دل تو بچہ ہے جی…
ایک قدر مہذب دوست ملنے آئے اور چھوٹتے ہی فرمایا، ''یار! آج کل اچھی اور امید افزاء خبروں کا تو جیسے قحط چل رہا ہے' ہائی مہنگائی وائے مہنگائی، مفت آٹا لینے کے لیے آیا ہوا یا آئی ہوئی عمررسیدہ مرد یا خاتون چل بسی، کہیں ٹریفک حادثات، خود کشیاں اور سب سے بڑھ کر عدلیہ اور پارلیمنٹ پنجاب اسمبلی کے الیکشن چودہ مئی کو الیکشن کرانے یا نہ کرانے کے سوال یا تنازعہ میں یوں سینگ پھنسا بیٹھے ہیں کہ اب نہ پائے ماندن نہ پائے رفتن کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
رہا الیکشن کا سوال، وہ تو خود سوالی بن کر دہائی دے رہا ہے کہ جناب، اے امیر شہر میرا تو کچھ کریں' میں چودہ مئی کو حل ہوجاؤں گا یا میری قسمت میں اکتوبر لکھا جائے گا، کیا فرماتا ہے ، آئین بیچ اس مسئلے کے۔ لیکن جن کے پاس سوال کا جواب ہے، ان کے ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے سینگ الگ ہوں تو وہ کچھ بولیں یا کریں ۔
اب تو وہ خود بھی اپنے سینگ بحفاظت نکال نہیں سکتے ۔ مجھے بھارتی فلم ''عشقیہ'' کا ایک گیت یاد آرہا، اسے گایا راحت فتح علی خان نے ، اس کا سنگیت وشال بھردواج نے دیا ہے اور نصیر الدین شاہ پرفلمایا گیا ہے۔ گیت کے مصرے بڑے معنی خیز ہیں، طرز اور گائیکی بھی کمال ہے۔مجھے تو یہ گیت اپنے حالات کی شاعرانہ تشریح لگ رہا ہے۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔چلیں، سنتے ہیں
ایسی الجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشم ڈور کٹتی نہیں
عمر کب کی برس کے سفید ہوگئی
کالی بدلی جوانی کی چھٹتی نہیں
واﷲ یہ دھڑکن، بڑھنے لگی ہے
چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے
ڈر لگتا ہے، تنہا سونے میں جی
دل تو بچہ ہے جی! تھوڑا کچا ہے جی
پاکستان میں بحران ساز اور حل کار دونوں نے سینگ پھنسا رکھے ہیں اور اپنی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے مترنم لہجے میں فرما رہے ہیں، دل تو بچہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی۔ادھرملک میںکوئی ایسا سورما بھی نہیں بچا ہے' جو ایک دوسرے میں پوست سینگوں کو بحفاظت الگ کر سکے۔
سیانے کہتے ہیں کہ طاقتور آپس میں لڑ رہے ہوں تو کمزور دم دبا کر وہاں سے بھاگ نکلے لہذا میں نے بھی سیانوں کی نصیحت پر عمل کیا ہے، میں نے مٹی کا ایک لوٹا پانی سے بھرا اور اپنے ہاتھ دھونے لگ گیا اوریہ بھی کہتا رہا ، اے پروردگار! میرا اور میرے جیسے عامیوں کا پاکستان کو توڑنے، لوٹنے اور اب تباہ کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، یوں ہم پاکستان کو برباد کرنے کے ''گناہ عظیم'' سے بری الذمہ ہوئے۔
''بحران ساز ''جانیں اور ''حل کار'' کرنے والے۔ایک چھوٹی سی لیکن حسب حال ضرب المثل نہ جانے کہاں سے آٹپکی ہے،آپ سے شیئر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ایک کسان اپنے بیل سے بہت تنگ آگیا ، اسے نے بیل کو بدعا دی کہ جا تجھے چور لے جائیں۔ بیل نے بڑے سکون سے جواب دیا، میں چوروں کے پاس رہوں یا تمھارے پاس ، میں نے تو بس چارہ کھانا۔ یہ جس زمانے کی کہاوت ہے، اس وقت بیل کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا ، آج کے بیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے کام نہ کیا تو انجام قصائی ہوگا۔
