دینی سیاسی جماعتیں جمود کا شکار کیوں

سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں دینی جماعت کے کارکنان زیادہ مخلص اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوتے ہیں


جبار قریشی April 21, 2023
[email protected]

زمانہ طالب علمی کی بات ہے میرے ایک دوست صحافت کے طالب علم تھے، وہ اکثر شہر کراچی میں ہونے والی مختلف سماجی، تعلیمی اور سیاسی حوالے سے منعقد ہونے والے پروگراموں اور اجتماعات میں شوق و ذوق سے شرکت کیا کرتے تھے میں کیونکہ کامرس (تجارت) کا طالب علم تھا اس لیے مجھے ان پروگراموں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن میرے یہ دوست مجھے زبردستی ان پروگراموں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے۔

ابتدا میں بے زاری کا مظاہرہ کرتا تاہم متعدد پروگراموں میں شرکت کے نتیجے میں میری دلچسپی میں اضافہ ہوا اور میں ان پروگراموں میں شوق سے شرکت کرنے لگا۔ یہ پروگرام نہ صرف میری عملی تربیت بلکہ کردار سازی میں بھی معاون ثابت ہوئے۔ میں کیونکہ تجسس کا مارا ہوا اور آزادانہ سوچ کا حامل ہوں جس کی وجہ سے میں کسی سیاسی یا دینی سیاسی جماعت کا حصہ نہ بن سکا۔

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں دینی سیاسی جماعت سے وابستہ کارکنان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ مخلص اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوتے ہیں اس لیے میں دینی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کے لیے ہمیشہ خواہش مند رہا ہوں لیکن میرا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں جمود کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں انھیں ہمیشہ ایک پریشر گروپ کی حیثیت حاصل رہی ہے یہ اب تک عوامی جماعت کا روپ نہ دھار سکیں ایسا کیوں ہے؟ آئیے! اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

دینی سیاسی جماعتوں میں اس تصور کو پروان چڑھایا جاتا ہے کہ ہمیں نفاذ اسلام کی جدوجہد ہر حال میں جاری رکھنی چاہیے۔ ہمیں کامیابی ملے یا نہ ملے ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں ہمیں اقامت دین کے فریضے کو مذہبی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا جانا چاہیے۔

میرے نزدیک یہ نقطہ نظر یا اصول ایک مبلغ کے لیے تو ہو سکتا ہے ایک سیاستدان کے لیے سیاست کامیابی کے تصور کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں نظریات اور خیالات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں،ایسے حالات میں اصولوں پر رہتے ہوئے حکمت عملی میں تبدیلی لا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے سیاست میں کامیابی کے عنصر کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
کوئی بھی تحریک ہو وہ اس وقت تک فعال اور متحرک رہتی ہے جب تک وہ اپنے نظریات اور تخلیقات سے سماج کو متاثر کرتی ہے، اگر وہ ایسا کرنا بند کردے تو تحریک زوال کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔

پاکستان میں متحرک تحریکوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں تو صورت حال بڑی مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ ان کے یہاں نئی تخلیقات کا سلسلہ عرصہ دراز سے رکا ہوا ہے آپ ان کے رسائل و کتب کا مطالعہ کرلیں ایک ہی قسم کے موضوعات کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ ان کا انحصار بھی زیادہ تر ماضی کے اکابرین کی تخلیقات پر ہوتا ہے اس کے نتیجے میں تحریکیں جمود کا شکار ہیں۔

سیاست میں اختلاف رائے اور مخالفت کے فرق کو رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ سیاست میں مخالفانہ رویہ ایک حد سے گر جائے تو خطرناک ہو جاتا ہے اور انسان ایسی چمگادڑ بن جاتا ہے جسے روشنی بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست میں اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ اسے جمہوریت کا حسن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں مناظرہ سے گریز کرتے ہوئے مکالمہ کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔

بیشتر دینی سیاسی جماعتوں میں اس مثبت رویہ کا فقدان ہے، اس میں شامل بعض عناصر کا خیال ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے موقف کمزور ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس سے موقف کمزور نہیں ہوتا بلکہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔ سچائی کے ساتھ لکھی جانے والی تحریر نہ صرف خوبصورت اور دلکش ہوتی ہے بلکہ پراثر بھی اس کے نتیجے میں ذہنی طور پر صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے اور انسانی اور سماجی تعلقات خوشگوار رہتے ہیں مغربی تہذیب کے منفی اثرات دینی سیاسی جماعتوں کا ایک اہم موضوع ہے۔

ان جماعتوں کے نزدیک نئی نسل میں اسلام سے دوری کی بڑی وجہ مغربی تہذیب کی یلغار اور بالادستی ہے جبکہ نئی نسل کی اسلام سے دوری کا سبب مغربی تہذیب نہیں ہے بلکہ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ دینی اور دینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جدید ذہنی معیار پر اسلام کی تعلیمات کو پیش نہیں کیا جاسکا۔ ان جماعتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر زمانے کا ایک اسلوب ہوتا ہے موجودہ زمانے کا بھی ایک اسلوب ہے اس میں اسلام اور اسلام کی تعلیمات کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

عنوان "امریکی سازش" دینی سیاسی جماعتوں کا دوسرا اہم موضوع ہے۔ امریکی سازش اور عالمی طاقتوں کی بالادستی کو ناکام بنانے کے لیے ان تحریک سے وابستہ نوجوان یہ تجویز کرتے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے دفاع کا مرکزی نظام بنائیں۔ اپنی عالمی نیوز ایجنسی قائم کریں اور یورپی یونین کی طرز پر مشترکہ کرنسی اور کامن مارکیٹ بنائیں، یہ نوجوان یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اختتام سے آغاز کے خواہش مند ہیں۔ حالانکہ آغاز تو ہمیشہ ابتدا سے ہوتا اس وقت مسلمانوں کے لیے ایک ہی نقطہ آغاز ہے وہ ہے تعلیم۔ جب تک تعلیم عام نہ ہو جائے کوئی بڑا کام نہیں ہو سکتا محض ہم نہیں مانتے کا نعرہ لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

بعض دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسلامی انقلاب کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انقلاب دنیا میں تبدیلی لانے کا ایک بڑا ذریعہ اس طریقہ کار میں کیونکہ انتقال اقتدار کا پرامن طریقہ واضح نہیں ہوتا اس لیے دنیا میں جہاں جہاں اس طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے وہاں مسلح تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جس نے ریاست اور معاشرے دونوں کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کیا ہے اسی وجہ سے مہذب دنیا میں اس طریقہ کار کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔

تبدیلی کا واحد ذریعہ ووٹ کی طاقت ہے موجودہ دور میں جمہوریت ہی بہترین سیاسی نظام ہے اور سیاسی استحکام کا واحد ذریعہ بھی۔

موجودہ معاشرہ میں معاملات زندگی میں اس حد تک بگاڑ آچکا ہے کہ معاشرے کی درستگی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں ایسے حالات میں تبدیلی اور دینی سیاسی جماعتوں کے کردار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے لیکن عصر حاضر کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے معاملات زندگی کی درستگی پر کم اور عقائد کی درستگی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعتوں کا محور فضائل اسلام اور دینی سیاسی جماعتوں کا محور مسائل عالم اسلام ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔

بعض دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ عہدیداران کا تعلق طلبا یونین سے رہا ہے۔ طلبا جب سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو اس وقت وہ زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست میں شکایت اور احتجاج کا عنصر غالب آجاتا ہے جب یہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ نفسیات ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکمت عملی واضح کی جائے اور ان کے حل کے لیے سائنسی طریقہ کار اختیار کیا جائے یہ وہ نکات ہیں جو میرے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں ان سے اختلاف رائے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن میں اس بات کا اعتراف ضرور کروں گا کہ یہ دینی سیاسی جماعتیں ہی ہیں جن کی جدوجہد نے نہ صرف ہماری مذہبی اقدار کو محفوظ رکھا ہے بلکہ ہماری سماجی اقدار کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے جو ہمارا قومی تشخص ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں