پھر میری آنکھ ہوگئی نمناک۔۔۔۔ عیدمبارک

کسی مفلس کے آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدلنے کی سعی کیجیے کہ یہ دن صرف جشن ہی نہیں یومِ احتساب بھی ہے

فوٹو: فائل

یہ کائنات اﷲ تعالی نے بنائی اور اس میں بسنے والی تمام مخلوقات کو تخلیق فرمایا اور پھر اپنی تمام مخلوقات میں سے انسانوں کو اپنی بہترین تخلیق قرار دیتے ہوئے اسے عزت و تکریم سے نوازتے ہوئے اپنی اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ قرار دیا۔ یہ شرف و اعزاز کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آیا۔ لیکن اتنا بڑا اعزاز کیا تمام انسانوں کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔ ؟

ساری مخلوق کا خالق تو بس وہی یکتا ہی ہے، وہی ہے سب کا پالن ہار، وہی ہے بس کارکُشا و کارساز۔ اس کائنات کی ساری مخلوقات تو بس اس دنیا تک ہی ہیں لیکن انسان اس دنیا کے بعد کی ابدی زندگی میں بھی موجود ہوں گے۔

اسی لیے اﷲ تعالی نے اسے تخلیق کرنے کے بعد انہیں زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط بھی عطا فرمائے، اور پھر ان اصولوں و ضوابط پر عمل کیسے کیا جائے تو اپنی کتاب ہدایت قرآن حکیم اپنے آخری پیغمبر رسول کریم ﷺ پر نازل فرمایا۔

جناب رسول کریم ﷺ نے اپنی تمام زندگی قرآن مجید پر عمل کرتے ہوئے گزاری اسی لیے اﷲ تعالی نے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ اور پھر خود ارشاد فرمایا کہ دین تو بس اسلام ہی ہے، اب جو اس پر عمل پیرا ہوگا بس وہی نجات پائے گا۔

اﷲ تعالی نے اپنے دین کو اکمل قرار دینے کے ساتھ اسے اپنی نعمت بھی قرار دیا ہے۔ اسلام کو مکمل دین اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس نے زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں ہمیں راہ نمائی نہ ملتی ہو کہ ہمیں کیا کرنا اور کیسے کرنا ہے۔

انسان فطری طور پر اپنی خواہشوں کا اسیر ہوتا ہے اور اس کی سب سے بڑی خواہش خوشی، مسرت اور آسودگی رہی ہے۔ انسان چوں کہ کم زور واقع ہُوا ہے تو وہ اپنی خوشیوں کے حصول کے لیے کسی ضابطے قائدے کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ لیکن دین اسلام نے اسے ہر موقع پر اپنی حدود میں رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔

ابھی کل ہی ہم سب نیکیوں کے موسم بہار رمضان الکریم کے تربیتی مراحل سے گزر رہے تھے، ہم حکم ربی پر روزے رکھ رہے تھے جس کا مقصد تقوی اور رضائے الہی کا حصول ہے۔ اور آج اس ماہ مبارک کے اختتام پر ہم سب عیدالفطر منا رہے ہیں۔

دورِ جاہلیت میں خوشیوں کے نام پر بہت سے چھوٹے بڑے تہوار منائے جاتے تھے، جس کے متبادل کے طور پر اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو عیدالفطر و عید قربان عطا کیں اور بتا دیا تمہارے لیے ان دو تہواروں میں خوشیاں رکھ دی گئی ہیں۔ مسلمان رمضان میں روزے کے ذریعے تربیت نفس کے مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے رب کی خوش نُودی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر عیدالفطر منائی جاتی ہے۔

عیدالفطر مسلمانوں کے لیے اﷲ کا انعام ہے۔ ماہ رمضان کا چاند مسلمانوں کے لیے بخشش و نجات کی نوید لے کر آتا ہے اور اپنے ساتھ رحمتیں اور برکتیں لاتا ہے۔ اسی طرح رمضان جاتے ہوئے بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا بل کہ وہ تمام عبادتیں و ریاضتیں جو اﷲ کی خوش نُودی کے لیے مسلمان کرتے ہیں اپنے ساتھ لے جا کر اﷲ کے حضور پیش کرتا ہے۔ عید قریب آرہی ہوتی ہے۔


اس کی تیاریاں بھی نہایت ہی زور و شور سے کی جارہی ہوتی ہیں حتی کہ ان تیاریوں کے دوران حدود اﷲ و قوانین الہی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ بازاروں میں بے جا ہجوم کے باعث لوگ خلط ملط ہورہے ہوتے ہیں، اسراف و نمود و نمائش کی دوڑ جاری رہتی ہے۔ ایسے میں بس یہ سوچیں اور اپنا جائزہ خود لیں کہ ہم اپنی عبادتیں نماز و روزے و صدقہ لے کر کہاں کھڑے ہوں گے۔۔۔۔ ؟

