روس اور نیٹو کے درمیان بڑھتی ہوئی چپقلش


Editorial April 21, 2023

روس ہماری سلامتی کے لیے سب سے براہ راست خطرہ ہے لیکن عالمی سلامتی کا ماحول عام طور پر پریشان کن ہے۔

ان خیالات کا اظہار نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینزاسٹولٹن برگ نے واشنگٹن میں تین روزہ نیٹوکانفرنس سے بذریعہ وڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کیا، انھوں نے مزید کہا کہ نیٹو ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے اپنی تیاریوں میں وسعت لانے اور متعلقہ سربراہان کے ساتھ رابطے کو برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔

روس، یوکرین جنگ براعظم یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کا سب سے ہلاکت خیز تنازعہ ثابت ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ یہی جنگ ماسکو اور مغربی دنیا کے مابین 1962ء میں کیوبا کی سرزمین پر میزائل نصب کرنے کے منصوبے کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے بعد سے آج تک کی سب سے بڑی مخاصمت بھی بن چکی ہے۔

جہاں تک روس اور نیٹو کی عسکری طاقت کے موازنے کا تعلق ہے تو روایتی جنگی طاقت اور عسکری ساز و سامان کے شعبے میں نیٹو کو روس پر برتری حاصل ہے، لیکن اگر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو روس کو نیٹو پر برتری حاصل ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے یوکرین کی جنگ کے باعث روس کی یہ کہہ کر مذمت کی جاتی ہے کہ یوکرین میں فوجی مداخلت روس کی طرف سے یوکرینی علاقے پر سامراجی قبضے کے لیے شروع کی گئی۔

جہاں تک خود یوکرین کا تعلق ہے تو حکومت کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ یوکرین روس کے خلاف اس وقت تک لڑتا رہے گا، جب تک کہ آخری روسی فوجی کو بھی یوکرینی علاقے سے نکال نہیں دیا جاتا۔

مغربی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نہ صرف روس پر بہت سی پابندیاں لگا چکی ہے بلکہ روسی فوج کے خلاف یوکرین کی کھل کر عسکری مدد بھی کر رہی ہے۔

اس کے برعکس روس کا اندازہ تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگی مہم بہت جلد جیت لے گا تاہم ایسا نہ ہوا اور ماسکو کو اس جنگ میں ابھی تک بڑے جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے۔ روس آج بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ اس کے لیے یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہوگا۔ روس اور امریکا دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ دونوں ملک دنیا کے 90 فیصد کے قریب جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں۔

آئینی طور پر روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی ممکنہ استعمال کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صدر پوتن کے پاس ہے۔ ولادیمیر پوتن کے بقول یوکرین کے خلاف روسی فوجی مہم ماسکو کا ایک 'خصوصی فوجی آپریشن' ہے اور اس تنازعے میں روس مبینہ طور پر مغرور اور جارحیت پسند مغرب کے خلاف اپنی بقا کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔

یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کارروائی کے حوالے سے بہت سے ماہرین نے اتفاق کیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے ایک چھوٹی سی فتح کے لیے بڑی جارحیت سے حملہ کیا۔ پوتن کے رویے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد صرف یوکرین میں اپنی پسند کی اور حامی حکمرانی چاہتے ہیں۔ روس یوکرین میں ماسکو دوست انتظامی نظام چاہتا ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ یہاں کس قسم کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، وہ اس جنگ میں اپنی فوجی طاقت کا 10 گنا استعمال کرچکا ہے۔

خارجہ امور کے ماہرین نے اس صورتحال کا براہ راست ذمے دار امریکا اور مغربی ممالک کو ٹھہرایا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے نیٹو اور مغربی ممالک نے بڑی بڑی باتیں کیں اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے صرف خالی بیانات دینا شروع کردیے۔

خود یوکرین کے صدر نے کہا ہے کہ نیٹو نے انھیں خاطر خواہ فوجی امداد فراہم نہیں کی، جب کہ روس کا کہنا ہے کہ مغرب نے ان کے ملک کے خلاف '' ہائبرڈ جنگ '' شروع کر رکھی ہے۔

ہمارے دشمن، روسی معیشت کا خاتمہ کرنے، داخلی سیاسی استحکام پر ضرب لگانے اور ہمیں جھڑپوں کے میدان میں شکست دینے اور آخر میں صد سالہ ہماری مملکت کو نمایاں طور کمزور بنانے، حتیٰ اس کا خاتمہ کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ تاہم نیٹو اور مغربی ممالک نے اس بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد صرف یوکرین کو بلا اشتعال حملے سے خود کو تحفظ دینے میں مدد کرنا ہے۔

ولادیمیر پیوتن نے کہہ چکے ہیں کہ مغرب، روس کو تقسیم کرکے دنیا کے سب سے بڑے خام مال کے پیداوار والے ملک پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے جو کہ ایسا قدم ہے جس سے روسی لوگوں کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے ، جب کہ امریکا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ روس کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

جب کہ صدر جو بائیڈن نے خبردارکیا تھا کہ روس اور نیٹو کے درمیان تنازعہ سے تیسری جنگ عظیم شروع ہوسکتی ہے، حالانکہ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ روسی صدر پیوتن کو اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے۔

ادھر یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھے گا جب تک ملک بشمول 2014 میں روسی قبضے کا شکار کریمیا سے آخری روسی فوجی واپس نہیں چلا جاتا۔ روس کی سرکاری جوہری ڈاکٹرائن اسے اب بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر جوہری ہتھیار یا دوسرے قسم کے بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار اس کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں پھر اس کے خلاف روایتی ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں جس سے ریاست کے وجود کو خطرہ درپیش ہو تو وہ بھی جوہری ہتھیاروں یا دیگر ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔

اب اس میں کوئی شک نہیں کہ روس، یوکرین جنگ انتہائی تباہ کن ہے۔ یہاں صرف دو فریق جنگ نہیں کر رہے بلکہ اس میں بہت سی عالمی طاقتیں روس یا یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی مدد فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت یورپ، برطانیہ، امریکا سمیت سعودی عرب بھی یوکرین کو فوجی، دفاعی اور معاشی امداد دے چکے ہیں۔

یوکرینی محاذ پر مغرب اور امریکا کی جانب سے دی گئی توپیں، بندوقیں، ہیلی کاپٹر اور میزائل سسٹم جنگ میں استمعال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ یوکرینی فوجیوں کو فوجی تربیت بھی دے رہا ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ کے بعد سے روس کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔ روسی برآمدات اب بہت کم ہوگئی ہیں۔ ایسے میں اب چین روسی مصنوعات کو خرید رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین اب روس سے 100 فیصد سے بھی زیادہ گیس خرید رہا ہے، لیکن بارہا امریکا چین کو تنبیہ کر رہا ہے کہ روس کی مدد نہ کریں۔

امریکا نے سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں چین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین اور روس باز رہیں ورنہ ہم ایسے مواد پبلک کر سکتے ہیں جہاں چین کی جانب سے روس کو امداد دینے کے شواہد اور ثبوت موجود ہیں، لیکن یہ بھی کوئی پوائنٹ نہیں کہ چینی صدر کا دورہ روس دراصل روس کو امداد دینے کے لیے تھا، یہ چین کے لیے نقصان دہ ہوگا کہ امریکا ایسے ثبوت میڈیا تک لائے جہاں ایسے شواہد موجود ہوں کہ چین روس کی مدد کر رہا ہے۔

کیونکہ حال ہی میں چین نے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا تھا، اگر کوئی اور ملک یہ یقین کرنے لگ جائے کہ چین اندر ہی اندر کچھ اور کر رہا ہے تو چین اپنا عالمی اعتبار کھو سکتا ہے۔ ایسے میں اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب امریکا کا اتحادی ہے اور یوکرین کو امداد بھی دے چکا ہے۔ چین یورپ اور امریکا کے ساتھ بڑی تجارت کر رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں چین روس کے ساتھ 107.8 ملین ڈالر کی تجارت کر چکا ہے لیکن چین کی یورپ اور امریکا کے ساتھ تجارت 1269 ملین ڈالر کی رہی ہے۔

ایسے میں اگر چین روس کی مدد کرتا ہے تو اپنے بڑے تجارتی اتحادیوں کو کھو سکتا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ روس یوکرین جنگ کس سمت جائے گی، تاہم اتنا واضح ہے کہ ایک طرف یورپ ، برطانیہ اور امریکا جیسی بڑی طاقتیں روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ابھی تک یہ جنگ پروکسی جنگ کے طور پہ لڑی جاری ہے جہاں امریکا و یورپ کی جانب سے دیا جانے والا دفاعی سامان یوکرین کی سرزمین پر روس کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال ہورہا ہے اور ممکن ہے چینی ساختہ دفاعی سامان روسی فوجیوں کے ہاتھوں میں آ جائے۔ یہ جنگ اب عالمی بنتی جارہی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ یہی عالمی طاقتیں شام ، عراق اور افغانستان جیسے مسلم ممالک کی سرزمین پر پروکسی جنگیں لڑ رہی تھیں اور اب پروکسی جنگ انھی کی سرزمین کو کھنڈرات میں بدل رہی ہے۔

اس ساری صورتحال کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کی ایک روایتی جنگ میں شکست جوہری ہتھیاروں سے جنگ شروع ہو جانے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

دنیا کو اس وقت امن کی ضرورت ہے، جنگ مخالف ممالک یوکرین کی جنگ کے فوری خاتمے اور مغربی حکومتوں کی جانب سے کیف کی اسلحہ جاتی امداد کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ امن کی جانب پیش رفت کی جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں