دامن کو ذرا دیکھ

بحیثیت سیاسیات اور صحافت کے ایک طالب علم، آزادیِ اظہار میری ضرورت ہے...


Muqtida Mansoor April 20, 2014
[email protected]

ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر بیشمار خرابیاں سرائیت کرچکی ہیں، وہیںفکری تشنج بھی اس مقام تک جا پہنچا ہے کہ تعمیری تنقیدی جائزے کے لیے گنجائش تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت لکھ یا بول لیتا ہے، تجزیہ نگار بن بیٹھا ہے۔ دوم، وہ افراد جو واضح سیاسی وابستگیاں رکھتے ہیں، بلکہ ان میں سے بیشتر سیاسی جماعتوں کے اراکین ہیں، وہ بھی تجزیہ نگار کہلانے لگے ہیں۔

سوم، ہر ریٹائرڈ فوجی افسر کو ہمارے ذرایع ابلاغ نے دفاعی تجزیہ نگارکا اعزاز بخش دیا ہے۔ یوں ذرایع ابلاغ کے ذریعے ایسی فکری آلودگی پھیل رہی ہے، جس نے پورے سیاسی و سماجی ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ خاص طور پر اردو اخبارات اور نشری اداروں نے ان رویوں اور طرزِ عمل کو زیادہ پھیلایا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوامی مزاج میں تشکیک اور تندی میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ غیر جانبدارانہ تجزیہ کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔

اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک انتہائی حساس اور نازک معاملے کو زیر بحث لاتے ہیں، جس پر رائے عامہ منقسم ہوچکی ہے۔ وہ معاملہ سابق صدر اور ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت چلنے والا مقدمہ ہے۔ اس مقدمے نے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو بھی منقسم کردیا ہے۔

لیکن یہ تقسیم انتہائی مضحکہ خیز اس لیے بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حامی حلقوں نے ان تمام صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو فوج کے حامیوں کی صف میں کھڑا کرکے انھیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے، جو اس مقدمہ میں پائے جانے والے اسقام کو سامنے لانے کے علاوہ اس بارے میں اٹھنے والے بعض اہم سوالات کو اپنے جائزوںمیں شامل کررہے ہیں اور ان کی روشنی میں پوری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سفید اور سیاہ کے درمیان ہمیشہ ایک گرے ایریا بھی ہوتا ہے۔ ایک غیر جانبدار سیاسی تجزیہ نگار اسی گرے ایریا پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس کی معروضی سیاسی صورتحال کو سمجھنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بے شک فوج 32 برس براہ راست اور کم و بیش اتنے ہی عرصے سے بالواسطہ طور پر ریاستی منصوبہ سازی پر اثر انداز چلی آرہی ہے۔ لیکن اس صورتحال کے اس مقام تک پہنچانے میں عمل سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی، نااہلی اور غیر ذمے دارانہ روش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ جب تاریخ کے تناظر میں سیاسی عمل کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی جماعتوں کی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے محض اس لیے صرف نظر کردیا جائے کہ نوزائیدہ جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے؟ یہ ایک احمقانہ اور غیر ذمے دارانہ دلیل ہے۔ اس طرزِ عمل سے نہ تو جمہوریت کو استحکام دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فوج کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ بلکہ سیاسی افراتفری میں مزید اضافے کاسبب بن سکتا ہے۔

بحیثیت سیاسیات اور صحافت کے ایک طالب علم، آزادیِ اظہار میری ضرورت ہے۔ اسی لیے میں فیشن کے طور پر نہیں بلکہ عملاً جمہوریت کا حامی ہوں۔ یہی سبب ہے کہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر آمر کی مخالفت میرے فکری رجحان کا حصہ ہے۔ لیکن آمریت کی مخالفت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزیوں پر محض اس لیے چپ سادھ لوں کہ میرے سوالات اٹھانے سے جمہوری نظمِ حکمرانی کو گزند پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار ہمیں آئین کی بالادستی اور قانون کی حاکمیت کا اصول سکھاتی ہیں۔ لہٰذا اس مقدمے کی جزئیات اور اس میں پائے جانے والی ناانصافی کے پہلوئوں پر سوالات اٹھانا ہر تجزیہ نگار کے علاوہ ہر متوشش شہری کی بھی اولین ذمے داری ہے۔

اس وقت ان گنت سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں، جو غیر جانبداری کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اول، آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کا مقدمہ اصولی طور پر 12 اکتوبر 1999 کے اقدامات پر بنتا ہے۔ دوم، اس مقدمہ میں ان تمام فوجی افسران کو نامزد کیا جائے جنھوں نے پرویز مشرف کے کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے سے قبل منتخب حکومت کے خلاف کارروائی کی۔ سوم، ان تمام سیاستدانوں کو بھی مقدمہ میں شامل کیا جائے، جنھوں نے 8 برس تک پرویز مشرف کا ساتھ دیا، جن میں سے بیشتر آج مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں شامل ہیں۔ چہارم، اس وقت کی عدلیہ کے ان ججوں کو اس مقدمہ میں شامل کیا جائے، جنھوں نے پرویز مشرف کو 3 برس کے لیے اقتدار میں رہنے اور آئین میں ترامیم کرنے کا غیر آئینی، قانونی جواز فراہم کیا۔

اگر حکومت 12 اکتوبر 1999 کے مقابلے میں 3 نومبر کے اقدام کو زیادہ قبیح سمجھتی ہے، تب بھی ان تمام فوجی اور سویلین عہدیداروں کو مقدمے کا حصہ بنایا جائے، جن سے جنرل پرویز مشرف نے مشاورت کی اور جو اس وقت کی کابینہ کا حصہ تھے۔ مگر حکومت کے اشارے پر مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور حکومت نواز صحافی بھی اس سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ 3 نومبر کے اقدامات کی تمام تر ذمے داری اکیلے پرویز مشرف پر عائد کردی جائے، تاکہ زاہد حامد سمیت ان تمام سیاستدانوں کو بچایا جاسکے جو آج مسلم لیگ (ن) کا حصہ ہیں۔

حالانکہ 3 نومبر کی وہ تقریر ہر چینل کے آرکائیو میں موجود ہے، جس کے آخری پیراگراف میں پرویز مشرف نے وزیراعظم، چاروں گورنروں، کور کمانڈروں اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مشاورت کا تذکرہ کیا ہے۔ خدا بھلا کرے معروف تاریخ دان عقیل عباس جعفری کا جنھوں نے اس تقریر کے اس حصے کو فیس بک پر پوسٹ کردیا ہے۔

اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آمریت میں ریاستی اداروں کو حکومت اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتی ہے، جب کہ جمہوریت میں اداروں کی آئینی بااختیاریت کو تسلیم کرنے کی روایت پائی جاتی ہے۔ مگر ماضی کے تجربات اور حالیہ 11 ماہ کی کارکردگی یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا جمہوریت اور جمہوری اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ محض اقتدار میں آنے کے لیے انتخابات کا جمہوری طریقہ اختیار کرتی ہے، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ لیکن جیسے ہی منتخب ہوتی ہے، خلیجی حکمرانوں کی طرز پر شہنشاہیت کا انداز اختیار کرلیتی ہے، یعنی اپنے خاندان والوں، برادری والوں اور اپنے شہر کے لوگوں کو پشتینی بادشاہوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرکے نوازنے لگتی ہے، ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بیوروکریسی میں تبدیلیاں شروع کردیتی ہے۔

اسی طرح جو کچھ کھیل جنرل ضیاء الحق نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکے مقدمے میں کھیلا، و ہی کھیل ان کی بغل بچہ جماعت مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق ہر قیمت پر بھٹو سے جان چھڑانا چاہتے تھے، اس وقت عدلیہ بھی غیر جانبدار نہیں تھی۔ آج ایک بار پھر تاریخ کے اسی سیاہ باب کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے، یعنی پرویز مشرف کے مقدمے میں ایک طرف حکمران جماعت کی بدنیتی (Malafide intention) شامل ہے، تو دوسری طرف عدلیہ کا Judicial Activism ہے۔

پھر عرض ہے کہ آئین شکنی کے مرتکب افراد خواہ وہ کتنی ہی بااثر اور طاقتور شخصیات کیوں نہ ہوں، ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔ لیکن نواب محمد احمد خان قتل کے مقدمے کی طرح نہیں، بلکہ پوری شفافیت کے ساتھ چلایا جائے، جس میں اپنے پسندیدہ افراد کو بچانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ بلکہ ان تمام افراد کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، جو اس جرم میں شریک تھے جو مشرف دور میں فیضیاب ہوتے رہے ہیں اور آج مسلم لیگ (ن) کی چھتری تلے مراعات اور سہولیات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

اس کے بعد ان تمام جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں کو اس مقدمے میں شامل کیا جائے جو 8 برس تک پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اگر جمہوریت کے استحکام کے بارے میں سنجیدہ ہے، تو پھر حقیقت پسندی کا ثبوت فراہم کرے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص پر آئینی شکنی کا مقدمہ، جب کہ آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں سے مذاکرات اور آمریت کو مستحکم کرنے والے جب اپنی صفوں میں آجائیں تو ان کے گناہوں کی معافی۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ: دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں