علامہ اقبال اور پنڈت نہرو

نظریاتی اختلافات کے باوجود دونوں شخصیات کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ رہا


فتح محمد ملک April 21, 2014
اقبال نے نہرو کی موجودگی میں میاں افتخار سے کہا: آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں. فوٹو: فائل

یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ تصور پاکستان کی تردید اور تحریک پاکستان کی مخالفت میں جو سوالات 1940ء سے لے کر سن 1947ء تک اٹھائے گئے تھے اور تحریک پاکستان کے دوران جن کی بڑی مؤثر اور محکم تردید کر دی گئی تھی وہی سوالات آج پاکستان میں پھر سے اٹھائے جا رہے ہیں۔

یوم پاکستان کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں پنڈت نہرو کے اس الزام کی گونج ایک دفعہ پھر سنائی دی کہ اقبال اپنی زندگی کے دور آخر میں سوشلزم کے زیر اثر تصور پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے۔ روزنامہ ''ڈان'' کے ایک مراسلہ نگار' جناب نثار حسین نے مجھ سے یہ تقاضا کیا ہے کہ میں اس الجھن کو سلجھاؤں۔ تعمیل ارشاد کے طور پر یہ چند سطور پیش خدمت ہیں۔

پنڈت نہرو کا یہ الزام سراسر غلط ہے۔ ان کا یہ الزام لاعلمی پر نہیں بلکہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ پنڈت جی نے یہ بات اپنی کتاب The Discovery of India میں لکھی تھی۔ یہ کتاب انہوں نے 1944ء میں قلعہ احمد نگر کے زنداں میں بیٹھ کر رقم فرمائی تھی۔ اس کتاب میں انہوں بطور شاعر اور مفکر اقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگر اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ''ایک شاعر' عالم اور فلسفی تھے اور پرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے''۔ جن لوگوں نے اقبال کی شاعری' فلسفہ اور سیاست کا سرسری سے بھی کم مطالعہ کیا ہے' وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ اقبال کے عہد میں جاگیرداری نظام کا' اقبال سے بڑا دشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ:

''اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تجویز کی لغویت اور ان خطرات کو محسوس کر لیا تھا جو اس تجویز میں مضمر ہیں۔ ایڈورڈ تھامسن نے لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران میں اقبال نے ان سے یہ کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدر کی حیثیت سے پاکستان کی حمایت کی تھی مگر ان کو یقین تھا کہ یہ تجویز مجموعی طور پر ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے مضر ہے۔ شاید انہوں نے اپنا خیال بدل دیا تھا یا پہلے اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت نہیں حاصل کی تھی۔ ان کا عام نظریہ زندگی پاکستان یا تقسیم ہند کے اس تصور کے ساتھ جو بعد میں پیدا ہوا ہم آہنگ نہیں تھا۔ آخر عمر میں اقبال کا رجحان اشتراکیت کی طرف بڑھتا گیا۔ سوویت روس کی زبردست کامیابی نے ان کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری کا رخ بدل گیا۔''



جب پنڈت جی نے اپنی کتاب میں درج بالا عبارت لکھی اس سے تین برس پہلے قائداعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہو چکے تھے۔ یہ انگریزی کتاب یقیناً پنڈت جی کی نظر سے گزر چکی ہوگی۔ اس کتاب میں شامل 28۔ مئی 1937ء کا وہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں پنڈت جی کی ''بے خدا سوشلزم'' کو بھی زیربحث لایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمان تو رہے ایک طرف خود ہندو معاشرہ بھی اس بے خدا سوشلزم کو ہرگز قبول نہ کرے گا۔

پنڈت جی کی سوشلزم کو رد کرتے وقت اقبال نے قائداعظم کو بتایا ہے کہ اگر اسلامی شریعت کو دور حاضر کے معاشی نظریات کی روشنی میں از سر نو تفسیر کیا جائے تو مسلمان عوام کی روٹی روزگار کا مسئلہ بہتر طور پر حل ہو سکتا ہے۔ مسلمان عوام کو غربت کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون ساز اسمبلی ہو اور یہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خود مختار مملکت ہی میں قائم کی جا سکتی ہے۔ اس خط کے مندرجات زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ:

