عمران خان… بہت خوش قسمت


عبد الحمید April 21, 2023
[email protected]

یہ بات مجھے حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ کیا موجودہ دور کی پاکستانی سیاست میں کوئی فرد جناب عمران خان صاحب سے زیادہ خوش قسمت رہا ہے۔وہ جب بھی مناسب فیصلہ نہیں کرتے یا مشکلات میں گھرتے ہیں،کہیں نہ کہیں سے انھیں ایسی مدد فراہم ہو جاتی ہے کہ ان کی تمام مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔

سب سے پہلے تو ان کا سراپا ایسا ہے جس پر بے شمار لوگ فریفتہ ہیں۔یہ خداداد ہے اور یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔شاید اسی کو کرزما کہا جاتا ہے۔

اس سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں بھی جادوئی اثر تھا اور اس کا انھوں نے بہت فائدہ اُٹھایا۔سابق صدر ایوب خان سیاسی آدمی نہیں تھے،وہ اپنے فوجی عہدے کی وجہ سے اقتدار پر قابض ہوئے لیکن ان کی شخصیت بھی خاصی متاثر کن تھی اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی تھی ۔

وہ خاصے بارعب شخص تھے البتہ ہمارے سیاسی منظر نامے پر جتنی مقناطیست جناب عمران خان کو حاصل ہے،وہ حیران کن ہے۔ایسا پہلے نہیں دیکھا گیا۔ان کو سیاسی طور پر فالو کرنے والے ان کی شخصیت کے سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں،ان کے خیال کے مطابق جناب عمران خان صاحب سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔

جناب عمران خان صاحب کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف اس بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی کہ ووٹرز کا ایک غالب حصہ انھیں دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔جناب عمران خان صاحب نے بڑی کامیابی سے ن لیگ اور پی پی پی قیادت کو ڈس کریڈٹ کر دیا ہے۔

جناب نواز شریف تین دفعہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔اس سے پہلے وہ پانچ سال وزیرِ اعلیٰ رہے۔انھوں نے انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ کے شعبے میں کافی پیش رفت کی۔ان کے کیے ہوئے کام نظر بھی آتے ہیں۔شاہراہیں،ہوائی اڈے،اسپتالوں کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں کافی پیش رفت ہوئی لیکن ہر بار ان کی حکومت کو چلتا کیا گیا جس سے ان کے پروجیکٹس ادھورے رہتے رہے۔

اس مثبت بات کے باوجود شریف خاندان 1980 کی دہائی سے سیاسی منظر نامے پر موجود ہے۔اتنا لمبا عرصہ کسی کو دل میں بٹھا کر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔شریف خاندان نے ن لیگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام رکھی ہے۔

کسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔جناب نواز شریف کا خاصا بڑا ووٹ بینک ہے اور اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو گا لیکن شہباز شریف کا تو اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں۔ شریف خاندان آپس میں بہت جڑا ہوا ہے جس کا فائدہ شہباز شریف صاحب اُٹھا رہے ہیں لیکن ہر اہم عہدہ خاندان کے اندر ہی رکھنا بہت غیر مناسب ہے۔

خود وزیرِ اعظم بن جانا اور بیٹے کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنوا دینا کسی طرح بھی قرینِ مصلحت نہیں تھا۔اس فیصلے سے جناب عمران خان کو بہت فائدہ ہوا اور ن لیگ کو ڈھیروں نقصان۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو چھوڑ کر مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانا بھی کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں ہے۔

جناب عمران خان کا اصل مقابلہ ن لیگ سے ہے اور ن لیگ سارے عہدے گھر میں رکھ کر جناب عمران خان کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔کیا یہ خوش قسمتی نہیں۔جناب عمران خان کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت میں کوئی بھی ایسا نہیں جو عمران جتنا کرزما رکھتا ہو لیکن اصل وقعت تو وزیرِ اعظم کی ہوتی ہے۔

جناب شہباز شریف صاحب اور جناب عمران خان کی شخصیت کا موازنہ کیا جائے تو کوئی مقابلہ نظر ہی نہیں آتا۔ جناب عمران خان ایک کلٹ Cultبن چکے ہیں۔

اُن کے مقابلے میں جناب شہباز شریف صاحب کے سراپا میں کوئی جادوئی پن نہیں۔ عمران خان اور ان کے حامیوں کے خیال میں پوری پی ڈی ایم کی ساری قیادت ڈس کریڈٹ ہو چکی ہے اس لیے وقت اور حالات نے خود بخود جناب عمران خان کو باقی ساری سیاسی قیادت کے مقابلے میں ایک بڑاایڈوانٹیج عطاکر دیا ہے۔

ایک وقت تھا جب جناب نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے۔ جناب نواز شریف 80کی دہائی سے اہم ترین حکومتی عہدوں پر متمکن رہے ہیں۔

انھیں دو تہائی اکثریت بھی مل گئی تھی اس لیے ان کے اندر بے پناہ اعتماد پیدا ہو گیا تھا ، پاکستانی وزیرِ اعظم کو یہ اعتماد بہت مہنگا پڑتا ہے اور وہی ہوا وہ ناپسندیدہ ٹھہرے۔اداروں نے ڈھونڈنا شروع کر دیا کہ کوئی ہو جس کو عوام پسند بھی کرتے ہوں اور وہ اداروں کے کہے سے پہلو تہی نہ کرے ۔سوالات کرنے کی جرات تو بالکل بھی نہ کرے۔

کرہ فال جناب عمران خان کے نام نکلا۔اداروں نے ان کو کامیاب بنانے کے لیے، پروموٹ کرنے کے لیے دن رات ایک کر دی۔یوں جناب نواز شریف چاہت کے مقام سے گر کر ناپسندیدہ ہو گئے اورجناب عمران خان اب آنکھوں کا تارہ بن گئے۔وہ پہلے ہی ایک کرزمیٹک شخصیت تھے،اداروں نے ان کو سپورٹ کر کے اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔

جناب عمران خان بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی میڈیا ٹیم کا کسی بھی دوسری پاکستانی سیاسی جماعت کے پاس متبادل نہیں۔ان کی میڈیا ٹیم بہت موئثر،محنتی اور خود کارSelf propelledہے۔یہ ان کی میڈیا ٹیم کا ہی کمال ہے کہ پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد جناب عمران خان کے پاس دکھانے کے لائق کچھ بھی نہیں لیکن ان کی میڈیا ٹیم نے جناب عمران خان کو پہلے سے زیادہ مقبول ثابت کردیا ۔

جناب عمران خان کی میڈیا ٹیم میںزیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہین۔نوجوان میڈیا ٹیم نے پاکستانی نوجوانوں کو موبلائز کیا۔جناب عمران خان کی میڈیا ٹیم نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو روشن مستقبل کا خواب دکھا دیا ہے۔ کامیاب میڈیا پالیسی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

جناب عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ان کے دکھائے گئے خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لیے ان کے ساتھ ہیں۔ الیکشن کے موقع پر دور دراز سے سفر کر کے اپنا ووٹ دینے پاکستان پہنچ جاتے ہیں۔

اب جب کہ سیکیورٹی ادارے پیچھے ہٹ گئے ہیں جناب عمران خان پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی آنکھوں کا تارہ بن گئے ہیں۔وہ ہزار غلطیاں کریں ،ان کے چاہنے والے ان کی فاش غلطیوں کے اندر بھی کوئی خوبی اور حسن ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں