چھوٹا سا نوبل پرائز
گارشیا 1927ء میں"اراکاٹیکا"میں پیدا ہوا اُس کا والد اپنے بیٹے کونانا نانی کے پاس چھوڑ دوائیوں کے دھندے میں مصروف ہوگیا
بڑے لوگوں کے متعلق لکھنے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت اور کام کے زاویہ سے آپ ان سے انصاف نہیں کر پاتے۔ انصاف بھی شائد مناسب لفظ نہیں۔ مگر پھر بھی لکھنا ضروری ہے۔ اور آج کل کے حالات میں تو لکھنا اور بھی اشد ضروری! ہر شخص پیدا ہوتا ہے، کام کرتا ہے، شادی کے تجربہ سے بھی گزرتا ہے اور پھر خاک ہو جاتا ہے۔ لیکن صاحبان فہم! ہر انسان مٹی نہیں ہوتا۔ خاک بھی اُس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ جی ہاں! بالکل بے بس۔ شہر خموشاں کئی انسانوں کو دوبارہ زندہ کر دیتا ہے۔ ان کا کام ان کی روح بن کر ہر طرف ان کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ میں عظیم لکھاریوں کی کتابیں، ان کی پُر تاثیر شاعری اور ان کی بھر پُور زندگی میں سے کچھ بھی کشید نہیں کر سکا۔
گیبرئیل گارشیا مارکیز وہ عظیم لکھاری تھا جس نے دنیا کو ایک اچھوتے اور نایاب رنگ کا لافانی ادب دیا۔ میں اس امر کو بالکل اہم نہیں سمجھتا کہ وہ کس سال پیدا ہوا۔ مجھے اس بات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کس ملک میں پیدا ہوا۔ مجھے اُس کی ابتدائی زندگی میں صرف اس لیے دلچسپی ہے کیونکہ اُسکی شروع کی زندگی کی پر چھائیں اُس کے لکھے ہوئے ناولوں اور کہانیوں پر بہت گہری ہیں۔ اُس کے دادا، دادی اور اُسکا آبائی گھر اس کے لکھے ہوئے لفظوں میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ ایک خاص طریقہ کار سے لکھنے کا قائل نہیں تھا۔ پورا لاطینی امریکا اس کا دیوانہ تھا۔ اُس کو پیار سے"گابو" کہا جاتا تھا۔ گابو صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکا کی آواز اور پہچان بن چکا تھا۔
گارشیا 1927ء میں "اراکاٹیکا" میں پیدا ہوا۔ اُس کا والد اپنے بیٹے کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر دوائیوں کے دھندے میں مصروف ہو گیا۔ گابو کے نانا کا نام کرنل ریکارڈو تھا۔ وہ ایک مشہور جنگ لڑ چکا تھا۔ اُس جنگ کو مقامی لوگ" ایک ہزاردنوں کی جنگ" کا نام دیتے تھے۔ کرنل بذات خود ایک مقامی ہیرو کا درجہ رکھتا تھا۔ کرنل اپنے نواسے کو بہت مختلف طریقے سے پال رہا تھا۔ وہ اس بچے کو ڈکشنری میں سے سبق یاد کرواتا تھا۔ بچے کو سرکس میں لے جا کر عجیب و غریب چیزیں دکھاتا تھا۔ وہ اپنے نواسے کو کہانیاں سناتا رہتا تھا۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ ننھے منے بچے کو "معجزہ" کی طاقت بتاتا رہتا تھا۔
کرنل کا خیال تھا کہ دنیا میں ہر وقت معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ وہ بچے کو اکثر بتاتا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ وزن مرے ہوئے شخص کا ہوتا ہے۔ بقول کرنل کے ایک آدمی کو مارنے سے زیادہ کسی بھی واقعہ کا ذہنی وزن نہیں ہو سکتا۔ اس بچے کے لیے یہ چند سال ایک حیرت انگیز تجربہ تھے۔ وہ کرنل کے خیالات سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے تمام لکھنے پر اس پیریڈ کا بہت اثر ہوا بلکہ کسی حد تک گہرا اثر ہوا۔ وہ اپنے نانا کو "حقیقت اور تاریخ کے درمیان ایک تنی ہوئی رسی" گردانتا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کا ایک عملی پہلو بھی تھا۔ جب بچوں کو پریوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں، اس وقت کرنل اپنے نواسے کو "سول وار" کے ہولناک قصے سناتا تھا۔
اوائل عمری ہی سے یہ بچہ لبرل خیالات سے روشناس ہو چکا تھا۔ یہ خیالات اس کے ساتھ رہے اور اس کی پہچان بن گئے۔ گابو نے کولمبیا کے لکھاریوں کے فکری جمود کو بھی اپنے خیالات کی بنیاد پر ہمیشہ چیلنج کیا۔ اس عرصے میں گابو کی دادی نے بھی اپنے نواسے پر بہت محنت کی۔ وہ اس بچے کو ہر وقت جادو اور جن بھوتوں کے کارنامے سناتی رہتی تھی۔ اس بوڑھی عورت کی ایک اپنی دنیا تھی۔ وہ ان تمام کرداروں کو حقیقت سمجھتی تھی۔ اس نے ننھے بچے کو بارہا بتایا تھا کہ جس گھر میں وہ رہتا ہے، اس میں بہت سے جن اور پریاں بھی رہتیں ہیں۔ وہ اسے سمجھاتی تھی کہ اس مافوق الفطرت مخلوق کے ساتھ بالکل نارمل انداز میں زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ کہانیاں اور خیالات گابو کے عظیم الشان ناول" تنہائی کے سو سال" کی بنیاد بنے۔
گابو نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی بھی اس فیلڈ کو نہیں اپنائے گا۔ اس نے صحافت میں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے یہ سفر"ایل یونیورسل" نام کے اخبار سے شروع کیا۔ پھر وہ"ایل ہیرالڈر" نام کے اخبار سے وابستہ ہو گیا۔ وہ اس کو ایک کالم لکھنے کے صرف "تین پیسو" دیتے تھے۔ وہ لکھاریوں کی ایک انجمن Barran Quilla Group کا رکن بن گیا۔ اس جگہ اسے اپنے وقت کے ناقابل فراموش لکھنے والوں سے قربت کا موقعہ ملا۔ ان میں رامون دائنز سرفہرست تھا۔
اس کو بہت سے ادیبوں کا کام دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ جس میں ولیم فالکنر اور ورجیناء وولف شامل تھے۔ اس تجربے نے گابو کے قلم اور فکر کو گہرائی بخش دی۔ وہ اس کے بعد ودنیز ویلا میں بھی اخبار میں کام کرتا رہا۔ "ارچا" سے شادی کے بعد " گابو" میکسیکو چلا گیا۔ وہاں جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ولیم فالکنر اس ماحول سے متاثر ہو کر لکھتا رہا تھا۔" گابو" اسی تجربے سے گزرنا چاہتا تھا۔
اس کا پہلا ناول"Leaf Storm" تھا۔ وہ اپنا ناول لکھنے کے بعد مختلف پبلشرز کے پاس دھکے کھاتا رہا مگر کسی نے بھی اس ناول کو قابل اشاعت نہیں سمجھا۔ اس کو پبلشر ڈھونڈنے میں سات سال کا عرصہ لگا۔ کسی نے بھی شایع ہونے کے بعد بھی اس ناول پر توجہ نہیں دی۔ حالانکہ گابو اس کو اپنا شاہکار گردانتا تھا۔ گابو نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک دن وہ اپنے خاندان کے ساتھ گاڑی چلا کر Acapulco جا رہا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں اپنے نئے ناول کا خاکہ آ گیا۔ وہ فورًا واپس آ گیا۔ اس کے معاشی حالات قطعاً ایسے نہیں تھے کہ وہ گھر بیٹھ کر لکھ سکے۔
اس کا واحد اثاثہ اس کی پرانی سی کار تھی۔ اس نے وہ گاڑی بیچ کر تمام پیسے اپنی بیوی کو دے دیے۔ اس کا خیال تھا کہ پیسے ختم ہونے تک اس کا نیا ناول مکمل ہو جائے گا۔ مگر وہ غلط سوچ رہا تھا۔ وہ روزانہ سارا سارا دن لکھتا تھا۔ اس کے دیے ہوئے پیسے ختم ہو گئے۔ کئی ماہ تک وہ گھر کا کرایہ دینے سے قاصر رہا۔ کریانہ فروش سے ادھار لے کر اس کی بیوی گھر کا نظام چلانے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ گابو کا بال بال قرضے میں بندھ گیا۔ ناول مکمل ہونے میں اٹھارہ ماہ لگ گئے۔ جس گھر میں صرف چار پانچ ماہ کا زادِ راہ ہوں، وہاں ڈیڑھ سال کا عرصہ کیسا گزرا ہو گا۔ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
اس نئے ناول کا نام"سو سال کی تنہائی" تھا۔ وہ مقامی زبان میں لکھا گیا۔ یہ معاشی طور پر کامیاب ہونے والا"گابو"کا پہلا ناول تھا۔ 1967ء میں اس نے دنیا میں تہلکا مچا دیا۔ اس کو فوراً انگریزی زبان میں ترجمہ کر دیا گیا۔ اس نے مقروض "گابو" کو دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شخصیت بنا دیا۔ اس کو اس ناول پر انتہائی معتبر ایوارڈ Romulo Gallegos ملا۔ گابو اپنی بیمثال کامیابی کو ہمیشہ کمتر سمجھتا رہا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ ناول دراصل ایک مذاق ہے۔ یہ تو اس کے دوستوں کی کہانی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس ناول میں کئی غیبی اشارے بھی ہیں مگر ان غیبی اشاروں کو سمجھنے سے انسان اپنا مذاق خود بنوا لے گا۔
اس کے بعد"گابو" اسپین شفٹ ہو گیا۔ وہاں وہ سات سال رہا۔ اب وہ ایک قد آور شخصیت تھا۔ اس نے کولمبیا کی حکومت اور باغیوں کے درمیان کئی امن معاہدے کروائے۔ دنیا کے کئی اہم لوگ اس کے ذاتی دوست تھے جس میں کیوبا کاصدر "فیڈل کاسترو" بھی شامل تھا۔ گارشیا امریکا کے سخت ترین ناقدین میں سے تھا۔ وہ لکھتا رہتا تھا کہ امریکا دنیا میں بہتر تبدیلی نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بہت عرصے تک اس کو امریکا کا ویزہ نہ دیا گیا۔ اس کے امریکا کے سفر پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ چند سال پہلے جب بل کلنٹن امریکا کا صدر بنا تو یہ پابندی ہٹا دی گئی۔ کلنٹن نے پابندی اٹھاتے ہوئے بتایا کہ "سو سال کی تنہائی" ناول اس کا پسندیدہ ترین ناول ہے۔ 1982ء میں گابو کو ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔
گابو نے عجیب و غریب ناول لکھے۔ وہ حیرت انگیز حد تک عام لکھنے والوں سے مختلف تھا۔ جیسے "موت کا پیشگی سفر نامہ"، ہیضے کی وبا کے عالم میں محبت"، "مضبوط انسان کا خزاں" ، "اغوا ہونے کی خبر" اور اس جیسے بے شمار ناول اس کے یاقوتی قلم سے لوگوں کے سامنے آئے۔ 1999ء میں گابو کو کینسر ہو گیا۔ علاج سے اس کی بیماری کافی حد تک کنٹرول ہو گئی۔ گابو کو اب وقت کی قلت کا احساس ہوا۔ اس نے ٹھیک ہونے کے بعد اپنا رویہ مکمل طور پر تبدیل کر لیا۔ اس نے گھر کے ٹیلیفون کے تار کاٹ دیے۔ اپنے دوستوں سے مکمل ترکِ تعلق کر لیا، گھر سے باہر آنا جانا اور لوگوں سے ملنا بالکل بند کر دیا۔ وہ ایک کمرے میں بند ہو گیا۔ یا یوں کہیے کہ اس نے اپنے آپ کو قید کر لیا۔ وہ اپنی اس قید میں تین سال رہا۔ یہاں اس نے اپنی زندگی کے تمام واقعات کو تین جلدوں میں مقید کر ڈالا۔ یہ اس کی ایک اور عظیم ادبی تخلیق تھی۔
اس مہینے "گابو" آسودۂ خاک ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کولمبیا کے صدر نے اس کی موت پر کہا کہ اصل میں ایک مفکر یا ادیب دنیا سے نہیں گیا، بلکہ اس کے ملک کا بادشاہ آج اس دنیا میں نہیں رہا۔ مجھے اپنے ملک میں "گابو" جیسے لکھنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہمارے پاس خوف کے سایہ میں لکھنے والوں کی ایک بہت طویل لکیر ہے جو تقلید کے قلم سے مسلسل ایک جیسا لکھ رہے ہیں۔ گیبرئیل گارشیا مارکیز ایک عظیم ادیب نہیں تھا۔ وہ ایک نایاب لکھاری تھا۔ اپنی طرح کا صرف ایک۔ اس کے قد کے سامنے نوبل پرائز بھی بہت کمتر نظر آتا ہے۔ اس ادبی جن نے تو ادب کے نوبل پرائز کو حقیقت میں بونا بنا دیا ہے! بلکہ بہت ننھا سا کر دیا ہے! اس کے سامنے یہ عظیم ادبی انعام صرف ایک عاجز سا نوبل پرائز بن کر رہ گیا ہے!
گیبرئیل گارشیا مارکیز وہ عظیم لکھاری تھا جس نے دنیا کو ایک اچھوتے اور نایاب رنگ کا لافانی ادب دیا۔ میں اس امر کو بالکل اہم نہیں سمجھتا کہ وہ کس سال پیدا ہوا۔ مجھے اس بات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کس ملک میں پیدا ہوا۔ مجھے اُس کی ابتدائی زندگی میں صرف اس لیے دلچسپی ہے کیونکہ اُسکی شروع کی زندگی کی پر چھائیں اُس کے لکھے ہوئے ناولوں اور کہانیوں پر بہت گہری ہیں۔ اُس کے دادا، دادی اور اُسکا آبائی گھر اس کے لکھے ہوئے لفظوں میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ ایک خاص طریقہ کار سے لکھنے کا قائل نہیں تھا۔ پورا لاطینی امریکا اس کا دیوانہ تھا۔ اُس کو پیار سے"گابو" کہا جاتا تھا۔ گابو صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکا کی آواز اور پہچان بن چکا تھا۔
گارشیا 1927ء میں "اراکاٹیکا" میں پیدا ہوا۔ اُس کا والد اپنے بیٹے کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر دوائیوں کے دھندے میں مصروف ہو گیا۔ گابو کے نانا کا نام کرنل ریکارڈو تھا۔ وہ ایک مشہور جنگ لڑ چکا تھا۔ اُس جنگ کو مقامی لوگ" ایک ہزاردنوں کی جنگ" کا نام دیتے تھے۔ کرنل بذات خود ایک مقامی ہیرو کا درجہ رکھتا تھا۔ کرنل اپنے نواسے کو بہت مختلف طریقے سے پال رہا تھا۔ وہ اس بچے کو ڈکشنری میں سے سبق یاد کرواتا تھا۔ بچے کو سرکس میں لے جا کر عجیب و غریب چیزیں دکھاتا تھا۔ وہ اپنے نواسے کو کہانیاں سناتا رہتا تھا۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ ننھے منے بچے کو "معجزہ" کی طاقت بتاتا رہتا تھا۔
کرنل کا خیال تھا کہ دنیا میں ہر وقت معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ وہ بچے کو اکثر بتاتا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ وزن مرے ہوئے شخص کا ہوتا ہے۔ بقول کرنل کے ایک آدمی کو مارنے سے زیادہ کسی بھی واقعہ کا ذہنی وزن نہیں ہو سکتا۔ اس بچے کے لیے یہ چند سال ایک حیرت انگیز تجربہ تھے۔ وہ کرنل کے خیالات سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے تمام لکھنے پر اس پیریڈ کا بہت اثر ہوا بلکہ کسی حد تک گہرا اثر ہوا۔ وہ اپنے نانا کو "حقیقت اور تاریخ کے درمیان ایک تنی ہوئی رسی" گردانتا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کا ایک عملی پہلو بھی تھا۔ جب بچوں کو پریوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں، اس وقت کرنل اپنے نواسے کو "سول وار" کے ہولناک قصے سناتا تھا۔
اوائل عمری ہی سے یہ بچہ لبرل خیالات سے روشناس ہو چکا تھا۔ یہ خیالات اس کے ساتھ رہے اور اس کی پہچان بن گئے۔ گابو نے کولمبیا کے لکھاریوں کے فکری جمود کو بھی اپنے خیالات کی بنیاد پر ہمیشہ چیلنج کیا۔ اس عرصے میں گابو کی دادی نے بھی اپنے نواسے پر بہت محنت کی۔ وہ اس بچے کو ہر وقت جادو اور جن بھوتوں کے کارنامے سناتی رہتی تھی۔ اس بوڑھی عورت کی ایک اپنی دنیا تھی۔ وہ ان تمام کرداروں کو حقیقت سمجھتی تھی۔ اس نے ننھے بچے کو بارہا بتایا تھا کہ جس گھر میں وہ رہتا ہے، اس میں بہت سے جن اور پریاں بھی رہتیں ہیں۔ وہ اسے سمجھاتی تھی کہ اس مافوق الفطرت مخلوق کے ساتھ بالکل نارمل انداز میں زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ کہانیاں اور خیالات گابو کے عظیم الشان ناول" تنہائی کے سو سال" کی بنیاد بنے۔
گابو نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی بھی اس فیلڈ کو نہیں اپنائے گا۔ اس نے صحافت میں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے یہ سفر"ایل یونیورسل" نام کے اخبار سے شروع کیا۔ پھر وہ"ایل ہیرالڈر" نام کے اخبار سے وابستہ ہو گیا۔ وہ اس کو ایک کالم لکھنے کے صرف "تین پیسو" دیتے تھے۔ وہ لکھاریوں کی ایک انجمن Barran Quilla Group کا رکن بن گیا۔ اس جگہ اسے اپنے وقت کے ناقابل فراموش لکھنے والوں سے قربت کا موقعہ ملا۔ ان میں رامون دائنز سرفہرست تھا۔
اس کو بہت سے ادیبوں کا کام دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ جس میں ولیم فالکنر اور ورجیناء وولف شامل تھے۔ اس تجربے نے گابو کے قلم اور فکر کو گہرائی بخش دی۔ وہ اس کے بعد ودنیز ویلا میں بھی اخبار میں کام کرتا رہا۔ "ارچا" سے شادی کے بعد " گابو" میکسیکو چلا گیا۔ وہاں جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ولیم فالکنر اس ماحول سے متاثر ہو کر لکھتا رہا تھا۔" گابو" اسی تجربے سے گزرنا چاہتا تھا۔
اس کا پہلا ناول"Leaf Storm" تھا۔ وہ اپنا ناول لکھنے کے بعد مختلف پبلشرز کے پاس دھکے کھاتا رہا مگر کسی نے بھی اس ناول کو قابل اشاعت نہیں سمجھا۔ اس کو پبلشر ڈھونڈنے میں سات سال کا عرصہ لگا۔ کسی نے بھی شایع ہونے کے بعد بھی اس ناول پر توجہ نہیں دی۔ حالانکہ گابو اس کو اپنا شاہکار گردانتا تھا۔ گابو نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک دن وہ اپنے خاندان کے ساتھ گاڑی چلا کر Acapulco جا رہا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں اپنے نئے ناول کا خاکہ آ گیا۔ وہ فورًا واپس آ گیا۔ اس کے معاشی حالات قطعاً ایسے نہیں تھے کہ وہ گھر بیٹھ کر لکھ سکے۔
اس کا واحد اثاثہ اس کی پرانی سی کار تھی۔ اس نے وہ گاڑی بیچ کر تمام پیسے اپنی بیوی کو دے دیے۔ اس کا خیال تھا کہ پیسے ختم ہونے تک اس کا نیا ناول مکمل ہو جائے گا۔ مگر وہ غلط سوچ رہا تھا۔ وہ روزانہ سارا سارا دن لکھتا تھا۔ اس کے دیے ہوئے پیسے ختم ہو گئے۔ کئی ماہ تک وہ گھر کا کرایہ دینے سے قاصر رہا۔ کریانہ فروش سے ادھار لے کر اس کی بیوی گھر کا نظام چلانے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ گابو کا بال بال قرضے میں بندھ گیا۔ ناول مکمل ہونے میں اٹھارہ ماہ لگ گئے۔ جس گھر میں صرف چار پانچ ماہ کا زادِ راہ ہوں، وہاں ڈیڑھ سال کا عرصہ کیسا گزرا ہو گا۔ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
اس نئے ناول کا نام"سو سال کی تنہائی" تھا۔ وہ مقامی زبان میں لکھا گیا۔ یہ معاشی طور پر کامیاب ہونے والا"گابو"کا پہلا ناول تھا۔ 1967ء میں اس نے دنیا میں تہلکا مچا دیا۔ اس کو فوراً انگریزی زبان میں ترجمہ کر دیا گیا۔ اس نے مقروض "گابو" کو دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شخصیت بنا دیا۔ اس کو اس ناول پر انتہائی معتبر ایوارڈ Romulo Gallegos ملا۔ گابو اپنی بیمثال کامیابی کو ہمیشہ کمتر سمجھتا رہا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ ناول دراصل ایک مذاق ہے۔ یہ تو اس کے دوستوں کی کہانی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس ناول میں کئی غیبی اشارے بھی ہیں مگر ان غیبی اشاروں کو سمجھنے سے انسان اپنا مذاق خود بنوا لے گا۔
اس کے بعد"گابو" اسپین شفٹ ہو گیا۔ وہاں وہ سات سال رہا۔ اب وہ ایک قد آور شخصیت تھا۔ اس نے کولمبیا کی حکومت اور باغیوں کے درمیان کئی امن معاہدے کروائے۔ دنیا کے کئی اہم لوگ اس کے ذاتی دوست تھے جس میں کیوبا کاصدر "فیڈل کاسترو" بھی شامل تھا۔ گارشیا امریکا کے سخت ترین ناقدین میں سے تھا۔ وہ لکھتا رہتا تھا کہ امریکا دنیا میں بہتر تبدیلی نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بہت عرصے تک اس کو امریکا کا ویزہ نہ دیا گیا۔ اس کے امریکا کے سفر پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ چند سال پہلے جب بل کلنٹن امریکا کا صدر بنا تو یہ پابندی ہٹا دی گئی۔ کلنٹن نے پابندی اٹھاتے ہوئے بتایا کہ "سو سال کی تنہائی" ناول اس کا پسندیدہ ترین ناول ہے۔ 1982ء میں گابو کو ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔
گابو نے عجیب و غریب ناول لکھے۔ وہ حیرت انگیز حد تک عام لکھنے والوں سے مختلف تھا۔ جیسے "موت کا پیشگی سفر نامہ"، ہیضے کی وبا کے عالم میں محبت"، "مضبوط انسان کا خزاں" ، "اغوا ہونے کی خبر" اور اس جیسے بے شمار ناول اس کے یاقوتی قلم سے لوگوں کے سامنے آئے۔ 1999ء میں گابو کو کینسر ہو گیا۔ علاج سے اس کی بیماری کافی حد تک کنٹرول ہو گئی۔ گابو کو اب وقت کی قلت کا احساس ہوا۔ اس نے ٹھیک ہونے کے بعد اپنا رویہ مکمل طور پر تبدیل کر لیا۔ اس نے گھر کے ٹیلیفون کے تار کاٹ دیے۔ اپنے دوستوں سے مکمل ترکِ تعلق کر لیا، گھر سے باہر آنا جانا اور لوگوں سے ملنا بالکل بند کر دیا۔ وہ ایک کمرے میں بند ہو گیا۔ یا یوں کہیے کہ اس نے اپنے آپ کو قید کر لیا۔ وہ اپنی اس قید میں تین سال رہا۔ یہاں اس نے اپنی زندگی کے تمام واقعات کو تین جلدوں میں مقید کر ڈالا۔ یہ اس کی ایک اور عظیم ادبی تخلیق تھی۔
اس مہینے "گابو" آسودۂ خاک ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کولمبیا کے صدر نے اس کی موت پر کہا کہ اصل میں ایک مفکر یا ادیب دنیا سے نہیں گیا، بلکہ اس کے ملک کا بادشاہ آج اس دنیا میں نہیں رہا۔ مجھے اپنے ملک میں "گابو" جیسے لکھنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہمارے پاس خوف کے سایہ میں لکھنے والوں کی ایک بہت طویل لکیر ہے جو تقلید کے قلم سے مسلسل ایک جیسا لکھ رہے ہیں۔ گیبرئیل گارشیا مارکیز ایک عظیم ادیب نہیں تھا۔ وہ ایک نایاب لکھاری تھا۔ اپنی طرح کا صرف ایک۔ اس کے قد کے سامنے نوبل پرائز بھی بہت کمتر نظر آتا ہے۔ اس ادبی جن نے تو ادب کے نوبل پرائز کو حقیقت میں بونا بنا دیا ہے! بلکہ بہت ننھا سا کر دیا ہے! اس کے سامنے یہ عظیم ادبی انعام صرف ایک عاجز سا نوبل پرائز بن کر رہ گیا ہے!