مذاکرات میں پیشرفت پر سپریم کورٹ اپنے حکم پر غور کرسکتی ہے چیف جسٹس
حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان رابطوں کا بتایا گیا ہے، آئندہ سماعت 27 اپریل ہوگی، تحریری حکم نامہ
ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی کیونکہ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے تاہم سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں کوئی پیشرفت ہوئی تو عدالتی احکامات کے حوالے سے غور کیا جاسکتا ہے، عدالت نے سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لیڈران آ رہے ہیں کسی کو تنگی نہ ہو مزید کرسیاں لگا دیں، مولا کریم لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے اور عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے دیکھتے ہیں کہ حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔
وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار شاہ خاور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے اس لیے مناسب ہوگا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے اس لیے قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہوگی۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذر ہوگیا، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا اور اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوگئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف دیا کہ خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ اور طارق بشیر چیمہ بھی آئے ہیں جبکہ ایک کیو ایم سے صابر قائم خانی، ایاز صادق اور بی این پی بھی موجود ہیں۔ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے اور عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔
فاروق ایچ ناٸیک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات پر کام شروع کر چکی ہیں اور بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، عید کے فوری بعد سیاسی ڈاٸیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کریں گے۔ پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو اور ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈاٸیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔
وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے اور ملک بھر میں نگراں حکومتوں کے ذریعے انتخابات ہونے چاہییں، سیاسی معاملات پارٹیوں کے درمیان طے ہونے چاہییں اور سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
روسٹرم پر آکر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنے قیادت سے مشورے کے بعد حاضر ہوئے ہیں، ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے، الیکشن ہورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہییں اور انتخابات پر مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے، عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں، میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔
ایاز صادق بی این پی کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا، پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں، آصف زرداری کے مشکور ہیں انھوں نے ہماری تجویزسے اتفاق کیا اور ن لیگ نے بھی تجویز سے متعلق بات کی ہے۔
طارق بشیر چیمہ نے موقف دیا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں لیکن آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔ عدالت کا فیصلہ کسی کو اچھا لگے گا کسی کو برا لیکن سیاسی قائدین کا مشترکہ فیصلہ قوم کو قبول ہوگا۔
بی این پی عوامی محمد اسرار اللہ ترین نے موقف دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، الیکشن ایک ہی دن میں ہوں ہماری بھی یہی خواہش ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے قمر زمان کائرہ پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ خواجہ سعد رفیق کی گفتگو سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، تلخی بہت زیادہ ہے اور وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے، بطور سیاسی جماعت حکومتی اتحاد سے پہلے بات کا آغاز کیا اور جب ملک میں تلخیاں بڑھیں تو بیٹھ کر سیاسی قوتوں کو حل نکالنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں اور کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہو جائے، عدالت اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں ملک کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔
شاہ محمود قریشی
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے اور کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن عدالت نے بردباری، تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔ تلخی کے بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں اور سیاسی قوتوں نے ملکر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہییں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی، مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں۔ حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے البتہ اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے اور عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ہے، عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، انتشار چاہتے ہیں اور نہ ہی آئین کا انکار۔
سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آئے اور موقف دیا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے۔ عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں ماریں بھی کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے۔ آئین بنانے والے اسکے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ یقین دہانی کرواتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گے، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
شیخ رشید نے موقف دیا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے اور عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکھٹی ہو جائے، سیاستدان مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہییں۔ ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔
سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے موقف دیا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈر پر تھا اور پوری رات سفر کر کے عدالت پہنچا ہوں، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کاروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہو جائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور آج بھی آئین ہی ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا یے۔
سراج الحق نے کہا کہ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہوگیا، 1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا۔ اسی طرح 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا جبکہ آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے اس لیے اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے۔ نیلسن منڈیلا کیساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گیے اور نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔
سراج الحق نے کہا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا۔ خیبر پختون خوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا والوں نے خلاف روایت دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا لیکن ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔ میں نے وزیراعظم اور عمران خان سے ملاقات کی، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ عمران خان کو کہا نہیں چاہتا ملک میں 10 سال مارشل لاء لگے، عمران خان نے کہا میری عمر اس سے زیادہ نہیں اور میں بھی یہ نہیں چاہتا۔ کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے اور اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی ہوسکتے ہیں۔ میڈیا نے پوچھا کیا آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے تو میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم ہیچھے ہٹنا ہوگا، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں جبکہ ہمارا موقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے اور کبھی دوسری جماعت کو۔
سراج الحق نے کہا کہ سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ایک کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں جبکہ ایک من آٹے کی قیمت 6500 ہوگئی ہے، لوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہو چکی ہے۔ ہمیں نگراں حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے؟
سراج الحق نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پشتو میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ پشتو سمجھتا ہوں، ہم پر لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا۔ عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے۔
فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا، پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے اور الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت موقف سن لے گی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ رات 11 بجے عید اور رمضان کا اعلان ہو جاتا ہے۔
وکیل عمران خان
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ عید کی چھٹیوں میں زمان پارک میں آپریشن کا خطرہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کارروائی میں آپریشن کا معاملہ نہیں دیکھ سکتے اور آپ نے متعلقہ عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تاحال حکم جاری نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کا حکم آ جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے، تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی اور آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے جبکہ بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اِن کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے اور یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی اور دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے اور توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔ اج دو بجے تک بتائیں کیا پیشرفت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی اور کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلے کو نطرانداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے کیونکہ عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے اور وہ 30 دن بھی گزر گئے، آج ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کریں۔
اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک کی چیف جسٹس سے ملاقات
اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک کی چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات ہوئی۔ چیف جسٹس کے چیمبر میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں کھلی عدالت میں سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔
اسی ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے ججز سے مزید وقت مانگ لیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سیاسی قائدین کو باہمی مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پارٹی سے مشاورت کیلئے وقت مانگا ہے، مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کے سربراہ اور اہم سیاسی شخصیت ہیں، استدعا ہے کہ عدالت عید کے بعد تک کا وقت دے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ انتخابات کے معاملے پر تفصیلی مشاورت درکار ہے، پارٹی سربراہان ہی بیٹھ کر اپوزیشن سے بات چیت کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
دریں اثنا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب سے الیکشن کے حوالے سے کافی لمبی گفتگو ہوئی ہے، سپریم کورٹ نے 14 مئی کی تاریخ دے رکھی ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تمام پارٹیز یہ چاہتی ہیں کہ ایک ہی دن میں پورے ملک میں انتخابات ہوں۔
اٹارنی جنرل نے سماعت کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا کہ 'عدالت سے مزید وقت مانگا ہے، اب آپ بھی عید کی چھٹیوں پر جائیں اور ہم بھی، اب سماعت 27 اپریل کو ہوگی'۔
شاہ محمود قریشی
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت انتخابات سے فرار ہوئی، سپریم کورٹ میں آکر بھی بھاگ گئی، پی ڈی ایم میں بھی اختلاف سامنے آگئے، مولانا نے بلاول کی ملاقات میں بھی نہیں مانی، پوری قوم کے سامنے پی ڈی ایم کے اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستائیس اپریل کی تاریخ آئندہ سماعت کیلئے دی گئی ہے، پی ڈی ایم نے پہلے کہا عدالت و فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، ایک دن انتخابات پر کہتے رہے ہم نے بھی حامی بھری، کہ آئین کے مطابق مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطے کا بتایا گیا ہے، سماعت کا تحریری حکم نامہ
سپریم کورٹ نے اج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، جس کے مطابق فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے ان چیمبر ملاقات کی جس میں حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما کے درمیان رابطہ کا بتایاگیا۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں توقف کیا جا رہا ہے، اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں حکمنامہ
رہنماوں کی مزید ملاقات 26 اپریل کو ہوگی۔ جس کی وجہ سے کیس کی مزید سماعت 27:اپریل کو ہوگی۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو چار بجے تک کا وقفہ دیا تھا، سیاسی جماعتوں نے عدالت سے مزید وقف مانگا تھا تاہم اب کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی لیڈران آ رہے ہیں کسی کو تنگی نہ ہو مزید کرسیاں لگا دیں، مولا کریم لمبی حکمت دے تاکہ صحیح فیصلے کر سکیں۔ ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے اور عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے دیکھتے ہیں کہ حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔
وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار شاہ خاور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے اس لیے مناسب ہوگا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے اس لیے قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہوگی۔
جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذر ہوگیا، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا اور اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوگئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف دیا کہ خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ اور طارق بشیر چیمہ بھی آئے ہیں جبکہ ایک کیو ایم سے صابر قائم خانی، ایاز صادق اور بی این پی بھی موجود ہیں۔ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے اور عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔
فاروق ایچ ناٸیک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات پر کام شروع کر چکی ہیں اور بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، عید کے فوری بعد سیاسی ڈاٸیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کریں گے۔ پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو اور ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈاٸیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔
وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے اور ملک بھر میں نگراں حکومتوں کے ذریعے انتخابات ہونے چاہییں، سیاسی معاملات پارٹیوں کے درمیان طے ہونے چاہییں اور سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
خواجہ سعد رفیق
روسٹرم پر آکر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپنے قیادت سے مشورے کے بعد حاضر ہوئے ہیں، ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے، الیکشن ہورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہییں اور انتخابات پر مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے، عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں، میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔
ایاز صادق بی این پی
ایاز صادق بی این پی کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا، پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں، آصف زرداری کے مشکور ہیں انھوں نے ہماری تجویزسے اتفاق کیا اور ن لیگ نے بھی تجویز سے متعلق بات کی ہے۔
طارق بشیر چیمہ
طارق بشیر چیمہ نے موقف دیا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں لیکن آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔ عدالت کا فیصلہ کسی کو اچھا لگے گا کسی کو برا لیکن سیاسی قائدین کا مشترکہ فیصلہ قوم کو قبول ہوگا۔
بی این پی عوامی محمد اسرار اللہ ترین نے موقف دیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے، الیکشن ایک ہی دن میں ہوں ہماری بھی یہی خواہش ہے۔
قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی کی جانب سے قمر زمان کائرہ پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ خواجہ سعد رفیق کی گفتگو سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، تلخی بہت زیادہ ہے اور وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے، بطور سیاسی جماعت حکومتی اتحاد سے پہلے بات کا آغاز کیا اور جب ملک میں تلخیاں بڑھیں تو بیٹھ کر سیاسی قوتوں کو حل نکالنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں اور کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہو جائے، عدالت اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں ملک کے لیے بہتر فیصلے کریں گے۔
شاہ محمود قریشی
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے اور کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن عدالت نے بردباری، تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔ تلخی کے بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں اور سیاسی قوتوں نے ملکر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہییں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی، مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں۔ حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے البتہ اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے اور عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ہے، عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، انتشار چاہتے ہیں اور نہ ہی آئین کا انکار۔
سعد رفیق
سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آئے اور موقف دیا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے۔ عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں ماریں بھی کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔
قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے۔ آئین بنانے والے اسکے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ یقین دہانی کرواتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گے، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
شیخ رشید
شیخ رشید نے موقف دیا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے اور عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکھٹی ہو جائے، سیاستدان مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہییں۔ ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔
سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے موقف دیا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈر پر تھا اور پوری رات سفر کر کے عدالت پہنچا ہوں، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کاروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہو جائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور آج بھی آئین ہی ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا یے۔
سراج الحق نے کہا کہ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہوگیا، 1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا۔ اسی طرح 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا جبکہ آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے اس لیے اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے۔ نیلسن منڈیلا کیساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گیے اور نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔
سراج الحق نے کہا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا۔ خیبر پختون خوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا والوں نے خلاف روایت دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا لیکن ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔ میں نے وزیراعظم اور عمران خان سے ملاقات کی، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ عمران خان کو کہا نہیں چاہتا ملک میں 10 سال مارشل لاء لگے، عمران خان نے کہا میری عمر اس سے زیادہ نہیں اور میں بھی یہ نہیں چاہتا۔ کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے اور اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی ہوسکتے ہیں۔ میڈیا نے پوچھا کیا آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے تو میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم ہیچھے ہٹنا ہوگا، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں جبکہ ہمارا موقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے اور کبھی دوسری جماعت کو۔
سراج الحق نے کہا کہ سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ایک کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں جبکہ ایک من آٹے کی قیمت 6500 ہوگئی ہے، لوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہو چکی ہے۔ ہمیں نگراں حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے؟
سراج الحق نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پشتو میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ پشتو سمجھتا ہوں، ہم پر لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا۔ عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے۔
فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا، پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے اور الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت موقف سن لے گی۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ رات 11 بجے عید اور رمضان کا اعلان ہو جاتا ہے۔
وکیل عمران خان
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف دیا کہ عید کی چھٹیوں میں زمان پارک میں آپریشن کا خطرہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کارروائی میں آپریشن کا معاملہ نہیں دیکھ سکتے اور آپ نے متعلقہ عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تاحال حکم جاری نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کا حکم آ جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے، تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی اور آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے جبکہ بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اِن کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے اور یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی اور دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے اور توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔ اج دو بجے تک بتائیں کیا پیشرفت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی اور کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلے کو نطرانداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے کیونکہ عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے اور وہ 30 دن بھی گزر گئے، آج ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کریں۔
اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک کی چیف جسٹس سے ملاقات
اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک کی چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات ہوئی۔ چیف جسٹس کے چیمبر میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں کھلی عدالت میں سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔
اسی ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے ججز سے مزید وقت مانگ لیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سیاسی قائدین کو باہمی مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے پارٹی سے مشاورت کیلئے وقت مانگا ہے، مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کے سربراہ اور اہم سیاسی شخصیت ہیں، استدعا ہے کہ عدالت عید کے بعد تک کا وقت دے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ انتخابات کے معاملے پر تفصیلی مشاورت درکار ہے، پارٹی سربراہان ہی بیٹھ کر اپوزیشن سے بات چیت کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
دریں اثنا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب سے الیکشن کے حوالے سے کافی لمبی گفتگو ہوئی ہے، سپریم کورٹ نے 14 مئی کی تاریخ دے رکھی ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تمام پارٹیز یہ چاہتی ہیں کہ ایک ہی دن میں پورے ملک میں انتخابات ہوں۔
اٹارنی جنرل نے سماعت کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا کہ 'عدالت سے مزید وقت مانگا ہے، اب آپ بھی عید کی چھٹیوں پر جائیں اور ہم بھی، اب سماعت 27 اپریل کو ہوگی'۔
شاہ محمود قریشی
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت انتخابات سے فرار ہوئی، سپریم کورٹ میں آکر بھی بھاگ گئی، پی ڈی ایم میں بھی اختلاف سامنے آگئے، مولانا نے بلاول کی ملاقات میں بھی نہیں مانی، پوری قوم کے سامنے پی ڈی ایم کے اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستائیس اپریل کی تاریخ آئندہ سماعت کیلئے دی گئی ہے، پی ڈی ایم نے پہلے کہا عدالت و فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، ایک دن انتخابات پر کہتے رہے ہم نے بھی حامی بھری، کہ آئین کے مطابق مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطے کا بتایا گیا ہے، سماعت کا تحریری حکم نامہ
سپریم کورٹ نے اج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، جس کے مطابق فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے ان چیمبر ملاقات کی جس میں حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما کے درمیان رابطہ کا بتایاگیا۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں توقف کیا جا رہا ہے، اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں حکمنامہ
رہنماوں کی مزید ملاقات 26 اپریل کو ہوگی۔ جس کی وجہ سے کیس کی مزید سماعت 27:اپریل کو ہوگی۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو چار بجے تک کا وقفہ دیا تھا، سیاسی جماعتوں نے عدالت سے مزید وقف مانگا تھا تاہم اب کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی گئی ہے۔