شکریہ جنابِ وزیرِ اعظم


Shakeel Farooqi April 21, 2023
[email protected]

شکریہ ! محترم وزیرِ اعظم آپ نے یہ اعلان فرما کر کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور واجب الادا پینشن کی عید سے قبل ادائیگی کردی جائے گی ، بے زبانوں پر رحم فرمایا ہے جس سے متاثرہ لوگوں کے تَنِ مردہ میں جان پڑگئی ہے اور کرامتِ مسیحا کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ حاتم طائی کی روح بھی خوش ہوگئی ہوگی۔ اِس وقت ہمیں ایک آجر اور اجیر کے درمیان ہونے والا ایک چھوٹا سا مکالمہ یاد آرہا ہے۔

اجیر نے آجر سے کہا کہ '' یا تو آپ میری اجرت بڑھا دیجیے ورنہ ... '' جواباً آجر نے کہا کہ '' ورنہ تم کیا کرلو گے؟'' اجیر نے سَر جھکایا اور نہایت عاجزی اور ادب کے ساتھ جواب دیا '' سَر جی ورنہ میں اِسی اُجرت پر کام کروں گا '' سو یہی حالت حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی ہے۔ سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت اُن پینشنرز کی ہے جن میں بڑھاپے کی وجہ سے کوئی اضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے ذرا بھی سکت باقی نہیں رہی ہے اور اُن کی گزر اوقات صرف پینشن ہی پر ہے۔

اِس دور میں جب کہ ضروریاتِ زندگی اِس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ نقد ادائیگی پر بھی دکاندار نخرے دکھاتا ہے پھر بھلا ادھار کیوں کر دے گا اور وہ بھی ماہ بہ ماہ؟ پہلے تو ایسا ہو جایا کرتا تھا لیکن اب دور بدل چکا ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کسی سے قرض مانگ لیا جائے لیکن اولاً عزتِ نفس اِس کی اجازت نہیں دیتی، دوسرے یہ کہ اگر کسی نے مروتاً قرض دے بھی دیا تو اُس کی واپسی کی صورت کیا ہوگی اور ہر مہینہ تو کوئی بھی قرض دینے کے لیے بھلا کیوں کر آمادہ ہوسکتا ہے؟

اِس کے علاوہ ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ تنخواہ اور پینشن کی ادائیگی کے لیے کسی تاریخ کا تعین اِس لیے ناممکن ہے کیونکہ ہر مہینہ ایک غیر یقینی صورتحال پیش آتی ہے اور معلوم نہیں ہوتا کہ حکومت کی جانب سے یہ مہربانی کب کی جائے گی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اِس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ:

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

ظاہر ہے کہ دیدہ و دانستہ حاکمِ حقیقی کے حکم کو بھلا کس طرح ٹالا جاسکتا ہے اور وہ بھی بار بار۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس نافرمانی کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالٰی سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مرزا غالب کے ایک شعر کے دوسرے مصرعہ کو دہرا رہا ہوں جس کے پہلے مصرعہ کو دہرانے کی مجھ گناہ گار میں ہمت نہیں ہے۔

'' یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو''

خواجہ میر درد کا ایک شعر بھی پیشِ خدمت ہے۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

آپ کے اعلیٰ شعری و ادبی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی تشریح اور وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔قصہ مختصر جب ہم نے آپ کا خوش کُن اعلان سُنا تو ہم نے اپنے ساتھیوں سے یہ کہا کہ اب مسئلہ حل ہوگیا ہے کیونکہ وزیرِ اعظم صاحب نے واجبات کی ادائیگی کے لیے حتمی تاریخ بھی مقررکردی ہے۔

بعض ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ وزیرِ اعظم ملک کو درپیش حالات کی وجہ سے انتہا سے زیادہ مصروف ہیں۔ جواباً ہم نے کہا کہ مایوسی کفر ہے اور وزیرِ اعظم نے جو کچھ فرما دیا وہ پتھر پر لکیر ہے۔ ساتھیوں نے استفسار کیا کہ ہم اتنے یقین کے ساتھ یہ کیوں کر کہہ رہے ہیں۔

جواباً ہم نے صرف اتنا کہا کہ ہم محترم وزیرِ اعظم کے مزاج آشنا ہیں کیوں کہ وہ ایک خدا ترس انسان ہیں۔ اِس پر ساتھیوں نے یہ سوال کیا کہ آپ کے اِس موضوع پر کئی کالم شائع ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پینشنرز کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی؟

اِس پر ہمارا سیدھا سادہ جواب تھا کہ شاید یہ بات محترم وزیرِ اعظم کے علم میں نہیں ہوگی اگرچہ وزیرِ اعظم کو باخبر رکھنے کے لیے اخبارات میں شائع ہونے والی اہم خبروں اور کالموں سے آگاہ رکھنے کے لیے تراشوں پر مشتمل باقاعدہ اور نہایت پابندی کے ساتھ ایک بریفنگ پیش کرنے کا طریقہ ہوا کرتا تھا، اب کا پتہ نہیں ہے۔

برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ برسوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ عید الفطر اور عیدِ قرباں کے موقع پر سرکاری ملازمین کو ماہِ رواں کی تنخواہیں پیشگی ادا کردی جاتی تھی تاکہ اُنہیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ کاش! اِس روایت کا اعادہ ممکن ہوجائے۔آخر میں ہم سب اجتماعی طور پر بیک وقت یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی وزیرِ اعظم کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