رمضان المبارک کے پورے ماہ کی تربیت تو ہماری تہذیب نفس کے لیے تھی، وہ تو اس لیے کی گئی تھی کہ ہم اپنی پژمردہ روح میں نئی توانائی پھونک سکیں، لیکن یہ کیا ہُوا کہ ابھی تو رمضان ختم بھی نہیں ہوتے کہ ہم اپنے رب کو بُھول کر پھر اسی گناہوں کی دلدل میں جا دھنستے ہیں جہاں سے ہمیں رمضان نکالنے آیا، رمضان میں رکھے گئے روزوں کے تحفے کی وصولی کا وقت قریب آرہا ہوتا ہے۔

اس وقت یہ امتحان ہوتا ہے کہ آیا ہمارے یہ روزے و عبادتیں ہمارے نفس کا تزکیہ کرنے میں کام یاب ہوئی یا ہم اب بھی نفسانی خواہشات کا شکار ہیں ؟ اور دکھ کی بات یہ کہ چاند رات اور پھر عید کے دن بھی الاماشاء اﷲ ایسے مظاہر دیکھنے و سننے کو ملتے ہیں کہ دل درد سے بوجھل ہوجائے کہ ہم مسلمان کیوں اتنے خسارے میں ہیں کہ رمضان کے فیض کو ابھی سمیٹنے بھی نہ پائے کہ گناہوں کے سمندر میں جاگرے۔ بے شک! عید ہمارا تہوار ہے، خوشیاں منانا ہمارا حق ہے لیکن خوشی کے اظہار میں وہ طریقے جو اﷲ کے حکم سے ٹکرائیں انہیں جائز سمجھتے ہوئے ان پر اصرار کرنا اور جواز دینا ''عذر گناہ بدتر از گناہ'' ہے۔

اﷲ نے عیدالفطر کا انعام صرف دیا ہی نہیں بل کہ اسے منانے کا طریقہ بھی بتا دیا، نماز عیدالفطر سے قبل فطرہ ادا کیا جاتا ہے یعنی ہمیں یہ بتا دیا گیا کہ اپنی خوشی میں گم ہو کر محتاج و مساکین کو بھولنا مت، پہلے رب کی کبریائی بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرو پھر نماز شُکر و عید ادا کرو۔ پھر جب مسلمان عیدگاہ جانے لگتے ہیں تو حدیث کا مفہوم ہے: ''جب مسلمان عید گاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: ''میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا۔'' فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے پوری بھر کر مزدوری دی جائے۔

اس پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اے فرشتو! تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے بندوں کو، جو رمضان میں روزے بھی رکھتے ہیں، اور قرآن حکیم کی تلاوت بھی کرتے رہے ہیں اس کے صلے میں اپنی خوش نُودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی۔'' پھر سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے، مفہوم: ''میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو، مجھے میری عزت کی قسم! مجھے اپنے جلال کی قسم! آج عید کے اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے اس میں بھی تمہاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا۔ جب تم میرا دھیان رکھو گے میں تمہاری خطاؤں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! مجرموں کے سامنے تمہیں ہرگز ذلیل و رسوا نہ کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں میں بخشے بخشائے لوٹ جاؤ۔ تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے۔ میں تم سے راضی ہوگیا۔

عیدالفطر کا دن صرف جشن ہی نہیں یومِ احتساب بھی ہے۔ عید کی خوشیاں ضرور منائیں، لیکن بس یہ دھیان رکھیں کہ ہمارا کوئی بھی عمل حدود اﷲ سے نہ ٹکرائے جہاں اسراف و فضول خرچی کی رب نے ممانعت کی ہے وہیں نمود و نمائش کو بھی ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب معاشرے میں محرومیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔ عید ضرور منائیں مگر اپنے ارد گرد بسنے والوں کو بھی ان میں شامل رکھیں کہ یہی اصل عید اور رب کی خوش نُودی کے حصول کا راستہ ہے۔

اﷲ تعالی نے مخلوق کو اپنا کنبہ قرار دیا ہے، تو ہمیں اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ یہ سارے انسان خدا کی عیال ہیں، اگر کوئی اس کا خیال رکھے گا تو جان لیجیے کہ مخلوق کا خالق اس سے راضی ہوجائے گا ، اور جب وہ خالق حقیقی راضی ہوجائے تو جیون میں بہار آجاتی ہے، تو ہم سب کو اس کی مخلوق کا انتہائی خیال رکھنا ہے، اس لیے کہ ہم سب نے سنا ہے اور یہ صد فی صد درست ہے کہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

عید مبارک
Load Next Story