اول: اقبال جواہر لعل کی بے خدا سوشلزم پر اسلام کے اقتصادی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوم: اسلام کے اقتصادی نظام کو عہد جدید کے سیاق وسباق میں نافذ کرنے کے لئے جداگانہ مسلمان مملکت کا قیام ضروری ہے۔

سوم: اپنی وفات سے فقط چندماہ پہلے وہ قائداعظم کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ قیام پاکستان کو کل ہند مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا لیں۔

چہارم: اس خط کے آخر میں وہ قائداعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ وقت نہیں آ پہنچا جب ہمیں کھل کر قیام پاکستان کو اپنی منزل قرار دے دینا چاہئے؟

اقبال کی وفات سے تین ماہ پیشتر پنڈت نہرو نے میاں افتخار الدین کے ہمراہ جاوید منزل میں علامہ اقبال سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی خوشگوار یادیں بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ پنڈت جی نے جو واقعہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اسے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ''اقبال کے آخری دو سال'' میں بیان کردیا ہے۔ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:

''پنڈت نہرو اس زمانے میں زورشور سے سوشلزم کا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف تھے۔ انڈین نیشنل کانگرس کے دو اجلاسوں کے وہ صدر رہ چکے تھے اور دونوں مرتبہ اپنے خطبات صدارت میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تمام مصائب کا علاج سوشلزم ہے لیکن کانگریس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہرو کا معاون یا ہم خیال نہیں تھا بلکہ سردار پٹیل' راج گوپال اچاری اور ستیہ مورتی نے تو علی الاعلان پنڈت نہرو کے اس عقیدے سے اختلاف کا اظہار کیا تھا۔



دوران ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے پنڈت نہرو سے پوچھا کہ' سوشلزم کے بارے میں گانگریس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟' پنڈت جی نے جواب دیا کہ 'نصف درجن کے قریب'۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ 'تعجب ہے' خود آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے۔ ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہو جانے کا مشورہ دوں تو کیا میں دس کروڑ مسلمانوں کو چھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں۔ اس پرپنڈت جی خاموش ہو گئے۔''

اسی ملاقات میں ایک ناگوار واقعہ بھی پیش آیا تھا جو پنڈت جی نے تو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہاں' البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کر دیا ہے:

''ابھی ان دو عظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکایک میاں افتخار الدین بیچ میں بول اٹھے کہ' ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے اور اٹھ کربیٹھ گئے اور نگریزی میں کہنے لگے۔ 'اچھا۔ تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوںکہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔' اس کے بعد ڈاکٹر بالکل خاموش ہو گئے اور کمرے میں تکدر آمیز سکوت طاری ہو گیا۔ پنڈت نہرو نے فوراً محسوس کر لیا کہ میاں افتخار الدین کے دخل درمعقولات نے ڈاکٹر صاحب کو ناراض کر دیا ہے اور اب مزید گفتگو جاری رکھنا بے سود ہے۔ چنانچہ وہ اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔''

نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے محو ہو گئی تھیں یا انہوں نے ان باتوں کو ناخوشگوار اور اپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردید سمجھ کر اپنی کتاب میں درج کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابل فراموش یادوں کو تو آسانی کے ساتھ فراموش کر دیا مگر ایڈورڈ تھامسن کی گپ شپ کو ناقابل تردید تاریخی صداقت کا درجہ دیا۔

ایڈورڈ تھامسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استاد تھے اور تاریخ ہند سے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔ وہ دو مرتبہ انگلستان کے اخبار مانچسٹر گارڈئین کے نامہ نگار کے روپ میں بھی برٹش انڈیا تشریف لائے تھے۔ مہاتما گاندھی' رابندرناتھ ٹیگور' راج گوپال اچاری' سردار پٹیل اور جواہر لعل نہرو کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے وہاں کانگریس کی پرجوش وکالت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ جس روایت کا سہارا لے کر پنڈت جی نے اقبال پر الزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اور علامہ اقبال کی زبانی گفتگو پر مبنی ہے۔



تھامسن صاحب موصوف کا یہ بیان قائداعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالاخطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہرو ملاقات کے مندرجہ بالا احوال و مقامات کی بنیاد پر جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ اقبال آخردم تک اپنے تصور پاکستان کو قیام پاکستان کی صورت میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں سرشار رہے۔ قائداعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرم عمل رہے اور اسلامیان ہند کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمد علی جناح کی زندگی کی دعائیں مانگو۔ صرف جناح ہی قوم کی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں:

نگاہ بلند' سخن دلنواز' جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

نظریاتی اختلاف کے باوجود علامہ اقبال اور پنڈت نہرو کے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے۔ ہر دو شخصیات ایک دوسرے کی قدردان تھیں۔ پنڈت نہرو نے 1933ء میں لندن کی گول میز کانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرز فکر و عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگر نہرو شریک نہیں تھے۔ کانگریس کی نمائندگی مہاتما گاندھی نے کی تھی۔ مہاتما جی نے واپسی پر کہا کہ انہوں نے تو ذاتی طور پر مسلمانوں کے تمام مطالبات کو قبول کر لیا تھا مگر سیاسی رجعت پسندی کی وجہ سے مسلمانوں نے کانفرنس کو ناکام بنا دیا۔ نہرو نے گاندھی جی کی باتوں میں آ کر مسلمان مندوبین کے خلاف ایک سیاسی بیان داغ دیا۔ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردید میں جواہر لعل نہرو کے بیان کا جواب دیا۔ اقبال نے اپنا بیان ان الفاظ کے ساتھ شروع کیا تھا:

''میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے خلوص اور صاف گوئی کی ہمیشہ سے قدر کرتا رہا ہوں۔ مہا سبھائی معترضین کے جواب میں جوتازہ ترین بیان انھوں نے دیا ہے اس سے خلوص ٹپکتا ہے اور یہ چیز آج کل کے ہندوستانی سیاستدانوں میں کمیاب ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں جو گول میز کانفرنسیں لندن میں منعقد ہوئی ہیں ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق انہیں پورے حالات معلوم نہیں۔''

اس خوش گمانی کے اظہار کے فوراً بعد اقبال نے اصل حالات کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ مہاتما جی نے مسلمانوں کے مطالبات کو ذاتی طور پر ماننے کا عندیہ تو دیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ وہ اس بات کی کوئی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگریس کی مجلس انتظامیہ بھی ان مطالبات کو تسلیم کر لے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ کانگریس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیار دینے کے لئے کبھی تیار نہ ہو گی۔ گویا عملاً گاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کو رد کر دیا تھا۔ مسٹر گاندھی کی دوسری غیر منصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمایت ترک کر دیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمایت سے دستبرداری سے انکار کر کے گاندھی جی کو ناراض کر دیا تھا۔ گاندھی جی کے اس رویہ کی حمایت میں پنڈت جی کی لب کشائی پر اقبال حیرت زدہ رہ گئے۔ چنانچہ اپنے اس بیان میں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ:

''اپنے زبان زد عام سوشلسٹ خیالات کے پیش نظر پنڈت جواہر لعل نہرو اس انسانیت کش شرط کی کیسے حمایت کریں گے؟... کم از کم انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں رجعت پسندی کا الزام دیں۔ اس صورت میں وہ لوگ جو ہندوؤں کے فرقہ پرستانہ مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس نتیجہ پر پہنچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندو مہاسبھا کی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں۔''



مسلمانوں کے خلاف پنڈت جواہر لعل نہرو کا دوسرا الزام یہ تھا کہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔ اس کے جواب میںاقبال نے کہا کہ:

''اگر قومیت سے ان کی مراد یہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کو حیاتی معنوں میں ملا جلا کر ایک کر دیا جائے تو پھر خود میں ہی اس نظریۂ قومیت سے انکار کا مجرم ہو... میں پنڈت جواہر لعل نہرو سے ایک سیدھا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑ کی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کو جنہیں وہ اپنی بقاء کے لئے ضروری سمجھتی ہے نہ مان لے اور نہ ہی ثالث کا فیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحد قومیت کی ایسی رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کا اپنا ہی فائدہ ہے ہندوستان کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ اس سے صرف دو صورتیں نکلتی ہیں۔ یا تو اکثریت والی ہندوستانی قوم کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی۔ یا پھر ملک کو مذہبی' تاریخی اور تمدنی حالات کے پیش نظر اس طرح تقسیم کرنا ہو گا کہ موجودہ شکل میں انتخابات اور فرقہ وارانہ مسئلہ کا سوال ہی نہ رہے۔''