پاکستان میں طاقتوروں کی لڑائی سے ہم عامیوں کا لینا دینا تو کچھ نہیں لیکن قصائی والا آپشن استعمال ہوا تو پھر قربانی بیل یعنی عامیوں کی دی جائے گی۔ افغانستان میں طالبان آئے تو کابل ائیرپورٹ کے اندر اور باہر جو قیامت برپا تھی، وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اشرف غنی، عبداﷲ اﷲ، حامد کرزئی کاکچھ نہیں بگڑا لیکن عام افغان برباد ہوگیا ، المیہ یہ بھی کہ اس پر طالبان کو افسوس ہے نہ اشرف غنی وغیرہ کو دکھ ہے۔
میرا مقصد آپ کو ڈرانا بالکل نہیں ہے، چلیں ایک دلچسپ خبر کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک دو روز پہلے کے اخبار میں یہ خبر آپ نے بھی یقیناً پڑھی ہوگی ، میری طرح آپ کو مزہ آیا ہوگا۔ خبر کچھ یوں ہے، سابق چیف جسٹس عزت مآب ثاقب نثار نے یقین دلایا ہے کہ بھاشا ڈیم فنڈکی رقم محفوظ ہاتھوں میں ہے' انھوں نے یہ خوشخبری بھی لانچ کی ہے کہ ڈیم کے لیے 10ارب روپے جمع ہوئے تھے' اس رقم کی حفاظت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا' بنچ نے اس رقم کو انوسٹ کیا جو بڑھ کر 17ارب روپے ہو گئی تھی۔
اسے کہتے ہیں' چپڑیاں اور وہ بھی دو دو ۔کیا ایسی کاروباری ذہانت دنیا کے کسی اور ملک کے جج صاحبان میں پائی جاتی ہے۔ ذرا سوچیں! اگر 17ارب روپے کی مزید سرمایہ کاری کی جائے تو تین چار برس میں یہ رقم بڑھ کر 27 ارب روپے ہو جائے ، اگر اسے پھر انویسٹ کر دیا جائے تو تخمینہ 40ارب تک جا سکتا ہے' یوں سرمایہ کاری در سرمایہ کاری ہوتی رہے تو 2035 تک یہ رقم کھربوں روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر اب بھی کوئی نگوڑاحاسد ان پر انگلی اٹھائے تو ایسے شریرشخص کی انگلی کاٹ دینی چاہیے۔
ایک اور مزے کی اور حوصلہ افزاء خبر شیخ رشید نے دی ہے، یاد رکھیں یہ پیپلزپارٹی والے بابائے سوشلزم شیخ رشید نہیں ہیں، ان کا تعارف فرزند راولپنڈی اور مکین لال حویلی ہے، ان کے زور خطاب کا ڈنکا پورے پاکستان میں بجتا ہے، ان کے جملے تلوار اور جنجر کی طرح ہیں اور ان کی دھار ایسی کہ گردن بھی کٹ جائے اور مقتول کو پتہ بھی نہ چلے۔
انھوں نے ایک دو روز پہلے اپنے ٹویٹر بیان میں کہہ دیا ہے کہ عدلیہ اپنی آئینی اور قانونی ذمے داری اسی ہفتے پوری کرے گی، عدلیہ الیکشن کمیشن کو پیسے ٹراسفر کراکر رہے گی، الیکشن بھی اورانتظامات بھی ہوںگے ۔جو سپریم کورٹ کافیصلہ نہیں مانے گا وہ انجام کو پہنچے گا، رواں ہفتے آر پار ہو جائے گا۔
وہ ایسی دلچسپ مگر معنی خیز باتیں مسلسل کررہے ہیں۔ خیر سے عوامی مسلم لیگ نامی ایک سیاسی جماعت کے مالک ومختار ہیں۔اس لیے میں ان کی بات ''ہلکے'' میں نہیں لیتا۔ شیخ رشید ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک معروف سیاستدان اور قانون دان اعتزاز احسن بھی خبردار کرچکے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا ہے، جو سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانے گا نااہل ہوگا۔ ایک اور سیاستدان پلس قانون دان فواد چوہدری نے بھی کہیں ٹوئٹر پر ہی فرمایا ہے کہ ایسی پارلیمان اور حکومت جو لوگوں سے ووٹ کا حق چھیننے کی قرار دادیں منظور کرے، اس کا ہر رکن عوام کا مجرم ہے۔
