکھ سکتا ہے۔
چوہوں پر حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ حصہ طویل مدتی یادداشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر یہ کیسے کام کرتا ہے، حرکات کروانے کے لیے دماغ کے دیگر حصوں سے کیسے رابطہ کرتا ہے۔
اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ مثلاً پارکنسنز کے مریضوں میں عام طور پر اسی حصے کو نشانہ بنا کر متحرک کیا جاتا ہے۔ تاہم سائنسدان اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ حصہ بیماری کی علامات پر قابو پانے کی صلاحیت کیوں رکھتا ہے۔
اسے سمجھنا مشکل کیوں؟
ڈاکٹر تاؤ بتاتے ہیں کہ انسرٹین زون دماغ کی گہرائی میں پائی جانے والی ایک باریک جھلی ہے چنانچہ زندہ لوگوں پر اس کی تحقیق مشکل ہے۔
ماہرین کے مطابق اس جھلی کی کیمیائی اور خلیاتی ساخت پیچیدہ ہے۔ اس میں ہر جگہ کا مختلف کام ہے اور نیورانز کے ہر کام میں بیس مختلف نیورو ٹرانسمیٹرز تک ملوث ہوتے ہیں جس سے اس کا باریک جائزہ لینا مشکل ہے۔
ڈاکٹر تاؤ کا کہنا ہے کہ دماغ کے دوسرے حصوں کے ساتھ اس کا رابطے کا عمل بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ دماغ کے کورٹیکس سے لے کر ریڑھ کی ہڈی تک، نیورل سرکٹ کے تقریباً ہر مرکز کے ساتھ انسرٹین زون کا رابطہ رہتا ہے اور اسی لیے مختلف حرکات میں اس کا عمل دخل رہتا ہے۔
ماہرین کو کیا شواہد ملے ہیں؟
جرمنی میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار برین ریسرچ اور یونیورسٹی آف فریبرگ نے چوہوں پر تحقیق کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ توجہ برتنے کے دورانیے اور طویل مدتی یادداشت میں انسرٹین زون کا کردار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کو پتا چلا کہ یہ سیریبرل نیو کورٹیکس (دماغ کا سب سے بڑا حصہ) سے منسلک ہے۔
انسانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیو کورٹیکس میں طویل مدتی یادداشت محفوظ ہوتی ہے۔ اسے سوچ، شعور اور زبان جیسے افعال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں کیا جا سکا کہ یہاں یادداشت کیسے پہنچتی ہے اور محفوظ رکھی جاتی ہے۔
اندرونی اور بیرونی سگلنلز
نئی یادداشتوں کے قیام کے لیے دماغ بیرونی اور اندرونی سگنلز کے ذریعے حسوں سے معلومات لیتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے جڑی معلومات وہاں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ اس کے لیے نیوران سگنلز کا تبادلہ کرتے ہیں جس سے دماغ کے مخصوص حصے فعال یا غیر فعال ہو جاتے ہیں۔
ماضی کی تحقیقات میں یہ دیکھا گیا کہ سیکھنے یا یادداشت بنانے میں کون سے دماغی حصے متحرک ہوتے ہیں۔ مگر اس نئی تحقیق میں انسرٹین زون میں غیر فعالی کے سگنل ابھرنے پر غور کیا گیا۔ یعنی ماہرین نے دیکھا کہ انسرٹین زون نیورانز کے فعال ہونے کے بجائے غیر فعال ہونے سے سیکھنے اور یادداشت میں کردار ادا کرتا ہے۔
انسرٹین زون میں غیر فعالی کا نیٹ ورک بنتا ہے جو مخصوص رابطے ختم کر دیتا ہے تاکہ دوسری جگہوں میں فعالی کے رابطے مؤثر ہوسکیں۔ یہ ٹریفک لائٹس جیسا نظام ہے جس میں ہری اور سرخ بتیاں آپس میں رابطہ کر کے طے کرتی ہیں کہ کس سڑک پر ٹریفک روکنی ہے تاکہ دوسری سڑک پر ٹریفک رواں رہے۔
ڈاکٹر تاؤ کہتے ہیں، ''یہ دلچسپ تحقیق ہے۔ یہ تحقیق عصبی نظام میں سیکھنے اور یادداشت قائم کرنے کے حوالے سے نئی معلومات دیتی ہے۔'' اس لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ تحقیق کے مصنفین کے مطابق یادداشت کے نظام کو سمجھ کر ہم یادداشت کھونے، اضطراب اور پارکنسز جیسی بیماریوں کا علاج کر سکیں گے۔
تحقیق کاروں نے مصنوعی ذہانت اور سافٹ ویئر بنانے کی تحقیق پر بھی اس کے مثبت اثرات کا امکان ظاہر کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے محققین ان شواہد کو دیکھ کر انسرٹین زون کے معمے کو حل کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ (بشکریہ بی بی سی اردو)