پنڈت نہرو کے بیان کے جواب میں دیا گیا اقبال کا یہ بیان یقینی طور پر پنڈت جی کی نظر سے گزرا ہو گا۔ اس بیان میں از اول تا آخر اقبال کا ترقی پسند' وسیع النظر اور انسان دوست مسلک نمایاں ہے۔ سارا کا سارا استدلال برٹش انڈیا کی خود مختار ممالک میں تقسیم کی حمایت میں ہے۔ یہ بیان تصور پاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ ایسے میں پنڈت جی کا یہ کہنا کہ سن30 کے بعد اقبال اپنے تصور پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے' دیانتداری پر مبنی نظر نہیں آتا۔

جب پنڈت نہرو نے''ماڈرن ریویو'' (کلکتہ) میں دنیا ئے اسلام کی صورت حال پر تین مضامین میں وطنیت اور لادینیت کے فروغ کا خیر مقدم کیا تو اس کے جواب میں اقبال نے بھی ماڈرن ریویو ہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کو راست فکری میں بدلنے کا سامان کیا۔ اپنے طویل مضمون کے آغاز میں اقبال نے برملا اعلان کیا کہ:

''میں اس بات کو پنڈت جی اور قارئین سے پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتا کہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ جس انداز میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنا میرے لئے دشوار ہے۔ وہ اپنے دل میں مسلمانان ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام کو پسند نہیں کرتے۔ ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساس حقائق کو کچل ڈالا ہے اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساس خود مختاری پیدا ہوا''۔

اقبال کا یہ تجزیہ کہ پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساس حقائق کو کچل ڈالا ہے وقت نے بہت جلد سچ ثابت کر دکھایا۔ جب پنڈت جی کے دل میں برصغیر کی زندگی کے ٹھوس حقائق کا احساس جاگ اُٹھا تووہ مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی ٹھوس حقائق یعنی قیام پاکستان کی حقیقت کو قبول کرنے کا مشورہ دینے لگے۔ مولانا آزاد نے اپنی تصنیف "India Wins Freedom" میں اس بات کا ذکر یوں فرمایا ہے:

"After a few days jawaharlal came to see me again-He began with a Long Preamble in which he emphasized that we should not indulge into wishful thinking, but face reality. Ultimately he came to the point and asked me to give up opposition to partition."

اسلامیان ہند نے 1946ء کے عام انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی کے سے سیاسی خواب پرستوں کو زندگی کے جن حقائق کا احساس دلایا تھا' اقبال نے برسوں پہلے پنڈت جی کو ان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی تدبر کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرار کرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے پنجہ آزما ہوا جائے۔ اپنے زیر نظر مضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ قومیت کے سوال پر دوٹوک انداز میں اظہار خیال کیا تھا۔ اقبال نے اسلامیان ہند کے سیاسی مسلک پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی تھی:

''اگر قومیت کے معنی حب الوطنی اور ناموس وطن کے لئے جان تک قربان کرنے کے ہیں تو ایسی قومیت مسلمانوں کے ایمان کا ایک جزو ہے۔ اس قومیت کا اسلام سے اس وقت تصادم ہوتا ہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصور بن جاتی ہے اور اتحاد انسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے...

جداگانہ مسلمان قومیت کا سوال صرف ان ممالک میں پیدا ہوتا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور جہاں قومیت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دیں جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے کیونکہ یہاں اسلام اور قومیت عملاً ایک ہی چیز ہے... میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامیان ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کا شکار نہیں بنیں گے جو ان کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ کر دے گی۔ اگر ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے تو ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اور حب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کر لیں گے۔''

اقبال کا یقین کامل بالکل درست نکلا۔ اسلامیان ہند نے' بالآخر' متحدہ ہندوستانی قومیت کی سیاسی تصوریت کو پادر ہوا ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کر لیا۔ ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو گئی اور یوں پاکستان میں اسلام سے عشق اور وطن سے محبت میں کوئی تضاد باقی نہ رہا۔ اب ہمارا دین اسلام ہے اور ہمارا وطن دارالاسلام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں