چین اور سعودی عرب دو بڑے کاروباری
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں حریف اور حلیفوں کی بھی ایک سرد جنگ چل رہی ہے
چین کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ دنیا میں مستقبل کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ یہ صدائیں گونج رہی تھیں کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین نے ایسے ہی کام کیے تھے اور اگر کووڈ کے مسائل اور رکاوٹوں نے اس کا راستہ نہ روکا ہوتا تو وہ اپنے اہداف پر پہنچنے کے قریب ہی تھے۔
بلاشبہ عوامی جمہوریہ چین اپنے تمام تر مسائل و حالات کے باوجود ایشیا کے طاقتور ممالک میں سرفہرست ہے ایک اور پیش گوئی بھارت کے بارے میں بھی سنی گئی تھی اور ابھی کچھ دنوں پہلے دنیا کی بڑی اکانومی کی طاقتوں میں چین 2024 میں اول نمبر پر نظر آرہا ہے تو امریکا دوسرے نمبر پر جبکہ حیرت انگیز طور پر بھارت کا نمبر تین پر ابھرا نظر آ رہا ہے یہ وہ ملک ہے جو 2008 اور 1992 میں اعلیٰ دس نمبروں میں سے کہیں نہیں تھا تو ایک تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت کی معاشی صورت حال کووڈ کے بعد بہت سے ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوتی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جاپان، جرمنی اور فرانس و برطانیہ میں اس سے نچلی سطحوں پر نظر آتے ہیں۔ سولہ برس کے درمیان کی ان حیرت انگیز معلومات میں بھارت نے ایک اونچی زقند لگائی ہے بہرحال ہم یہاں چین اور اس کے معاملات کو زیر بحث لا رہے ہیں۔
اس بڑی تبدیلی کی جانب لوگوں کی نظر اس وقت ہوئی جب سعودی عرب نے پٹرول کی فروخت کے معاملات امریکی ڈالر کے بجائے ایک دوسری کرنسی کو ترجیح دی، یہ ایک مصدقہ بات ہے کہ دنیا کی تجارت ڈالرز میں ہو رہی ہے اور آج کل اس کی قیمتیں بلند ہی جا رہی ہیں۔ اس مناپلی کو ختم کرنے یا کم کرنے کا یہ منصوبہ باقاعدہ کسی حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتا ہے یا یہ کسی تیسری بڑی طاقت کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے، اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل ازوقت ہوگا لیکن چہ میگوئیوں کی وجہ یہ ایک سنسناتی خبر ہی بنی کہ جس سے امریکی ڈالرز کی بلند قیمتوں میں دراڑ تو پیدا ہوئی ہوگی۔ ایسا بھی تو ممکن تھا کہ سعودی عرب جیسا امیر اور چین جیسا مستحکم اور وسیع ملک اپنی اس تجارتی ڈیل کو یورو میں انجام دے لیکن چین کی کرنسی کو اس بڑی بزنس ڈیل میں اوکے کا بٹن دبانا ماہرین کے لیے حیران کن رہا۔
کیا یہ خبر اچانک تھی؟ ایسا نہ تھا، کیونکہ گزشتہ چھ سالوں سے پٹرول کی فروخت یوآن (چینی کرنسی) میں ہونے کے لیے مذاکرات تو جاری تھے البتہ یہ اچانک تیزی کسی حتمی نتیجے کو دیکھ کر کی گئی ہے۔
چین سعودی عرب سے برآمد شدہ پٹرول کے پچیس فیصد سے زائد کا خریدار ہے۔ اس خریداری کے عمل میں کوئی دشواری نہ ہو کیا یہ اس لیے طے پایا گیا ہے جبکہ یہ خریداری تو معمول کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہو رہی ہے کہ سعودی عرب نے چین کو بھی اہم کاروباری ساتھی کے طور پر اہمیت دی ہے۔
ظاہر ہے کہ چین کی کرنسی کون کون سے ممالک میں رائج ہے یا اس سے کاروبار کیا جاسکتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ چین کی کرنسی اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی کرنسی کے طور پر دنیا میں استعمال کی جا رہی ہے۔ پاکستانی بیالیس روپے ایک یوآن کے برابر ہے۔
ماضی سے یوآن کی قیمتوں میں ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔ اکتوبر 2016 میں چائنا کی کرنسی کو ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کرنسی نے بہت جلد ہی اونچی سطح حاصل کرلی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی منڈی میں چین کی طاقت کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ اس سے کاروبار کرکے اس کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں چین کی اس کامیابی کو یا چینی کرنسی کے اس نئے سنگ میل کو کن نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طاقتور ملک اب اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت بھی اپنے اندرونی خلفشار کے باوجود ان اہداف کو پہنچنے کی تگ و دو میں ہے اور کسی حد تک وہ مقام حاصل بھی کر چکا ہے جبکہ پاکستان اس پورے منظرنامے میں شطرنج کے کسی مارے ہوئے مہرے کی مانند سہما کھڑا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ بڑے وسیع ممالک کی بھیڑ چال میں پاکستان جیسے اندرونی سیاستوں میں الجھے ملک کی رفتار کو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود چیک کیا جا رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ قطرہ قطرہ نچوڑنے کے بعد بھی آخری قطرے کے منتظر کیوں ہیں۔ پھر ایک نئی بحث کو الگ رکھتے چین اور سعودی عرب کے درمیان اس بزنس ڈیل کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ اس کا فائدہ سب سے زیادہ کس کو پہنچ رہا ہے تو ظاہر ہے کہ چین اب امریکی ڈالرز کی فروخت میں اپنے سرمائے کو مزید کھپائے بغیر باآسانی اپنی کاروباری ترجیحات پر توجہ دے گا۔
ترقی کے اس سفر میں سعودی عرب جیسے بڑے پٹرول کے فروخت کار نے جس انداز میں اس نئے معاہدے کو بڑھایا ہے اس سے دوسرے ممالک کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ ڈالرز کی بڑھی سطحوں کی پہنچ سے دور چینی کرنسی کے گرفت میں آنے والے متبادل ذریعے کو بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن معاشیاتی اصولوں کے لمبے چوڑے فسانوں میں شق در شق مسائل پر بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے مسائل میں دھنسے ممالک کے لیے ابھی بہت سے کانٹے چھپے ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یوکرین کی جنگ میں دنیا میں بہت سے دبے معاملات میں گویا چنگاری کا کام انجام دیا ہے۔ اب سعودی عرب کی اچانک اپنے معاملات میں تیز رفتاری اور چین کی کرنسی کو کاروباری معاملات میں تسلیم کرنا کیا اس کے پس پشت یوکرین بھی کہیں نہ کہیں سیاسی میدان میں کر رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں حریف اور حلیفوں کی بھی ایک سرد جنگ چل رہی ہے، روس کا ساتھ دینے کے لیے چین موجود ہے جبکہ یوکرین کے ساتھ امریکا کھڑا ہے اور جہاں یہ طاقت کھڑی ہو اس کے اردگرد دیکھیے کہ اب کیا زیر عتاب آنے والا ہے لیکن روس افغانستان جنگ کے دور میں چین نہیں بلکہ پاکستان موجود تھا لہٰذا صورت حال بنتی بگڑتی اور آج قطرہ قطرہ پر آگئی ہے۔
لوگ حیران ہیں کہ اب وہ مقام کیوں نہیں آ رہا کہ جس کو دیکھنے کے لیے وہ برسوں سے متمنی ہیں لیکن بس یہ مانتے نہیں کہ دلوں کے خلوص، نیک تمنائیں، دعائیں اور بہت کچھ اس چھوٹے سے پاکستان کے ساتھ ہیں فیصلے تو اوپر والے کے ہی ہوتے ہیں لیکن خلوص دل سے کام کرنا بھی ضروری ہے۔ بہرحال آج روس اور یوکرین کی جنگ میں چین جیسے طاقتور ملک نے جگہ سنبھال لی ہے۔
امریکا نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس کی فوجی امداد کر رہا ہے۔ روس پر الزام ہے کہ یوکرین کے ساتھ لڑائی میں وہ چین سے اسلحہ اور دیگر فوجی امداد لے رہا ہے۔ ساتھ ہی متنبہ بھی کردیا گیا کہ چین نے روس کی کسی بھی طرح کی کوئی امداد کی تو دونوں ممالک کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایک خبر کے مطابق روس نے چین سے خاص فوجی امداد کا مطالبہ کیا ہے جس میں ڈرونز بھی شامل ہیں۔ چین روس کی امداد کر رہا ہے یا کرے گا اس بارے میں اس نے ابھی اپنا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے لیکن امریکا یہ سمجھ رہا ہے کہ چین کا جھکاؤ روس کی جانب ہے اور وہ ایسا کر سکتا ہے۔
ابھی ان دونوں ممالک کے نمایندگان ملے ہیں یا نہیں چین اور امریکا کے بیچ کیا طے پایا یہ ابھی جاری ہے لیکن امریکا کو ایک جانب لگانے کی کوشش جاری ہے۔ ویسے امریکا کے یہ ہتھکنڈے تو پرانے ہیں کہ خبردار جو کوئی قدم اٹھایا نتائج بھگتنا ہوں گے کیونکہ اسی طرح کی کچھ بھبکیاں ہمیں بھی دی گئی تھیں اور آثار قدیمہ میں پہنچانے کے دعوے کیے جا رہے تھے لیکن دعوے تو دعوے ہوتے ہیں کون اڑاتا ہے اور کون وفا کرتا ہے لیکن ترقی کے سفر میں اپنوں کا ہاتھ تھام کر خلوص درکار ہوتا ہے ویسے بھی ماضی سے کب دامن جھٹکا جاسکتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے جو ڈر گیا وہ مر گیا۔
بلاشبہ عوامی جمہوریہ چین اپنے تمام تر مسائل و حالات کے باوجود ایشیا کے طاقتور ممالک میں سرفہرست ہے ایک اور پیش گوئی بھارت کے بارے میں بھی سنی گئی تھی اور ابھی کچھ دنوں پہلے دنیا کی بڑی اکانومی کی طاقتوں میں چین 2024 میں اول نمبر پر نظر آرہا ہے تو امریکا دوسرے نمبر پر جبکہ حیرت انگیز طور پر بھارت کا نمبر تین پر ابھرا نظر آ رہا ہے یہ وہ ملک ہے جو 2008 اور 1992 میں اعلیٰ دس نمبروں میں سے کہیں نہیں تھا تو ایک تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت کی معاشی صورت حال کووڈ کے بعد بہت سے ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوتی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جاپان، جرمنی اور فرانس و برطانیہ میں اس سے نچلی سطحوں پر نظر آتے ہیں۔ سولہ برس کے درمیان کی ان حیرت انگیز معلومات میں بھارت نے ایک اونچی زقند لگائی ہے بہرحال ہم یہاں چین اور اس کے معاملات کو زیر بحث لا رہے ہیں۔
اس بڑی تبدیلی کی جانب لوگوں کی نظر اس وقت ہوئی جب سعودی عرب نے پٹرول کی فروخت کے معاملات امریکی ڈالر کے بجائے ایک دوسری کرنسی کو ترجیح دی، یہ ایک مصدقہ بات ہے کہ دنیا کی تجارت ڈالرز میں ہو رہی ہے اور آج کل اس کی قیمتیں بلند ہی جا رہی ہیں۔ اس مناپلی کو ختم کرنے یا کم کرنے کا یہ منصوبہ باقاعدہ کسی حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتا ہے یا یہ کسی تیسری بڑی طاقت کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے، اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل ازوقت ہوگا لیکن چہ میگوئیوں کی وجہ یہ ایک سنسناتی خبر ہی بنی کہ جس سے امریکی ڈالرز کی بلند قیمتوں میں دراڑ تو پیدا ہوئی ہوگی۔ ایسا بھی تو ممکن تھا کہ سعودی عرب جیسا امیر اور چین جیسا مستحکم اور وسیع ملک اپنی اس تجارتی ڈیل کو یورو میں انجام دے لیکن چین کی کرنسی کو اس بڑی بزنس ڈیل میں اوکے کا بٹن دبانا ماہرین کے لیے حیران کن رہا۔
کیا یہ خبر اچانک تھی؟ ایسا نہ تھا، کیونکہ گزشتہ چھ سالوں سے پٹرول کی فروخت یوآن (چینی کرنسی) میں ہونے کے لیے مذاکرات تو جاری تھے البتہ یہ اچانک تیزی کسی حتمی نتیجے کو دیکھ کر کی گئی ہے۔
چین سعودی عرب سے برآمد شدہ پٹرول کے پچیس فیصد سے زائد کا خریدار ہے۔ اس خریداری کے عمل میں کوئی دشواری نہ ہو کیا یہ اس لیے طے پایا گیا ہے جبکہ یہ خریداری تو معمول کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہو رہی ہے کہ سعودی عرب نے چین کو بھی اہم کاروباری ساتھی کے طور پر اہمیت دی ہے۔