ایسے حالات میں جب چہار جانب ذہانت و فطانت کے چشمے ابل رہے ہوں 'آئین میں کیا لکھا ہے ' اسے یوں پڑھا جائے ' پھر فلاں فلاں آرٹیکل کو ملا کر پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے جو میں فرما رہا ہوں ' اب میرے جیسا کوئی عبداللہ بیگانی شادی میں بھنگڑا نہ ڈالے تو اور کیا کرے۔ پارلیمنٹ' ایگزیکٹو اور جوڈیشری میں سے کون برتر ہے اور کون کم تر ہے ' اس سوال کا جواب کسی کسان اور مزدور سے پوچھیں تو لگ پتہ جائے گا ۔
اقتدار کے ایوانوں اور اداروں نے ملک کے تانے بانے ایسے ادھیڑ دیے ہیں کہ انھیں کوئی ماہر سے ماہر درزی بھی سی نہیں سکتا۔ گنجل ایسے پڑ گئے ہیں کہ انھیں سلجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ اب تو ان گنجلوں کی کوئی ایک ڈور دانتوںسے بھی کاٹی نہیں جا سکتی۔ریاست اور عوام کے مفادات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ داؤ پر لگا دیا گیا ہے ' خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والوںنے جو گند ڈالا ہے' اس کی بدبو سے عوام کے ناک بند ہو گئے ہیں لیکن یہ طبقہ پھر بھی شرمندہ نہیں ہو رہا ۔کہتے ہیں کسی جاہل کو طاقت مل جائے تو وہ لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے ' لیکن اگر وہ خود کوعقل قل بھی سمجھتا ہو تو پھر وہ خطرناک ہونے سے آگے بڑھ کر ریاست اور عوام کے لیے ہلاکت خیز بن جائے گا۔ میں کچھ تلخ ہو گیا ہوں ' حالات ہی کچھ ایسے ہیں 'بندہ کیا کرے ۔
ہندوستان کے ایک شاعر اعظم شاکری کا ایک شعر یاد آیا ہے۔
مجھے اک لاش کہہ کر نہ بہاؤ پانیوں میں
میرا ہاتھ چھو کر دیکھو' میری نبض چل رہی ہے
انھی صاحب کا ایک اور شعر ہے' اس میں فیصلہ سازوں کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔
آندھیوں سے بچا کے رکھو اپنے آنگن کا بوڑھا شجر
یہ شجر ہی اگر گر گیا' پھر کہانی سنائے گا کون
رہا الیکشن کا سوال، وہ تو خود سوالی بن کر دہائی دے رہا ہے کہ جناب، اے امیر شہر میرا تو کچھ کریں' میں چودہ مئی کو حل ہوجاؤں گا یا میری قسمت میں اکتوبر لکھا جائے گا، کیا فرماتا ہے ، آئین بیچ اس مسئلے کے۔ لیکن جن کے پاس سوال کا جواب ہے، ان کے ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے سینگ الگ ہوں تو وہ کچھ بولیں یا کریں ۔
اب تو وہ خود بھی اپنے سینگ بحفاظت نکال نہیں سکتے ۔ مجھے بھارتی فلم ''عشقیہ'' کا ایک گیت یاد آرہا، اسے گایا راحت فتح علی خان نے ، اس کا سنگیت وشال بھردواج نے دیا ہے اور نصیر الدین شاہ پرفلمایا گیا ہے۔ گیت کے مصرے بڑے معنی خیز ہیں، طرز اور گائیکی بھی کمال ہے۔مجھے تو یہ گیت اپنے حالات کی شاعرانہ تشریح لگ رہا ہے۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔چلیں، سنتے ہیں
ایسی الجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشم ڈور کٹتی نہیں
عمر کب کی برس کے سفید ہوگئی
کالی بدلی جوانی کی چھٹتی نہیں
واﷲ یہ دھڑکن، بڑھنے لگی ہے
چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے
ڈر لگتا ہے، تنہا سونے میں جی
دل تو بچہ ہے جی! تھوڑا کچا ہے جی
