حامد میر پر قاتلانہ حملہ
حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش اتنی قبیح اورافسوسناک ہے کہ اس کے محرکات میں سے کسی ایک کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہم سب کے لیے تشویش ناک بھی ہے اور ملک کے لیے شرمناک بھی۔ خدا نے اس کی زندگی بچا لی ورنہ نشانہ لگانے والوں نے اپنی طرف سے تیاری مکمل کی ہوئی تھی۔ اگر ڈرائیور بر وقت ذہانت نہ دکھاتا اور سڑک کے پار دکان پر متعین گارڈ فائرنگ نہ کرتا تو حملہ آور اپنے گھناؤنے عزائم میں کامیاب ہو چکے ہوتے ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہی ا یسی پھیلی جیسے اس کو پھیل جانا تھا۔ مگر اس وقت حملے کے ایک دن بعد یہ اندوہناک واقعہ ایک اور خطرناک تنازعے کا باعث بن گیا ہے۔
تنازعے کا آغاز حامد میر کے بھائی عامر میر کے اس الزام سے ہوا کہ جان لینے کی اس کوشش کے پیچھے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور اس ادارے کے چند ایک افسران ملوث ہیں۔ اس بیان کی بنیاد انھوں نے اپنے بھائی کا ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان اور اس کی طرف سے اپنے قریبی حلقہ احباب کو پیشگی آگاہی کو بنایا ۔ اگر یہ الزام بین السطور لگایا جاتا تو شاید ایسا خطرناک ثابت نہ ہوتا کہ جیسا اس وقت ہو رہا ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے اخبارات نے اس کو خوب اچھالا۔ ہندوستان کے ذرایع ابلاغ کی تو عید ہوگئی۔
ان کی پرانی عادت عود کر آئی اور اس وقت پاکستان کے ریاست کے وہ ادارے جو دفاع کا ہراول دستہ سمجھے جاتے ہیں ہندوستان کے اخبارات اور چینلز کی بدترین زد میں ہیں۔ یہ معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا اگر عامر میر کے بیان کے بعد اس کو بڑھانے کا کام دوسروں نے نہ اٹھا لیا ہوتا۔ اس الزام کے سامنے آتے ہی تجزیوں اور گواہیوں کا طوفان اُمڈ پڑا جو ابھی تک جاری ہے۔ محترم انصار عباسی نے ڈی جی آئی ایس آئی کے استعفی کا مطالبہ کر دیا۔ اور دوسروں کی طرح عمومی مسائل کو حوالہ بناتے ہوئے عامر میر کے الزام کو ایسے اتنا قوی کر دیا کہ جیسے یہ نا قابل تر دید ثبوت ہو ۔
حامد میر کو قتل کرنے کی کوشش اتنی قبیح اور افسوس ناک ہے کہ اس کے محرکات میں سے کسی ایک کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے خاندان کے ممبران کے اس حق سے بھی انکار نہیں کہ وہ اپنے تمام خدشات کا کھل کر اظہار کریں۔ ان خدشات کی حقیقت سے قطع نظر ان میں اٹھائے گئے زاویے اور سوال ان جواب طلب معاملات کا حصہ ہیں۔ جو اس واقعہ نے نمایاں کیے ہیں۔ مگر یہ تمام تنازعہ گھمبیر صورت حال میں تبدیل ہو چکا ہے جو اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہو گی۔ عامر میر نے پاکستان کی ریاست کے اہم ترین عہدے داران میں سے ایک پر براہ راست سنگین الزام لگایا ہے۔ وہ ایک ذہین صحافی ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسندی کو تجزیاتی اور معلوماتی پہلوئوں سے سمجھنے والے بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں۔
میں ان کا ہر کالم پڑھتا ہوں اور ہمیشہ موضوع پر ان کی گہری گرفت کی داد دیتا ہوں، ان کو یقینا معلوم ہو گا کہ الزام چاہے کیسا ہو اس میں اور ثبوت میں سات جہانوں کا فرق اور فاصلہ موجود ہے۔ شک اور شبے کی بنیاد بھی کسی ایسی حقیقت پر مبنی ہونی چاہیے کہ سننے والا فوری طور پر اس کی صحت سے انکار نہ کر پائے۔ ثبوت اور وہ بھی اس قسم کے الزام کو سچا ثابت کرنے کے لیے تو ایسا ہوتا ہے کہ سامنے آتے ہی معاملہ مکمل طور پر واضح ہو جائے۔ ہم صحافی برسوں تمام تر کوشش کے باوجود اپنے اسلوب کی اتنی سی ضرورت پورا کرنے میں سر توڑ کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جس کے مطابق لکھی جانے والی معلومات کا ایک نہیں بلکہ دو ذرایع سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔
قتل کی سازش کا بیان دینے کے بعد اس کو ثابت کرنا اب ان کا اپنا درد سر ہے۔ میں اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا کہ الزام کے ہدف کو اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے۔ محترم انصار عباسی کا نقطہ نظر سر آنکھوں پر لیکن ڈی جی آئی ایس کے استعفی کا مطالبہ میری سمجھ سے بالا ہے۔ قبل از واقعہ خدشے کا اظہار قانونی چارہ جوئی کے لیے بھی کمزور بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے توسط کلیدی عہدہ داران کو ذمے داریاں چھوڑنے کی خواہش، غم کے اظہار کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے کسی روایت یا ضابطے کی تعمیل نہیں۔ اگر اس مطالبے کو مان لیا جائے تو کل کوصدر، وزیر اعظم، آرمی چیف، نیول چیف، ایئر فورس چیف، گورنر، وزراء سب کسی نہ کسی واقعے سے شک کی بنیاد پر جڑ جانے کے امکان کے زیر اثر بیٹھے ہوں گے ۔
ویسے بھی ان سطروں کے لکھے جانے تک لگائے گئے الزامات کی سمت میں قانونی چارہ جوئی کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوئی تھی۔ حامد میر کا اپنا بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ان کی طرف سے اس تمام واقعے پر کیا نقطہ نظر اپنا یا جائے گا اس کا سب کو بے چینی سے انتظار ہے۔ نیک خواہش رکھنے والے تمام دوستوں کے جذبات اپنی جگہ پر، قانونی کارروائی حامد میر کی ہدایات پر ہو گی۔ بد قسمتی سے حامد میر کے بولنے سے پہلے ہی اس تمام واقعے کو ایک خاص سمت موڑ کر ان کے ہاتھ بھی باندھ دیے گئے ہیں۔ جس وقت یہ الزامات اور تجزیئے کیے جا رہے تھے۔ قاتلانہ کوشش کا اصل ہدف زندگی اور موت کی کشمکش میں عمل جراحی سے گزر رہا تھا۔
صحتیابی کے عمل کے آغاز کے بعد اب کیا حامد میر تحقیق کے لیے کوئی اور زاویہ یا اشارہ بتلا پائیں گے۔ اگر وہ اپنے برادر اور دوستوں کی طرف سے حتمی بیانات کو محض ایک امکان کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں تو بھی ڈی جی آئی ایس آئی پر لگنے والی تہمت ایک سنجیدہ اور خوفناک مسئلے کے طور پر موجود رہے گی۔ آئینی طور پر کلیدی اداروں کی تضحیک پر پابندی ہے۔ دنیا بھر میں پائی جانیوالی بہترین پیشہ ورانہ روایات اس قسم کے ذاتی حملوں ( چاہے ان کا ہدف کوئی سویلین ہو یا عسکری نمایندہ، کوئی عام شہری ہو یا خاص شخصیت) کی ممانعت کرتی ہیں۔ اور پھر اگر کل کو تحقیقات کے نتیجے میں کوئی ایسا گروپ پکڑا جاتا ہے جس نے حامد میر کی زندگی چھیننے کی کوشش کی ہے تو پچھلے چھتیس گھنٹوں میں ریاستی اداروں کو ملوث کرنے کی کوشش کا دفاع کیا ہوگا۔
مجھے حکومت کی طرف سے ان الزامات پر کی جانے والی خاموشی پر بھی حیرت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام کے جواب میں بیان آئی ایس پی آر کی طرف سے نہیں وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے جاری ہونا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم کے تابع ہیں آرمی چیف کے نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر بناوٹی خوش مزاجی کے باوجود نو از لیگ اور ریاستی اداروں کے تعلقات ایسے رشتہ داروں کی طرح ہیں۔ جو دوسرے کو مشکل میں دیکھ کر کف افسوس تو ملتا ہے مگر اپنے منصب کے مطابق ذمے داری نہ اٹھا کر اصل میں دوسرے کو سبق سکھا رہا ہوتا ہے۔ حامد میر کے قتل کے گرد گھومنے والا تنازعہ اب صرف مجرموں کی گرفتاری سے طے ہو گا۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