وی وی آئی پی کلچر اور عوام

کسی بھی ملک میں وی وی آئی پیز کی وبا اتنی نہیں ہے جتنی پاکستان میں ہے...

ماضی میں ملک کے نہایت اہم عہدوں پر تعینات رہنے والی ایک اہم شخصیت ایک ٹی وی چینل کے پروگرام سے فارغ ہوئی تو پروگرام کے ذمے دار ڈائریکٹر نے انھیں میزنائن فلور پر واقع اپنے دفتر سے الوداع کہا اور اہم شخصیت جو سوٹ میں ویسے ہی منفرد نظر آرہی تھی۔ لفٹ کی بجائے سیڑھیوں سے اتر کر اپنی گاڑی کی طرف جانے لگی تو وہ تنہا تھے انھیں دیکھ کر سیڑھیوں میں یا گاڑی کے مقام تک انھیں درجنوں افراد نے دیکھا مگر نہ انھیں سلام کیا نہ پہچانا حالانکہ ان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے اور شہر میں جاری بدامنی کے باوجود وہ اطمینان سے آکر گاڑی میں بیٹھے اور اپنے گھر روانہ ہوگئے۔

شہر کی یہ اہم شخصیت گورنر اور وفاقی وزیر داخلہ بھی رہ چکی ہیں اور اب عام شہری ہیں اور سرکاری اہم عہدوں پر تعیناتی کے دوران ان کا رعب اور کروفر دیکھنے جیسا تھا اور کوئی عام شخص ان کے قریب سے بھی نہ گزر سکتا تھا مگر اب وہ عام شخص کی طرح عام لوگوں کے درمیان سے گزرے اور انھیں نہ جاننے والوں نے انھیں دیکھا نہ سلام کیا حالانکہ کچھ دیر قبل ہی وہ ٹی وی چینل پر چلنے والے پروگرام میں لائیو دیکھے جا رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد اسی پروگرام میں شامل ایک صوبائی وزیر بھی تھے وہ جب جانے لگے تو ان کے ساتھ آنے والے سپاہیوں کو دیکھ کر معلوم ہوگیا کہ کوئی وی آئی پی ہے جس کی گاڑی کے ہوٹر نے سب کو چوکنا کردیا تھا۔

یہ وی آئی پی کلچر کی ایک واضح مثال ہے جس میں ایک شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ کر چاہتا ہے کہ سرکاری طور پر ملے ہوئے پولیس اہلکاروں کے جھرمٹ میں وہ گھر یا دفتر سے نکلے تو سب سے پہلے اس کی حفاظت پر مامور سرکاری اہلکار اسے سلیوٹ کریں۔ آگے پیچھے چلنے والی سرکاری گاڑیوں میں موجود سیکیورٹی اہلکار اس کی گاڑی کے قریب کسی شخص کو تو کیا کسی اور گاڑی کو بھی نہ آنے دیں۔ اس کے روٹ پر جگہ جگہ تعینات سرکاری اہلکار اس کی جھنڈا لہراتی گاڑی کو دیکھ کر اسے سلیوٹ کرتے رہیں۔

حفاظت نہایت ہی ضروری ہے۔ اہم عہدوں پر تعینات اہم افراد چاہتے ہیں کہ ان کے گزرنے کے دوران سڑکیں بند ہوں سرکاری گاڑیوں کے ہوٹر بتا رہے ہوں کہ صاحب بہادر گزر رہے ہیں اور صاحب بہادر عام لوگوں سے دور رہ کر منفرد انداز میں گزریں سرکاری طور پر سفر کی بات ہی الگ ہے۔ ان کے اطراف ہر چیز سرکاری ہے جو ان کی اہمیت کو اجاگر اور انھیں عوام سے دور کردیتی ہے۔ اسی طرح کی وی وی آئی پی موومنٹ نے پورے ملک خصوصاً وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں رہنے والوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں سڑکیں بند اور ٹریفک جام رہنا معمول بنا ہوا ہے۔ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے سڑکیں بند کردی جاتی ہیں اور یہ عمل بھی وی وی آئی پی کے گزرنے سے کافی پہلے کیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو کرفیو کا سماں پیدا کیا جاتا ہے۔

صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ کی آمدو رفت پر تو یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہوجاتی ہے ان کے پورے روٹ پر پولیس اہلکار گھنٹوں قبل کھڑے کردیے جاتے ہیں۔


یہ بھی شکر ہے کہ وفاقی وزرا زیادہ تر اپنے علاقوں تک ہی آتے جاتے ہیں اور بہت کم ہی ملک گیر دورے کرتے ہیں اور ان کی خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنے شاندار دفاتر میں بیٹھے حکم چلاتے، افسران کو فون کرتے رہیں اور ان سے ملنے کے لیے دور دراز کے یا ان کے حلقہ انتخاب کے عام لوگ ان کے دفتر میں ان سے ملنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے رہیں اور وہ وزیر موصوف کے متعلقہ عملے سے صاحب کے فارغ ہونے کا پوچھیں تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ وزیر صاحب اندر میٹنگ کر رہے ہیں جب کہ اس کے برعکس وزیر موصوف کے کمرے میں ارکان اسمبلی، بڑے زمیندار، افسران اور خوشامدی بیٹھے ہوئے گپیں مارتے اور چائے بسکٹ سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

جب وزیر صاحب جانے کے لیے گاڑی لگانے کا کہتے ہیں تو انھیں ملاقاتیوں کا بتایا جاتا ہے جس پر وزیر موصوف موڈ میں ہوں تو جلدی جان چھڑانے کے لیے سب ملاقاتیوں کو بلانے کا کہہ دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے ہجوم میں ملنے والوں کے آنے کا مقصد پورا ہوتا ہے نہ ان کا کام ہوتا ہے اور ان کی درخواستیں وصول کرنے کا کہہ کر وزیر موصوف اہم میٹنگ میں جانے کا کہہ کر نکل جاتے ہیں اور ان کی منزل کوئی دعوت یا اپنے سرکاری گھر جانا ہوتا ہے اور جب وہ دفتر سے نکلتے ہیں تو سیکریٹریٹ کا عملہ اور سڑک پر موجود اہلکار جھنڈا لگی گاڑی میں اکڑ کر بیٹھے وزیر کو سلیوٹ کرتا ہے تو فخر سے گردن مزید تن جاتی ہے اور سرکاری گھر پر تعینات اہلکاروں تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

میرے واقف کار جب پہلے وزیر بن کر اپنے حلقے میں آئے تو اپنے زبردست استقبال، ہوائی فائرنگ، سپاہیوں کے سلیوٹوں اور لوگوں کے سلاموں پر انتہائی خوش ہوکر کہنے لگے کہ جگہ جگہ سے گزرتے ہوئے سپاہیوں کے سلیوٹوں کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور افسروں کی نیاز مندی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

کسی کے وزیر یا اہم عہدہ ملنے پر سب سے پہلے افسران اسے اپنے چنگل میں لے کر عوام سے دور کردیتے ہیں اور عوام کے بتائے گئے حقائق کی بجائے افسران جو کچھ بتاتے ہیں اس پر وزیر موصوف کو یقین آجاتا ہے اور یہ عوام سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں وی وی آئی پیز کی وبا اتنی نہیں ہے جتنی پاکستان میں ہے۔ وزیر ہی کیا اب تو 18 گریڈ سے تعلق بنتے ہی انتظامی افسران بھی کئی کئی گاڑیوں میں سفر کرنے لگے ہیں۔

سرکاری مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ وی وی آئی پیز عوام میں منفرد نظر آنے کے لیے قیمتی سوٹوں کا ضرور استعمال کرتے ہیں بلکہ گزشتہ حکومت میں تو ان وی وی آئی پیز میں مہنگے سے مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ بھی ہوتا تھا جو بیرون ملک سلوائے جاتے تھے۔ سابق صدر اور وزیر اعظم سوٹوں کے زیادہ ہی شوقین رہے ہیں اور اب سابق ہونے کے بعد یہ استعمال کم ہوا ہے۔

اقتدار میں آکر عوام سے دور رہنے کی وجہ دہشت گردی قرار دی جاتی ہے مگر اقتدار کے بعد یہی لوگ سرکاری سیکیورٹی سے دور ہوجاتے ہیں تو انھیں کوئی خطرہ لاحق نہیں رہتا اور انھیں عوام بھی یاد آجاتے ہیں۔ بیوروکریٹ وی وی آئی پیز اپنے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے عوام سے ویسے ہی دور رہتے ہیں اور اب سیاسی وی وی آئی پیز بھی عوام سے دور رہنے لگے ہیں اور وہ صرف عام انتخابات کے موقع پر عوام کے قریب آتے ہیں اور وی وی آئی پیز کلچر اور سوٹوں نے عوام اور ان کے درمیان خلیج حائل کر رکھی ہے۔
Load Next Story