محکمہ صحت کی عدم دلچسپی لیاری اسپتال کی سی ٹی اسکین مشین 5 سال سے خراب

ایم آر آئی کی مد میں مریضوں سے ایک ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں،اسپتال کے سربراہ کا مریضوں سے رقم وصولی کا اعتراف


Tufail Ahmed April 21, 2023
اسپتال میں ایم ایل او سیکشن قائم ہے لیکن پوسٹ مارٹم کی سہولت موجودنہیں،لیاری کے ہزاروں مریضوں کے طبی حق پر ڈاکا ڈالا جارہاہے فوٹو : فائل

محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے لیاری جنرل اسپتال میں سی ٹی ایکسین مشین5 سال سے خراب پڑی ہے، ایم آر آئی اور الٹرساؤنڈ سمیت دیگر ٹیسٹوں کی مد میں مبینہ طور پر مریضوں سے فیس وصول کی جارہی ہے، ایم آر آئی کرانے والے مریضوں سے ایک ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔

اس بات کا اعتراف لیاری اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر حفیظ ابڑو نے نمائندہ ایکسپریس کو بھیجے جانے والے واٹس ایپ پیغام میں کیا، تفصیلات کی مطابق 600 سے زائد بستروں پر مشتمل لیاری جنرل اسپتال محکمہ صحت کی عدم توجہی کی وجہ سے '' کلینک'' بن گیا ہے ،لیاری کے ہزاروں مریضوں کے طبی حق پر ڈاکا ڈالا جارہاہے ،مریضوں کی جانب سے ادویات نہ ملنے کی شکایت عام ہے۔

حکومت سندھ لیاری جنرل اسپتال کو مریضوں کے لیے ادویات کی مد میں سالانہ 32 کروڑ روپے فراہم کررہی ہے، اس رقم میں 15 فیصد رقم اسپتال کے سربراہ کو اس کی صوابدیدی اختیارات میں ادویات کی مقامی خریداری بھی شامل ہے جس کی ایک من پسند وینڈر سے خریداری کی جارہی ہے اس کے باوجود اسپتال آنے والے مریضوں کو اسپتال سے ادویات نہ ملنے کی شکایت ہے۔

اسپتال میں حکومت سندھ کی جانب سے کروڑ روپے مالیت کی سی ٹی ایکسین مشین نصب کی گئی تھی جو گزشتہ 5 سال سے انتظامیہ کی عدم توجہی کی وجہ خراب پڑی ہے، اسپتال میں ایم آر آئی کرانے کے لیے فی مریض ایک ہزار روپے یوزر چارچز کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں۔

لیاری جنرل اسپتال کے سربراہ کو اسپتال کی مشینری و طبی آلات کی مینٹینس (مرمت) کی مدمیں سالانہ 28 لاکھ روپے فراہم کیے جاتے ہیں۔

اس رقم کے باوجود لیاری اسپتال میں مریضوں سے ایم آر آئی کرانے کی مد میں ایک ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں جس سے حکومت سندھ لاعلم ہے قانون کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں مریضوں سے کسی قسم کے یوزر چارچز وصول نہیں کیے جاسکتے لیکن لیاری اسپتال میں ایم آرائی کے ساتھ ساتھ گائنی یونٹ میں الٹراساؤنڈ کرانے والی خواتین سے بھی 300 روپے وصول کیے جارہے ہیں۔

اسپتال میں مریضوں سے وصول کی جانے والی رقم کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں، اسپتال میں زیر علاج مریضوں کو تین وقت کے کھانے کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے بھی حکومت سندھ فراہم کررہی ہے لیکن اسپتال میں مریضوں کی ایک یا دو بار خوراک کی فراہمی کی جاتی ہے،مریضوں نے بتایا کہ کبھی کبھی کھانا غیر معیاری بھی ہوتا ہے جو دن میں ایک یا دو بار دیا جاتا ہے۔

اسپتال کو سیکیورٹی گارڈ کی مد میں سالانہ 12 لاکھ روپے بھی فراہم کیے جاتے ہیں،اسپتال ذرائع کے مطابق اسپتال میں پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کے چند گارڈ تعینات ہیں جبکہ ایگریمنٹ کے مطابق12 سیکورٹی گارڈز تعینات ہونے چاہیں اور اسپتال کے میں گیٹ پرایک واک تھرو گیٹ اور اسپتال کے اندر داخل ہونے کے لیے ایک اسکینر بھی ہونا چاہیے جو اسپتال میں سریسے موجود ہی نہیں،لیاری اسپتال میں سیکیورٹی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب نہیں کیے گئے ، حکومت سندھ نے ان کیمروں کی مد میں 50 لاکھ روپے بجٹ میں دیے۔

لیاری اسپتال میں ٹیسٹوں کی مد میں غیر قانونی چارجز کی وصولی پر مریضوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان اسپتالوں کو ہم غریبوں کے نام پر کروڑوں روپے کے بجٹ فراہم کرتی ہے لیکن اسپتالوں کے سربراہوں سے بجٹ اور سہولت کی فراہمی کے لیے کوئی سسٹم موجود نہیں۔

لیاری اسپتال میں ایم آر آئی کرانے کی مد میں جب اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر حفیظ ابڑو سے واٹس اپ پررابطہ کیا تو انھوں نے نمائندہ ایکسپریس کو اپنے بھیجے جانے والے میسج میں ایم آر آئی کی مد میں مریضوں سے ایک ہزار روپے وصول کرنے اعتراف کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ یہ رقم اسپتال کی ایم آر آئی مشین کی مینٹینس کی مد میں لی جارہی ہے لیکن یہ رقم انچارچ ایم آر آئی کے ذریعے لی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس رقم کااسپتال انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں،انھوں نے کہا کہ اسپتال کی سی ٹی اسکن مشین 5 سال سے خراب ہے کسی بھی مریض کا سٹی اسکن نہیں کیا گیا کیونکہ یہ مشین کام نہیں کر رہی تاہم محکمہ صحت کو نئی سٹی اسکن مشین کی خریداری کے لیے مکتوب بھیجا ہے۔

نئی مشین کی خریداری کا عمل جاری ہے، لیاری اسپتال کے سربراہ نے مزید بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے ملازمتوں پر پابندی کے باعث پیرا میڈیکل اسٹاف کی 400 مختلف آسامیاں خالی ہیں،انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اسپتال میں مریضوں کو ادویات کی فراہمی کی جاتی ہے جبکہ اسپتال کی لیب مکمل طور پر فعال ہے، ایکسرے، الٹراساؤنڈ بھی کیاجارہا ہے،واضح رہے کہ اسپتال میں ایم ایل او سیکشن قائم ہے لیکن پوسٹ مارٹم کی سہولت موجودنہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں