تھیلے کی بلی کا ”کلائمکس“
آخری مہرے کی بنیاد پر اسی وجہ سے ”سیاسی ڈائیلاگ“ کے تناظر میں جماعت اسلامی کو لایا گیا ہے
آج کی گھمبیر سیاسی اور معاشی صورتحال میں دو قسم کے سنجیدہ سوالات کا سامنا اکثر ہمارے سیاسی تجزیہ کار اور سیاسی پنڈت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ یہ کہ ملک کی اس بحرانی کشمکش کا بہترین علاج "سیاسی ڈائیلاگ" ہے جبکہ دوسری جانب یہی افراد اداروں کے باہم دست وگریبان ہونے کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اداروں کے آپسی معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دنیا کی معروضی ترقی اور سوچ کی تبدیلی کے تناظر میں یہ دونوں سوالات دنیاوی حقیقتوں کے پس منظر میں نہ صرف انتہائی غیر حقیقی ہیں بلکہ ملک کی فرسودہ سیاسی و اشرافیائی روایتوں کی سڑاند بھری سوچ کا وہ مظہر ہیں جن پر صرف ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا، دنیا اب آرٹیفیشل انفارمیشن،اسپیس ٹیکنالوجی اور پیدائش اور تبدیل شدہ سوچ کے ارتقا کے دور سے بہت آگے جا چکی ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے فرسودہ سوچ کے روایتی مذاکرات یا مل بیٹھ کر اداروں کو بچانے کی سوچ کنویں میں مینڈک کے ٹر ٹرانے سے زیادہ کی نہیں۔
اس استدلال میں پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ جس انداز سیاست سے ملک کو پچھتر برس سے چلایا گیا، جس ملک کے اقتدار کو عوام کے سپرد کرنے والی کمیونسٹ اور سوشلسٹ سیاسی سوچ کو حکومتی سطح پر تہہ تیغ کرکے اقتدار عوام کو منتخب نہیں کیا گیا، سو اب بھی پرانے خیالات اور روایتی ترکیبوں کو بدلتی دنیا میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس میں باہمی مشاورت کی چمپیئن اور سماج کو قرون وسطیٰ کی دقیانوسی سوچ میں لے جانے والی "جماعت اسلامی" اور دہشت گرد طالبان سوچ کی چتیاں لگا کر عوام کو مطمئن کیا جا رہا ہے، جس کا حتمی جھکاؤ یا فائدہ عوام کے جمہوری نظام کے مقابلے میں غیر سنجیدہ سیاسی اشرافیہ کے طاقتور عناصر کو دیا جائے یا ان کے پسپا ہونے کو کسی طرح محفوظ کر لیا جائے تو یہ اب نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ناقابل عمل ہے۔
دوم اداروں کی شکست و ریخت کا خوف دلانے کا رجحان دراصل ترقی اور خود مختاری حاصل کرنے کی سوچ کے تصور کو دھچکا پہنچانے کی وہ مجرمانہ کوشش ہے جو دنیا میں اپنی خود مختاری اور قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے عمل کرنے کو کمزور کر رہی ہے، اداروں کے کمزور ہونے کا خوف اور شور و غوغا دراصل مخصوص طبقات کی اداروں میں گرفت دوبارہ مضبوط کرنے کی فرسودہ سوچ ہے جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں کے ادارے حاکمانہ انداز سے چلنے کی روایت کے نتیجے میں بے جان اور بے اثر ہو چکے ہیں۔ آج کے اداروں میں نئی سوچ اور نئے زاویے قبول کرنے کی سوچ کو اب تک پست ذہن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ ادارے اپنے اندر تبدیلی کی امنگ لیے نئے زاویوں سے انصاف قانون اور عوامی سہولیات بہم پہنچانے کی انگڑائی لے رہے ہیں، جس کو اپنے آمرانہ مزاج رکھنے والے چونکہ قبول یا ہضم نہیں کر پارہے، لہذا وہ عوام کو اداروں کی اس مثبت تبدیلی میں خوف کا عنصر ڈال کر دراصل اداروں کے ذریعے اپنی لوٹ کھسوٹ کی سوچ کو دوبارہ بچا نا چاہتے ہیں تاکہ عوام کا مسلسل استحصال جاری رہے اور اداروں کی مضبوطی کے بہانے آمرانہ ذہن جمہوریت پسندوں کے حقوق ہڑپ کرتے رہیں، لہذا جتنی جلد ہو سکے ان دو فرسودہ سوچ سے باہر آیا جائے وگرنہ دنیا میں پیدا ہونے والی سیاسی اور حقوق حاصل کرنے کی سوچ اشرافیہ کی ساری بے تکی کوششوں کو بھسم کر دے گی، اب ادارے اپنے تاریخی کردار ادا کرنے کی طرف اگر جا رہے ہیں تو انہیں اداروں کی تباہی کے خوف میں دیکھنے کے بجائے ان کی اپنی قانونی استقامت اور تبدیلی و نئے زاویے سے منظم ہونے کی سوچ میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جب ہر سیاسی یا مملکتی ادارہ اپنی آزاد حیثیت میں کام کرے گا تو ملک اور اسکی سیاست بچ جائے گی وگرنہ فرسودہ سوچ کے افراد ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، یاد رکھا جائے جب تک ملک کے عوام کی منتخب پارلیمان کو مضبوط نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملک میں مثبت سیاسی یا ادارتی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
دوسری جانب عمران خان سے متاثرہ گنتی کے چند صحافتی تجزیہ کار آج کل بہت فراخدلی سے عمران خان کے اس غیر جمہوری قدم اور ہٹ دھرمی کے طرز عمل کو اپنے دانشمندانہ تجزیوں، ٹی وی یا ٹاک شو میں موضوع گفتگو بناتے ہیں، حقائق کے برعکس تجزیہ کاروں کا یہی وہ عمل ہے جس نے عوام کے ذہنوں کی تربیت کے بجائے انہیں ایک الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ عمل دراصل عوام کو اصل حقائق تک نہ لے جانے کی وہ مجرمانہ حکمت عملی ہے جو بہت سوچ سمجھ کر جاری ر کھی جا رہی ہے تاکہ ملک کے آئین اور انتخابات کی رٹ لگانے میں پارلیمان کو نہ صرف بے توقیرکیا جائے بلکہ آمرانہ مزاج کا وہ نظام لایا جائے جس کے لیے "عمران پروجیکٹ" پندرہ برس کی میعاد کے لیے لانچ کیا گیا تھا، جس کا مقصد آئین اور دستور کو بے توقیرکر کے ایسا آمرانہ نظام لانا تھا جو لگانا تھا جو عمران خان کے مدد کرتے ہوئے اس عدالتی احکامات اور قانون کی عملداری کرائے جو سماج کو مکمل غیر سیاسی کر دیں اور سماجی فیبرک میں آمرانہ پیوند کاری کرکے ایک عرصے تک پھر سے عوام کو محکوم بنائے رکھیں۔
مذکورہ استدلال کے نتیجے میں عالمی قوتوں کے خفیہ مقاصد کو پورا کرنے میں عمران خان اور ان کے طالبان مائنڈ سیٹ ملکی و بین الاقوامی قوتیں آج کل بہت زیادہ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ عمران خان کو اب تک تماتر حکومتی کوششوں کے باوجود یہ قوتیں عدالتوں سے ریلیف دلانے میں سرگرم عمل ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں واضح طور سے نظر آرہا ہے، جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے متنازعہ سوموٹو کے تحت دو تین اور تین چار کی بحث کو نمٹانے کے لیے حکومت اور سارے ملک کی سیاسی پارٹیوں سمیت وکلا باڈیز اور سول سوسائٹی کے افراد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے، مگر ملکی دانش کی اکثریت کے فل کورٹ کے مطالبے کو چیف جسٹس اپنے اختیارات کے تحت مسلسل نہ صرف روند رہے ہیں۔
تین رکنی بندیال بنچ نے پنجاب میں الیکشن کے لئے حکومت و پارلیمان کی جانب سے فنڈز نہ دینے پر اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر کو انتخابات کے لئے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے، جن احکامات کو پارلیمان نے مسترد کرکے مطلوبہ فنڈز جاری نہ کی، جس پر محکمہ دفاع نے سیکیورٹی نہ دینے کی مجبوری پر پنجاب کے انتخابات کی نئی تاریخ دینے کی استدعا کی جو سپریم کورٹ نے رد کرکے کہا کہ سیاسی جماعتیں کسی بھی ایک انتخابی تاریخ پر رضامندی ظاہر کردیں تو سپریم کورٹ اس پر غور کر سکتی ہے، اس سے قبل جمعے ہی کو سیکورٹی کے حکام کا پارلیمان میں ان کیمرہ اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف نے واضح طور سے کہا چکے ہیں کہ"عوام کا اختیار آئین کے تحت پارلیمان اور ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہوگا" جبکہ "سینٹر آف گریویٹی عوام ہیں۔"
اس ساری صورتحال میں عمران خان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے دنیا میں "آمرانہ و حاکمانہ" سوچ امریکہ کی لابی کے وہ ارکان ہیں جو عمران خان کی حمایت میں سر گرم ہیں جو اس خطے میں جنم لینے والے چین کی سربراہی میں خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال کو امریکہ کے مقابلے میں بہتر کرنے کے سخت ترین مخالف ہیں،خطے میں چین اور امریکہ کے مفادات کا یہی وہ تضاد ہے جس کو جنرل ضیا کی آمرانہ سوچ اور امریکا کے "اٹھاریٹین" سوچ کے جنرلز،عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ جماعت اسلامی و طالبان قبول نہیں کرنا چاہتے،آخری مہرے کی بنیاد پر اسی وجہ سے "سیاسی ڈائیلاگ" کے تناظر میں جماعت اسلامی کو لایا گیا ہے تاکہ اس مذکورہ جماعت کی فرسودہ سوچ کو جمہوری بنا کر ایک مرتبہ پھر عوام کو سیاسی دھوکہ دیا جائے، جبکہ عمران خان، طالبان، جماعت اسلامی اور فرسودہ سوچ کے جنرلز امریکی "اتھاریٹینین" کے فلسفے اور وجود کو یہاں دوبارہ نافذ کرنا چاہتے ہیں،جس کو سمجھنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس مرحلے پر حکومت اور دیگر جمہوری سوچ کو آگے بڑھانے اور سماج کے ارتقا کی کوششوں کو آگے لے جانے والی قوتوں کا ساتھ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
یاد رکھا جائے کہ عالمی جمہوری تبدیلیوں کے اس اہم دور یا موڑ پر کسی بھی ایسے فریق کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو عوام کی جمہوری، سیاسی اور پارلیمانی روایات کو موجودہ نافذالعمل اسٹبلشمنٹ کے طاقتور نظام کو کسی بھی طرح لانا چاہے، ان حالات کو سمجھنے کے لیے تازہ نیویارک ٹائمز میں آنے والے Rose Douthatکا مضمون How Biden could Isolate America کا مطالعہ ضروری ہے۔
دنیا کی معروضی ترقی اور سوچ کی تبدیلی کے تناظر میں یہ دونوں سوالات دنیاوی حقیقتوں کے پس منظر میں نہ صرف انتہائی غیر حقیقی ہیں بلکہ ملک کی فرسودہ سیاسی و اشرافیائی روایتوں کی سڑاند بھری سوچ کا وہ مظہر ہیں جن پر صرف ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا، دنیا اب آرٹیفیشل انفارمیشن،اسپیس ٹیکنالوجی اور پیدائش اور تبدیل شدہ سوچ کے ارتقا کے دور سے بہت آگے جا چکی ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے فرسودہ سوچ کے روایتی مذاکرات یا مل بیٹھ کر اداروں کو بچانے کی سوچ کنویں میں مینڈک کے ٹر ٹرانے سے زیادہ کی نہیں۔
اس استدلال میں پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ جس انداز سیاست سے ملک کو پچھتر برس سے چلایا گیا، جس ملک کے اقتدار کو عوام کے سپرد کرنے والی کمیونسٹ اور سوشلسٹ سیاسی سوچ کو حکومتی سطح پر تہہ تیغ کرکے اقتدار عوام کو منتخب نہیں کیا گیا، سو اب بھی پرانے خیالات اور روایتی ترکیبوں کو بدلتی دنیا میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس میں باہمی مشاورت کی چمپیئن اور سماج کو قرون وسطیٰ کی دقیانوسی سوچ میں لے جانے والی "جماعت اسلامی" اور دہشت گرد طالبان سوچ کی چتیاں لگا کر عوام کو مطمئن کیا جا رہا ہے، جس کا حتمی جھکاؤ یا فائدہ عوام کے جمہوری نظام کے مقابلے میں غیر سنجیدہ سیاسی اشرافیہ کے طاقتور عناصر کو دیا جائے یا ان کے پسپا ہونے کو کسی طرح محفوظ کر لیا جائے تو یہ اب نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ناقابل عمل ہے۔
