وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور قبائلی سرداروں کی اوطاقوں اور چوپالوں میں، آپس میں مرغے، دنبے، مینڈھے لڑائے جاتے تھے اور جب تک ایک مرغا لہو لہان نہ ہو جائے، دنبے اور مینڈھے ایک دوسرے کو لہو لہان نہ کردیں اور ایک حریف مارا نہ جائے اس وقت تک لڑائی جاری رہتی تھی۔
یہی حال آج پورے ملک کا ہے، تیرہ جماعتیں اور عمران خان آمنے سامنے ہیں، اتحادی حکومت کو عمران خان ناکوں چنے چبوا رہے ہیں، دونوں فریق دشمنوں کی طرح آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کا وجود ختم کرنے کے درپے ہیں، (ن) لیگ نے تو حد ہی کردی ہے، مریم اورنگزیب ، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، عطا تارڑ اور چند اور سیاستدانوں کا مار دھاڑ سے بھرپور شاہکار ''رودھالی''بنے ہوئے ہیں۔
''رودھالی'' راجستھان میں ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی امیر آدمی یا ٹھاکر کے گھر میت پر بین کرنے آتی ہیں۔ جتنا زیادہ مال ملتا ہے، اتنا ہی واویلا یہ رودھالیاں کرتی ہیں، دو ہتڑ مارتی ہیں، بین کرتی ہیں، روتی ہیں اور اپنا معاوضہ لے کر چلی جاتی ہیں، جتنا زیادہ امیر شخص ہوگا اتنا زیادہ یہ رودھالیاں روتی ہیں، کئی کئی دن تک یہ رونا دھونا چلتا ہے، یہی حال (ن) لیگ کے سیاستدانوں کا ہے۔
ادھر عمران خان اپنا محاذ کھولے بیٹھے ہیں، جلد بازی میں آ کر کچھ عاقبت نااندیشوں کے مشورے پر اسمبلیاں تحلیل کردیں اور سمجھ لیا کہ گویا الٰہ دین کا چراغ ہاتھ میں آگیا ہو۔
انھیں اندازہ نہیں تھا کہ مدمقابل کے پاس بھی الیکشن رکوانے کی طاقت موجود ہے ۔ بہرحال حکومتی اتحاد میں ایک خوف اور دہشت ضرور ہے کہ ''اگر عمران خان آگیا تو کیا ہوگا؟'' پیپلز پارٹی بھی پریشان ہے ۔ بلاول نے بغیر سوچے سمجھے یہ بیان دے دیا کہ ''سلیکٹڈ کو الیکٹ کروانا چاہتے ہیں'' گویا انھوں نے تسلیم کرلیا کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔
جو حالات ملک میں چل رہے ہیں وہ اتنے تباہ کن ہیں کہ کہیں جائے پناہ نہیں۔ آمنے سامنے مورچے لگے ہوئے ہیں، کوئی بھی مفاہمت کو تیار نہیں، کسی کو بھی ملک کی سلامتی سے مطلب نہیں، ملک جائے بھاڑ میں۔ آئی ایم ایف اسی صورت حال کی وجہ سے قرضہ نہیں دے رہا، برادر ملک بھی اس صورت حال میں غیریقینی کا شکار ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جس ملک میں سیاسی استحکام نہ آئینی تنازعات حل ہورہے ہیں۔
ایسے ملک کی حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے تو آج ضیا الحق کے دو جملے یاد آ رہے ہیں کہ ''میں الیکشن اس وقت کراؤں گا جب مجھے '' مثبت نتائج '' کا یقین ہو۔ یہی معاملہ اتحادی حکومت کا ہے کہ وہ الیکشن تب کرائے گی جب '' مثبت نتائج ''کا یقین ہو، اسی عمران خان بھی جلد الیکشن چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ''مثبت نتائج ''کی توقع ہے اور دوسرا جملہ وہ جب ضیا الحق نے کہا تھا کہ '' قبر ایک ہے اور آدمی دو۔'' کیا وہی صورت حال آج نہیں ہے؟
دوسری طرف عمران خان بھی مورچہ سنبھالے بیٹھے ہیں۔ نفرت سے لبریز سیاسی ورکروں کا انداز بیاں ایسا کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں، اس صورت حال سے ملک کے سیاسی منظر نامے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آ رہے ہیں۔ اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ:
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے، کبھی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ عمران خان سے کہیں کہ آپ ہی ملک کی سلامتی کی خاطر خاموش ہوجائیں اور مقتدر اداروں کے فیصلوں کا انتظار کیجیے، اگر آپ نے صبر، ضبط اور حب الوطنی کا مظاہرہ کیا تو انشا اللہ آپ ہی جیتیں گے، لیکن اب شاید کسی فریق کا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں، مرنے مارنے کا انداز ہے۔
عمرے پر جانے والے ایک صاحب نے بتایا کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستانی حرم میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ '' ملک کا کیا ہوگا ؟ '' زائرین نے ایک دوسرے سے کہا کہ ''خصوصی طور پر وطن کی سلامتی کے لیے دعا کریں کہ مصیبت ٹل جائے۔ '' عوام اس لیے دعائیں کر رہے ہیں کہ انھیں اسی ملک میں رہنا ہے۔
اشرافیہ تو اپنے ہوائی جہازوں میں بریف کیس اٹھا کر نکل جائیں گے، اربوں روپے کی مالیت کے زیورات اور کرنسی ان کے بیرون ممالک کے بینکوں میں ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ سب ہمارا پیچھا چھوڑ دیں، پھر جو نئی قیادت ہوگی یا عمران خان تو وہ بہتر طریقے سے ملک کو چلا سکیں گے، جیساکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
نفرت سے نفرت کو اور دشمنی سے دشمنی کو ختم نہیں کیا جاسکتا، محبت وہ ہتھیار ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے، لیکن یہ سمجھے کون؟ یہاں تو دونوں طرف تیر انداز اپنی کمانیں تانے تیار کھڑے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بہتر رویوں سے بھی جنگیں جیتی جاتی رہی ہیں۔ ملک اب اس مقام پر کھڑا ہے جب لوگ اس شعر کی تعبیر بن گئے ہیں:
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
فوج جب بھی آئی ہے سیاست دانوں کی کج فہمی اور ملکی انتشار کی وجہ سے آئی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ فوج نے ہمیشہ ملک کی بگڑتی صورت حال کو آ کر سنبھالا ہے۔ عام آدمی کو جمہوریت کا مطلب بھی نہیں پتا لیکن جو جانتے ہیں وہ بتائیں کہ جب نام نہاد جمہوری حکومت آئین کی تذلیل کر رہی ہے۔
ججوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے تو اس سے اچھی تو وہ فوجی حکومت ہے جو امن وامان قائم رکھتی ہے، عام آدمی کو تو چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں، پاکستان میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں بلکہ آمریت کے پردے میں لپٹی طاقت آتی ہے۔ آج بھی جب ہم آمریت میں جی رہے ہیں تو فوج کے آ جانے سے کیا قیامت آجائے گی، کیونکہ آج جو ہو رہا ہے وہ کھلی ملک دشمنی ہے اور اسے ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہی حال آج پورے ملک کا ہے، تیرہ جماعتیں اور عمران خان آمنے سامنے ہیں، اتحادی حکومت کو عمران خان ناکوں چنے چبوا رہے ہیں، دونوں فریق دشمنوں کی طرح آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کا وجود ختم کرنے کے درپے ہیں، (ن) لیگ نے تو حد ہی کردی ہے، مریم اورنگزیب ، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، عطا تارڑ اور چند اور سیاستدانوں کا مار دھاڑ سے بھرپور شاہکار ''رودھالی''بنے ہوئے ہیں۔
''رودھالی'' راجستھان میں ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی امیر آدمی یا ٹھاکر کے گھر میت پر بین کرنے آتی ہیں۔ جتنا زیادہ مال ملتا ہے، اتنا ہی واویلا یہ رودھالیاں کرتی ہیں، دو ہتڑ مارتی ہیں، بین کرتی ہیں، روتی ہیں اور اپنا معاوضہ لے کر چلی جاتی ہیں، جتنا زیادہ امیر شخص ہوگا اتنا زیادہ یہ رودھالیاں روتی ہیں، کئی کئی دن تک یہ رونا دھونا چلتا ہے، یہی حال (ن) لیگ کے سیاستدانوں کا ہے۔
ادھر عمران خان اپنا محاذ کھولے بیٹھے ہیں، جلد بازی میں آ کر کچھ عاقبت نااندیشوں کے مشورے پر اسمبلیاں تحلیل کردیں اور سمجھ لیا کہ گویا الٰہ دین کا چراغ ہاتھ میں آگیا ہو۔
انھیں اندازہ نہیں تھا کہ مدمقابل کے پاس بھی الیکشن رکوانے کی طاقت موجود ہے ۔ بہرحال حکومتی اتحاد میں ایک خوف اور دہشت ضرور ہے کہ ''اگر عمران خان آگیا تو کیا ہوگا؟'' پیپلز پارٹی بھی پریشان ہے ۔ بلاول نے بغیر سوچے سمجھے یہ بیان دے دیا کہ ''سلیکٹڈ کو الیکٹ کروانا چاہتے ہیں'' گویا انھوں نے تسلیم کرلیا کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔
جو حالات ملک میں چل رہے ہیں وہ اتنے تباہ کن ہیں کہ کہیں جائے پناہ نہیں۔ آمنے سامنے مورچے لگے ہوئے ہیں، کوئی بھی مفاہمت کو تیار نہیں، کسی کو بھی ملک کی سلامتی سے مطلب نہیں، ملک جائے بھاڑ میں۔ آئی ایم ایف اسی صورت حال کی وجہ سے قرضہ نہیں دے رہا، برادر ملک بھی اس صورت حال میں غیریقینی کا شکار ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جس ملک میں سیاسی استحکام نہ آئینی تنازعات حل ہورہے ہیں۔
ایسے ملک کی حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے تو آج ضیا الحق کے دو جملے یاد آ رہے ہیں کہ ''میں الیکشن اس وقت کراؤں گا جب مجھے '' مثبت نتائج '' کا یقین ہو۔ یہی معاملہ اتحادی حکومت کا ہے کہ وہ الیکشن تب کرائے گی جب '' مثبت نتائج ''کا یقین ہو، اسی عمران خان بھی جلد الیکشن چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ''مثبت نتائج ''کی توقع ہے اور دوسرا جملہ وہ جب ضیا الحق نے کہا تھا کہ '' قبر ایک ہے اور آدمی دو۔'' کیا وہی صورت حال آج نہیں ہے؟
دوسری طرف عمران خان بھی مورچہ سنبھالے بیٹھے ہیں۔ نفرت سے لبریز سیاسی ورکروں کا انداز بیاں ایسا کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں، اس صورت حال سے ملک کے سیاسی منظر نامے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آ رہے ہیں۔ اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ:
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے، کبھی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ عمران خان سے کہیں کہ آپ ہی ملک کی سلامتی کی خاطر خاموش ہوجائیں اور مقتدر اداروں کے فیصلوں کا انتظار کیجیے، اگر آپ نے صبر، ضبط اور حب الوطنی کا مظاہرہ کیا تو انشا اللہ آپ ہی جیتیں گے، لیکن اب شاید کسی فریق کا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں، مرنے مارنے کا انداز ہے۔
عمرے پر جانے والے ایک صاحب نے بتایا کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستانی حرم میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ '' ملک کا کیا ہوگا ؟ '' زائرین نے ایک دوسرے سے کہا کہ ''خصوصی طور پر وطن کی سلامتی کے لیے دعا کریں کہ مصیبت ٹل جائے۔ '' عوام اس لیے دعائیں کر رہے ہیں کہ انھیں اسی ملک میں رہنا ہے۔
اشرافیہ تو اپنے ہوائی جہازوں میں بریف کیس اٹھا کر نکل جائیں گے، اربوں روپے کی مالیت کے زیورات اور کرنسی ان کے بیرون ممالک کے بینکوں میں ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ سب ہمارا پیچھا چھوڑ دیں، پھر جو نئی قیادت ہوگی یا عمران خان تو وہ بہتر طریقے سے ملک کو چلا سکیں گے، جیساکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
نفرت سے نفرت کو اور دشمنی سے دشمنی کو ختم نہیں کیا جاسکتا، محبت وہ ہتھیار ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکتی ہے، لیکن یہ سمجھے کون؟ یہاں تو دونوں طرف تیر انداز اپنی کمانیں تانے تیار کھڑے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بہتر رویوں سے بھی جنگیں جیتی جاتی رہی ہیں۔ ملک اب اس مقام پر کھڑا ہے جب لوگ اس شعر کی تعبیر بن گئے ہیں:
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
فوج جب بھی آئی ہے سیاست دانوں کی کج فہمی اور ملکی انتشار کی وجہ سے آئی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ فوج نے ہمیشہ ملک کی بگڑتی صورت حال کو آ کر سنبھالا ہے۔ عام آدمی کو جمہوریت کا مطلب بھی نہیں پتا لیکن جو جانتے ہیں وہ بتائیں کہ جب نام نہاد جمہوری حکومت آئین کی تذلیل کر رہی ہے۔
ججوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے تو اس سے اچھی تو وہ فوجی حکومت ہے جو امن وامان قائم رکھتی ہے، عام آدمی کو تو چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں، پاکستان میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں بلکہ آمریت کے پردے میں لپٹی طاقت آتی ہے۔ آج بھی جب ہم آمریت میں جی رہے ہیں تو فوج کے آ جانے سے کیا قیامت آجائے گی، کیونکہ آج جو ہو رہا ہے وہ کھلی ملک دشمنی ہے اور اسے ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