اطراف
بیگم نسیم ولی خان میدان سیاست میں اتر آئی ہیں گویا ہر طرف سے عوام پر یلغار جاری ہے ...
ایک طرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) ہے، شدید دباؤ کا شکار، سخت امتحان میں مبتلا۔ پرویز مشرف نے اس جماعت اور اس کے لیڈروں کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ ایک سابق سپہ سالار اس پر شدید ترین الزامات، مقدمات۔ اعلیٰ عدالتوں میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی اتنے بڑے اعلی عہدیدار کو گرفتار کیا گیا، اس کے گھر کو جیل قرار دیا گیا، اور اس جیل میں ملزم کو بند کردیا گیا۔ پرویز مشرف جیل سے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے، ملزم کے وکلا مکمل آزادی سے (بلکہ دو چار ہاتھ آگے) عدالتوں میں کھل کر بات کرتے رہے۔ ان کا رویہ جارحانہ بھی رہا۔ یہ سب ہوتا رہا۔
اعلیٰ عدالتیں آگے بڑھتی رہیں حتیٰ کہ وہ دن آگیا کہ جب ملزم پرویز مشرف سابق صدر اسلامی جمہوری پاکستان پر فرد جرم عاید کرنا تھی۔ ملزم سابق صدر پرویز مشرف اپنے گھر چک شہزاد کے فارم ہاؤس (جیل) سے عدالت جانے کے لیے نکلے سخت مسلح گاڑیوں کے کانوائے کے جھرمٹ میں مشرف صاحب جا رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوائے نے رستہ بدل لیا اور پھر بڑی تیزی سے صاحب کو راولپنڈی کے ایک بڑے اسپتال میں پہنچادیا گیا۔ پتا چلا کہ صاحب کے دل میں تکلیف ہوئی ہے۔ اور پھر یہ تکلیف تقریباً 80 دنوں تک جاری رہی۔
اس دوران عدالت جنرل پرویز مشرف کو بلاتی رہی اور جواباً ان کے معالج سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہے کہ مریض عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتا پھر مریض کے بیرون ملک علاج کے لیے عدالت میں درخواست دی گئی، مگر ملزم کا نام ای سی ایل میں ہونے کی وجہ رکاوٹ بن گئی۔ پھر مشرف صاحب کی ضعیف والدہ کی شدید علالت کو بنیاد بناکر عدالت میں درخواست داخل کی گئی کہ انسانی اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے ملزم کو اپنی والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے۔ اس درخواست کے ساتھ ہی پرویز مشرف عدالت میں بھی پیش ہوگئے۔ جہاں ان کو فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی۔
جسے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ملزم نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کے روبرو وضاحتی تقریر بھی کی۔ عدالت نے کارروائی مکمل کرتے ہوئے باہر جانے کی درخواست پر حکم دیا کہ ای سی ایل میں ملزم کا نام حکومت نے ڈالا ہے اور اس بارے میں حکومت سے رجوع کیا جائے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے اسی روز یہ درخواست حکومت کو بھجوادی، جس میں کہا گیا تھا کہ ضعیف والدہ کی تیمارداری اور اپنے بیرون ملک علاج معالجے کے لیے ملزم کا نام ای سی ایل سے خارج کرتے ہوئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
اب یہاں سے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور ان کے لیڈروں کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ملک میں یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ ملزم صاحب کو سزا نہیں ہو گی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے مرکزی رہنماؤں، کابینہ کے اراکین سے مشاورت کی اور سابق صدر پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کردی۔ اور بیان جاری ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں داخل کیا گیا تھا اور اعلیٰ عدالت ہی اس بارے میں فیصلہ دینے کی مجاز ہے۔ چلیے حکومت نے سپریم کورٹ میں گیند اچھال دی ہے مگر کتنا سخت امتحان تھا اور ہے کہ جس میں مرکزی حکومت مبتلا ہے۔ پرویز مشرف کو آزاد کرکے باہر جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت اور اس کے ساتھیوں کے لیے صوبہ بلوچستان ضرور سامنے ہوگا۔ ایک بوڑھا بلوچ نواب اکبر بگٹی کا قتل۔۔۔۔
دوسری طرف ایک اور کڑے امتحان سے مسلم لیگ (ن) گزر رہی ہے اور یہ ہے طالبان سے مذاکرات ۔ ایک ماہ سے اوپر ہوگیا ''جنگ بندی'' جاری ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ سے خودکش حملے اور بم دھماکے پورے ملک میں بند ہیں، گو اکا دکا واقعات بھی ہوئے ہیں جو منحرف طالبان گروپوں کی طرف سے کیے گئے۔ یہاں بھیحکومت کی فہم و فراست کا امتحان تھا۔ ورنہ ایک وقت تھا کہ تقریر تیار تھی اور طبل جنگ بھی بجنے کو تیار تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ طبل جنگ کی حامی تھیں، مگر وقتی طور سے ہی سہی ملک مزید خون ریزی سے بچ گیا اور اس امتحان میں بھی حکمراں جماعت کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
اب تیسری طرف کی بات ہوجائے، پاکستان کے انتخابات 2013 میں ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بن گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے پندرہ ارکان نے اپنی صوبائی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔ باغیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے قائد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا انقلابی قائد ہماری بات ضرور سنے گا۔ عمران خان نے اسی حوالے سے یہ کہا ہے کہ لوگوں نے تحریک انصاف کے نام پر امیدواروں کو ووٹ دیے ہیں اور اگر مجھے محسوس ہوا تو میں خیبر پختونخوا اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کے لیے پارٹی کو عوام کی عدالت میں پیش کردوں گا۔ عمران خان کے انقلابی اقدامات کو عوام دیکھ رہی ہے، صوبہ خیبرپختونخوا کے دگرگوں حالات میں تحریک انصاف کا کام کرنا بہت بڑا واقعہ ہے۔
عمران خان نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، وہ اس ملک میں انصاف کا طالب ہے جس کا واحد راستہ انقلاب کی طرف جاتا ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں اور عوام بھی عمران خان کے امتحان کو بڑی فکرمندی سے دیکھ رہے ہیں۔ چوتھی طرف پاکستان کی چوتھی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی امتحانوں میں گھری ہوئی ہے اور ''ہے خبر گرم ان کے آنے کی'' یعنی ایم کیو ایم پھر حکومت سندھ میں آ رہی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس شہر کے عوام سوچ رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ پانچویں طرف تربت بلوچستان کا غریب آدمی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ہے۔ اس کا بھی زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرتا ہے۔ بے اختیار وزیراعلیٰ بلوچستان جس کے برے وقت کے ساتھی بھی اس سے خوش نہیں ہیں۔ سنا ہے گل خان نصیر کا یادگاری جلسہ جس طرح ہوا وہ ہر اعتبار سے انقلابی شاعر گل خان نصیر کے شایان شان نہیں تھا۔ ڈاکٹر مالک کا دل تو گل خان نصیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، مگر حالات اس کے بس میں نہیں۔
بہرحال پہاڑوں پر موجود آزاد بلوچستان والے ڈاکٹر صاحب کو ''ان'' کا آدمی سمجھتے ہیں اور ''ان'' والے ڈاکٹر صاحب کی نہیں مانتے۔ ایک اچھا انسان حالات کی نذر ہوگیا۔
چھٹی طرف بیگم نسیم ولی خان میدان سیاست میں اتر آئی ہیں گویا ہر طرف سے عوام پر یلغار جاری ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ ''ہم کدھر جائیں''۔
اعلیٰ عدالتیں آگے بڑھتی رہیں حتیٰ کہ وہ دن آگیا کہ جب ملزم پرویز مشرف سابق صدر اسلامی جمہوری پاکستان پر فرد جرم عاید کرنا تھی۔ ملزم سابق صدر پرویز مشرف اپنے گھر چک شہزاد کے فارم ہاؤس (جیل) سے عدالت جانے کے لیے نکلے سخت مسلح گاڑیوں کے کانوائے کے جھرمٹ میں مشرف صاحب جا رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوائے نے رستہ بدل لیا اور پھر بڑی تیزی سے صاحب کو راولپنڈی کے ایک بڑے اسپتال میں پہنچادیا گیا۔ پتا چلا کہ صاحب کے دل میں تکلیف ہوئی ہے۔ اور پھر یہ تکلیف تقریباً 80 دنوں تک جاری رہی۔
اس دوران عدالت جنرل پرویز مشرف کو بلاتی رہی اور جواباً ان کے معالج سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہے کہ مریض عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتا پھر مریض کے بیرون ملک علاج کے لیے عدالت میں درخواست دی گئی، مگر ملزم کا نام ای سی ایل میں ہونے کی وجہ رکاوٹ بن گئی۔ پھر مشرف صاحب کی ضعیف والدہ کی شدید علالت کو بنیاد بناکر عدالت میں درخواست داخل کی گئی کہ انسانی اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے ملزم کو اپنی والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے۔ اس درخواست کے ساتھ ہی پرویز مشرف عدالت میں بھی پیش ہوگئے۔ جہاں ان کو فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی۔
جسے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ملزم نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کے روبرو وضاحتی تقریر بھی کی۔ عدالت نے کارروائی مکمل کرتے ہوئے باہر جانے کی درخواست پر حکم دیا کہ ای سی ایل میں ملزم کا نام حکومت نے ڈالا ہے اور اس بارے میں حکومت سے رجوع کیا جائے۔ پرویز مشرف کے وکلا نے اسی روز یہ درخواست حکومت کو بھجوادی، جس میں کہا گیا تھا کہ ضعیف والدہ کی تیمارداری اور اپنے بیرون ملک علاج معالجے کے لیے ملزم کا نام ای سی ایل سے خارج کرتے ہوئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
اب یہاں سے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور ان کے لیڈروں کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ملک میں یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ ملزم صاحب کو سزا نہیں ہو گی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے مرکزی رہنماؤں، کابینہ کے اراکین سے مشاورت کی اور سابق صدر پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کردی۔ اور بیان جاری ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں داخل کیا گیا تھا اور اعلیٰ عدالت ہی اس بارے میں فیصلہ دینے کی مجاز ہے۔ چلیے حکومت نے سپریم کورٹ میں گیند اچھال دی ہے مگر کتنا سخت امتحان تھا اور ہے کہ جس میں مرکزی حکومت مبتلا ہے۔ پرویز مشرف کو آزاد کرکے باہر جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت اور اس کے ساتھیوں کے لیے صوبہ بلوچستان ضرور سامنے ہوگا۔ ایک بوڑھا بلوچ نواب اکبر بگٹی کا قتل۔۔۔۔
دوسری طرف ایک اور کڑے امتحان سے مسلم لیگ (ن) گزر رہی ہے اور یہ ہے طالبان سے مذاکرات ۔ ایک ماہ سے اوپر ہوگیا ''جنگ بندی'' جاری ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ایک ماہ سے خودکش حملے اور بم دھماکے پورے ملک میں بند ہیں، گو اکا دکا واقعات بھی ہوئے ہیں جو منحرف طالبان گروپوں کی طرف سے کیے گئے۔ یہاں بھیحکومت کی فہم و فراست کا امتحان تھا۔ ورنہ ایک وقت تھا کہ تقریر تیار تھی اور طبل جنگ بھی بجنے کو تیار تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ طبل جنگ کی حامی تھیں، مگر وقتی طور سے ہی سہی ملک مزید خون ریزی سے بچ گیا اور اس امتحان میں بھی حکمراں جماعت کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
اب تیسری طرف کی بات ہوجائے، پاکستان کے انتخابات 2013 میں ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بن گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے پندرہ ارکان نے اپنی صوبائی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔ باغیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے قائد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا انقلابی قائد ہماری بات ضرور سنے گا۔ عمران خان نے اسی حوالے سے یہ کہا ہے کہ لوگوں نے تحریک انصاف کے نام پر امیدواروں کو ووٹ دیے ہیں اور اگر مجھے محسوس ہوا تو میں خیبر پختونخوا اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کے لیے پارٹی کو عوام کی عدالت میں پیش کردوں گا۔ عمران خان کے انقلابی اقدامات کو عوام دیکھ رہی ہے، صوبہ خیبرپختونخوا کے دگرگوں حالات میں تحریک انصاف کا کام کرنا بہت بڑا واقعہ ہے۔
عمران خان نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، وہ اس ملک میں انصاف کا طالب ہے جس کا واحد راستہ انقلاب کی طرف جاتا ہے۔ لیکن فی الحال پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں اور عوام بھی عمران خان کے امتحان کو بڑی فکرمندی سے دیکھ رہے ہیں۔ چوتھی طرف پاکستان کی چوتھی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی امتحانوں میں گھری ہوئی ہے اور ''ہے خبر گرم ان کے آنے کی'' یعنی ایم کیو ایم پھر حکومت سندھ میں آ رہی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس شہر کے عوام سوچ رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ پانچویں طرف تربت بلوچستان کا غریب آدمی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ہے۔ اس کا بھی زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرتا ہے۔ بے اختیار وزیراعلیٰ بلوچستان جس کے برے وقت کے ساتھی بھی اس سے خوش نہیں ہیں۔ سنا ہے گل خان نصیر کا یادگاری جلسہ جس طرح ہوا وہ ہر اعتبار سے انقلابی شاعر گل خان نصیر کے شایان شان نہیں تھا۔ ڈاکٹر مالک کا دل تو گل خان نصیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، مگر حالات اس کے بس میں نہیں۔
بہرحال پہاڑوں پر موجود آزاد بلوچستان والے ڈاکٹر صاحب کو ''ان'' کا آدمی سمجھتے ہیں اور ''ان'' والے ڈاکٹر صاحب کی نہیں مانتے۔ ایک اچھا انسان حالات کی نذر ہوگیا۔
چھٹی طرف بیگم نسیم ولی خان میدان سیاست میں اتر آئی ہیں گویا ہر طرف سے عوام پر یلغار جاری ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ ''ہم کدھر جائیں''۔