دوم اداروں کی شکست و ریخت کا خوف دلانے کا رجحان دراصل ترقی اور خود مختاری حاصل کرنے کی سوچ کے تصور کو دھچکا پہنچانے کی وہ مجرمانہ کوشش ہے جو دنیا میں اپنی خود مختاری اور قانون کے دائرے میں رہ کر ان کے عمل کرنے کو کمزور کر رہی ہے، اداروں کے کمزور ہونے کا خوف اور شور و غوغا دراصل مخصوص طبقات کی اداروں میں گرفت دوبارہ مضبوط کرنے کی فرسودہ سوچ ہے جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں کے ادارے حاکمانہ انداز سے چلنے کی روایت کے نتیجے میں بے جان اور بے اثر ہو چکے ہیں۔ آج کے اداروں میں نئی سوچ اور نئے زاویے قبول کرنے کی سوچ کو اب تک پست ذہن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ ادارے اپنے اندر تبدیلی کی امنگ لیے نئے زاویوں سے انصاف قانون اور عوامی سہولیات بہم پہنچانے کی انگڑائی لے رہے ہیں، جس کو اپنے آمرانہ مزاج رکھنے والے چونکہ قبول یا ہضم نہیں کر پارہے، لہذا وہ عوام کو اداروں کی اس مثبت تبدیلی میں خوف کا عنصر ڈال کر دراصل اداروں کے ذریعے اپنی لوٹ کھسوٹ کی سوچ کو دوبارہ بچا نا چاہتے ہیں تاکہ عوام کا مسلسل استحصال جاری رہے اور اداروں کی مضبوطی کے بہانے آمرانہ ذہن جمہوریت پسندوں کے حقوق ہڑپ کرتے رہیں، لہذا جتنی جلد ہو سکے ان دو فرسودہ سوچ سے باہر آیا جائے وگرنہ دنیا میں پیدا ہونے والی سیاسی اور حقوق حاصل کرنے کی سوچ اشرافیہ کی ساری بے تکی کوششوں کو بھسم کر دے گی، اب ادارے اپنے تاریخی کردار ادا کرنے کی طرف اگر جا رہے ہیں تو انہیں اداروں کی تباہی کے خوف میں دیکھنے کے بجائے ان کی اپنی قانونی استقامت اور تبدیلی و نئے زاویے سے منظم ہونے کی سوچ میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جب ہر سیاسی یا مملکتی ادارہ اپنی آزاد حیثیت میں کام کرے گا تو ملک اور اسکی سیاست بچ جائے گی وگرنہ فرسودہ سوچ کے افراد ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، یاد رکھا جائے جب تک ملک کے عوام کی منتخب پارلیمان کو مضبوط نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملک میں مثبت سیاسی یا ادارتی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
دوسری جانب عمران خان سے متاثرہ گنتی کے چند صحافتی تجزیہ کار آج کل بہت فراخدلی سے عمران خان کے اس غیر جمہوری قدم اور ہٹ دھرمی کے طرز عمل کو اپنے دانشمندانہ تجزیوں، ٹی وی یا ٹاک شو میں موضوع گفتگو بناتے ہیں، حقائق کے برعکس تجزیہ کاروں کا یہی وہ عمل ہے جس نے عوام کے ذہنوں کی تربیت کے بجائے انہیں ایک الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ عمل دراصل عوام کو اصل حقائق تک نہ لے جانے کی وہ مجرمانہ حکمت عملی ہے جو بہت سوچ سمجھ کر جاری ر کھی جا رہی ہے تاکہ ملک کے آئین اور انتخابات کی رٹ لگانے میں پارلیمان کو نہ صرف بے توقیرکیا جائے بلکہ آمرانہ مزاج کا وہ نظام لایا جائے جس کے لیے "عمران پروجیکٹ" پندرہ برس کی میعاد کے لیے لانچ کیا گیا تھا، جس کا مقصد آئین اور دستور کو بے توقیرکر کے ایسا آمرانہ نظام لانا تھا جو لگانا تھا جو عمران خان کے مدد کرتے ہوئے اس عدالتی احکامات اور قانون کی عملداری کرائے جو سماج کو مکمل غیر سیاسی کر دیں اور سماجی فیبرک میں آمرانہ پیوند کاری کرکے ایک عرصے تک پھر سے عوام کو محکوم بنائے رکھیں۔
مذکورہ استدلال کے نتیجے میں عالمی قوتوں کے خفیہ مقاصد کو پورا کرنے میں عمران خان اور ان کے طالبان مائنڈ سیٹ ملکی و بین الاقوامی قوتیں آج کل بہت زیادہ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ عمران خان کو اب تک تماتر حکومتی کوششوں کے باوجود یہ قوتیں عدالتوں سے ریلیف دلانے میں سرگرم عمل ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں واضح طور سے نظر آرہا ہے، جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے متنازعہ سوموٹو کے تحت دو تین اور تین چار کی بحث کو نمٹانے کے لیے حکومت اور سارے ملک کی سیاسی پارٹیوں سمیت وکلا باڈیز اور سول سوسائٹی کے افراد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے، مگر ملکی دانش کی اکثریت کے فل کورٹ کے مطالبے کو چیف جسٹس اپنے اختیارات کے تحت مسلسل نہ صرف روند رہے ہیں۔
تین رکنی بندیال بنچ نے پنجاب میں الیکشن کے لئے حکومت و پارلیمان کی جانب سے فنڈز نہ دینے پر اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر کو انتخابات کے لئے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے، جن احکامات کو پارلیمان نے مسترد کرکے مطلوبہ فنڈز جاری نہ کی، جس پر محکمہ دفاع نے سیکیورٹی نہ دینے کی مجبوری پر پنجاب کے انتخابات کی نئی تاریخ دینے کی استدعا کی جو سپریم کورٹ نے رد کرکے کہا کہ سیاسی جماعتیں کسی بھی ایک انتخابی تاریخ پر رضامندی ظاہر کردیں تو سپریم کورٹ اس پر غور کر سکتی ہے، اس سے قبل جمعے ہی کو سیکورٹی کے حکام کا پارلیمان میں ان کیمرہ اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف نے واضح طور سے کہا چکے ہیں کہ"عوام کا اختیار آئین کے تحت پارلیمان اور ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی ہوگا" جبکہ "سینٹر آف گریویٹی عوام ہیں۔"
اس ساری صورتحال میں عمران خان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے دنیا میں "آمرانہ و حاکمانہ" سوچ امریکہ کی لابی کے وہ ارکان ہیں جو عمران خان کی حمایت میں سر گرم ہیں جو اس خطے میں جنم لینے والے چین کی سربراہی میں خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال کو امریکہ کے مقابلے میں بہتر کرنے کے سخت ترین مخالف ہیں،خطے میں چین اور امریکہ کے مفادات کا یہی وہ تضاد ہے جس کو جنرل ضیا کی آمرانہ سوچ اور امریکا کے "اٹھاریٹین" سوچ کے جنرلز،عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ جماعت اسلامی و طالبان قبول نہیں کرنا چاہتے،آخری مہرے کی بنیاد پر اسی وجہ سے "سیاسی ڈائیلاگ" کے تناظر میں جماعت اسلامی کو لایا گیا ہے تاکہ اس مذکورہ جماعت کی فرسودہ سوچ کو جمہوری بنا کر ایک مرتبہ پھر عوام کو سیاسی دھوکہ دیا جائے، جبکہ عمران خان، طالبان، جماعت اسلامی اور فرسودہ سوچ کے جنرلز امریکی "اتھاریٹینین" کے فلسفے اور وجود کو یہاں دوبارہ نافذ کرنا چاہتے ہیں،جس کو سمجھنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس مرحلے پر حکومت اور دیگر جمہوری سوچ کو آگے بڑھانے اور سماج کے ارتقا کی کوششوں کو آگے لے جانے والی قوتوں کا ساتھ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
یاد رکھا جائے کہ عالمی جمہوری تبدیلیوں کے اس اہم دور یا موڑ پر کسی بھی ایسے فریق کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو عوام کی جمہوری، سیاسی اور پارلیمانی روایات کو موجودہ نافذالعمل اسٹبلشمنٹ کے طاقتور نظام کو کسی بھی طرح لانا چاہے، ان حالات کو سمجھنے کے لیے تازہ نیویارک ٹائمز میں آنے والے Rose Douthatکا مضمون How Biden could Isolate America کا مطالعہ ضروری ہے۔