پاکستان میں بحران ساز اور حل کار دونوں نے سینگ پھنسا رکھے ہیں اور اپنی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے مترنم لہجے میں فرما رہے ہیں، دل تو بچہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی۔ادھرملک میںکوئی ایسا سورما بھی نہیں بچا ہے' جو ایک دوسرے میں پوست سینگوں کو بحفاظت الگ کر سکے۔
سیانے کہتے ہیں کہ طاقتور آپس میں لڑ رہے ہوں تو کمزور دم دبا کر وہاں سے بھاگ نکلے لہذا میں نے بھی سیانوں کی نصیحت پر عمل کیا ہے، میں نے مٹی کا ایک لوٹا پانی سے بھرا اور اپنے ہاتھ دھونے لگ گیا اوریہ بھی کہتا رہا ، اے پروردگار! میرا اور میرے جیسے عامیوں کا پاکستان کو توڑنے، لوٹنے اور اب تباہ کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، یوں ہم پاکستان کو برباد کرنے کے ''گناہ عظیم'' سے بری الذمہ ہوئے۔
''بحران ساز ''جانیں اور ''حل کار'' کرنے والے۔ایک چھوٹی سی لیکن حسب حال ضرب المثل نہ جانے کہاں سے آٹپکی ہے،آپ سے شیئر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ایک کسان اپنے بیل سے بہت تنگ آگیا ، اسے نے بیل کو بدعا دی کہ جا تجھے چور لے جائیں۔ بیل نے بڑے سکون سے جواب دیا، میں چوروں کے پاس رہوں یا تمھارے پاس ، میں نے تو بس چارہ کھانا۔ یہ جس زمانے کی کہاوت ہے، اس وقت بیل کو ذبح نہیں کیا جاتا تھا ، آج کے بیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے کام نہ کیا تو انجام قصائی ہوگا۔
پاکستان میں طاقتوروں کی لڑائی سے ہم عامیوں کا لینا دینا تو کچھ نہیں لیکن قصائی والا آپشن استعمال ہوا تو پھر قربانی بیل یعنی عامیوں کی دی جائے گی۔ افغانستان میں طالبان آئے تو کابل ائیرپورٹ کے اندر اور باہر جو قیامت برپا تھی، وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ اشرف غنی، عبداﷲ اﷲ، حامد کرزئی کاکچھ نہیں بگڑا لیکن عام افغان برباد ہوگیا ، المیہ یہ بھی کہ اس پر طالبان کو افسوس ہے نہ اشرف غنی وغیرہ کو دکھ ہے۔
میرا مقصد آپ کو ڈرانا بالکل نہیں ہے، چلیں ایک دلچسپ خبر کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک دو روز پہلے کے اخبار میں یہ خبر آپ نے بھی یقیناً پڑھی ہوگی ، میری طرح آپ کو مزہ آیا ہوگا۔ خبر کچھ یوں ہے، سابق چیف جسٹس عزت مآب ثاقب نثار نے یقین دلایا ہے کہ بھاشا ڈیم فنڈکی رقم محفوظ ہاتھوں میں ہے' انھوں نے یہ خوشخبری بھی لانچ کی ہے کہ ڈیم کے لیے 10ارب روپے جمع ہوئے تھے' اس رقم کی حفاظت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا' بنچ نے اس رقم کو انوسٹ کیا جو بڑھ کر 17ارب روپے ہو گئی تھی۔
اسے کہتے ہیں' چپڑیاں اور وہ بھی دو دو ۔کیا ایسی کاروباری ذہانت دنیا کے کسی اور ملک کے جج صاحبان میں پائی جاتی ہے۔ ذرا سوچیں! اگر 17ارب روپے کی مزید سرمایہ کاری کی جائے تو تین چار برس میں یہ رقم بڑھ کر 27 ارب روپے ہو جائے ، اگر اسے پھر انویسٹ کر دیا جائے تو تخمینہ 40ارب تک جا سکتا ہے' یوں سرمایہ کاری در سرمایہ کاری ہوتی رہے تو 2035 تک یہ رقم کھربوں روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر اب بھی کوئی نگوڑاحاسد ان پر انگلی اٹھائے تو ایسے شریرشخص کی انگلی کاٹ دینی چاہیے۔
ایک اور مزے کی اور حوصلہ افزاء خبر شیخ رشید نے دی ہے، یاد رکھیں یہ پیپلزپارٹی والے بابائے سوشلزم شیخ رشید نہیں ہیں، ان کا تعارف فرزند راولپنڈی اور مکین لال حویلی ہے، ان کے زور خطاب کا ڈنکا پورے پاکستان میں بجتا ہے، ان کے جملے تلوار اور جنجر کی طرح ہیں اور ان کی دھار ایسی کہ گردن بھی کٹ جائے اور مقتول کو پتہ بھی نہ چلے۔
انھوں نے ایک دو روز پہلے اپنے ٹویٹر بیان میں کہہ دیا ہے کہ عدلیہ اپنی آئینی اور قانونی ذمے داری اسی ہفتے پوری کرے گی، عدلیہ الیکشن کمیشن کو پیسے ٹراسفر کراکر رہے گی، الیکشن بھی اورانتظامات بھی ہوںگے ۔جو سپریم کورٹ کافیصلہ نہیں مانے گا وہ انجام کو پہنچے گا، رواں ہفتے آر پار ہو جائے گا۔
وہ ایسی دلچسپ مگر معنی خیز باتیں مسلسل کررہے ہیں۔ خیر سے عوامی مسلم لیگ نامی ایک سیاسی جماعت کے مالک ومختار ہیں۔اس لیے میں ان کی بات ''ہلکے'' میں نہیں لیتا۔ شیخ رشید ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک معروف سیاستدان اور قانون دان اعتزاز احسن بھی خبردار کرچکے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا ہے، جو سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانے گا نااہل ہوگا۔ ایک اور سیاستدان پلس قانون دان فواد چوہدری نے بھی کہیں ٹوئٹر پر ہی فرمایا ہے کہ ایسی پارلیمان اور حکومت جو لوگوں سے ووٹ کا حق چھیننے کی قرار دادیں منظور کرے، اس کا ہر رکن عوام کا مجرم ہے۔
ایسے حالات میں جب چہار جانب ذہانت و فطانت کے چشمے ابل رہے ہوں 'آئین میں کیا لکھا ہے ' اسے یوں پڑھا جائے ' پھر فلاں فلاں آرٹیکل کو ملا کر پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے جو میں فرما رہا ہوں ' اب میرے جیسا کوئی عبداللہ بیگانی شادی میں بھنگڑا نہ ڈالے تو اور کیا کرے۔ پارلیمنٹ' ایگزیکٹو اور جوڈیشری میں سے کون برتر ہے اور کون کم تر ہے ' اس سوال کا جواب کسی کسان اور مزدور سے پوچھیں تو لگ پتہ جائے گا ۔
اقتدار کے ایوانوں اور اداروں نے ملک کے تانے بانے ایسے ادھیڑ دیے ہیں کہ انھیں کوئی ماہر سے ماہر درزی بھی سی نہیں سکتا۔ گنجل ایسے پڑ گئے ہیں کہ انھیں سلجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ اب تو ان گنجلوں کی کوئی ایک ڈور دانتوںسے بھی کاٹی نہیں جا سکتی۔ریاست اور عوام کے مفادات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ داؤ پر لگا دیا گیا ہے ' خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والوںنے جو گند ڈالا ہے' اس کی بدبو سے عوام کے ناک بند ہو گئے ہیں لیکن یہ طبقہ پھر بھی شرمندہ نہیں ہو رہا ۔کہتے ہیں کسی جاہل کو طاقت مل جائے تو وہ لوگوں کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے ' لیکن اگر وہ خود کوعقل قل بھی سمجھتا ہو تو پھر وہ خطرناک ہونے سے آگے بڑھ کر ریاست اور عوام کے لیے ہلاکت خیز بن جائے گا۔ میں کچھ تلخ ہو گیا ہوں ' حالات ہی کچھ ایسے ہیں 'بندہ کیا کرے ۔
ہندوستان کے ایک شاعر اعظم شاکری کا ایک شعر یاد آیا ہے۔
مجھے اک لاش کہہ کر نہ بہاؤ پانیوں میں
میرا ہاتھ چھو کر دیکھو' میری نبض چل رہی ہے
انھی صاحب کا ایک اور شعر ہے' اس میں فیصلہ سازوں کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔
آندھیوں سے بچا کے رکھو اپنے آنگن کا بوڑھا شجر
یہ شجر ہی اگر گر گیا' پھر کہانی سنائے گا کون