ظاہر ہے کہ چین کی کرنسی کون کون سے ممالک میں رائج ہے یا اس سے کاروبار کیا جاسکتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ چین کی کرنسی اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی کرنسی کے طور پر دنیا میں استعمال کی جا رہی ہے۔ پاکستانی بیالیس روپے ایک یوآن کے برابر ہے۔
ماضی سے یوآن کی قیمتوں میں ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔ اکتوبر 2016 میں چائنا کی کرنسی کو ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کرنسی نے بہت جلد ہی اونچی سطح حاصل کرلی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی منڈی میں چین کی طاقت کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ اس سے کاروبار کرکے اس کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں چین کی اس کامیابی کو یا چینی کرنسی کے اس نئے سنگ میل کو کن نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طاقتور ملک اب اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت بھی اپنے اندرونی خلفشار کے باوجود ان اہداف کو پہنچنے کی تگ و دو میں ہے اور کسی حد تک وہ مقام حاصل بھی کر چکا ہے جبکہ پاکستان اس پورے منظرنامے میں شطرنج کے کسی مارے ہوئے مہرے کی مانند سہما کھڑا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ بڑے وسیع ممالک کی بھیڑ چال میں پاکستان جیسے اندرونی سیاستوں میں الجھے ملک کی رفتار کو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود چیک کیا جا رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ قطرہ قطرہ نچوڑنے کے بعد بھی آخری قطرے کے منتظر کیوں ہیں۔ پھر ایک نئی بحث کو الگ رکھتے چین اور سعودی عرب کے درمیان اس بزنس ڈیل کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ اس کا فائدہ سب سے زیادہ کس کو پہنچ رہا ہے تو ظاہر ہے کہ چین اب امریکی ڈالرز کی فروخت میں اپنے سرمائے کو مزید کھپائے بغیر باآسانی اپنی کاروباری ترجیحات پر توجہ دے گا۔
ترقی کے اس سفر میں سعودی عرب جیسے بڑے پٹرول کے فروخت کار نے جس انداز میں اس نئے معاہدے کو بڑھایا ہے اس سے دوسرے ممالک کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ ڈالرز کی بڑھی سطحوں کی پہنچ سے دور چینی کرنسی کے گرفت میں آنے والے متبادل ذریعے کو بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن معاشیاتی اصولوں کے لمبے چوڑے فسانوں میں شق در شق مسائل پر بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے مسائل میں دھنسے ممالک کے لیے ابھی بہت سے کانٹے چھپے ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یوکرین کی جنگ میں دنیا میں بہت سے دبے معاملات میں گویا چنگاری کا کام انجام دیا ہے۔ اب سعودی عرب کی اچانک اپنے معاملات میں تیز رفتاری اور چین کی کرنسی کو کاروباری معاملات میں تسلیم کرنا کیا اس کے پس پشت یوکرین بھی کہیں نہ کہیں سیاسی میدان میں کر رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں حریف اور حلیفوں کی بھی ایک سرد جنگ چل رہی ہے، روس کا ساتھ دینے کے لیے چین موجود ہے جبکہ یوکرین کے ساتھ امریکا کھڑا ہے اور جہاں یہ طاقت کھڑی ہو اس کے اردگرد دیکھیے کہ اب کیا زیر عتاب آنے والا ہے لیکن روس افغانستان جنگ کے دور میں چین نہیں بلکہ پاکستان موجود تھا لہٰذا صورت حال بنتی بگڑتی اور آج قطرہ قطرہ پر آگئی ہے۔
لوگ حیران ہیں کہ اب وہ مقام کیوں نہیں آ رہا کہ جس کو دیکھنے کے لیے وہ برسوں سے متمنی ہیں لیکن بس یہ مانتے نہیں کہ دلوں کے خلوص، نیک تمنائیں، دعائیں اور بہت کچھ اس چھوٹے سے پاکستان کے ساتھ ہیں فیصلے تو اوپر والے کے ہی ہوتے ہیں لیکن خلوص دل سے کام کرنا بھی ضروری ہے۔ بہرحال آج روس اور یوکرین کی جنگ میں چین جیسے طاقتور ملک نے جگہ سنبھال لی ہے۔
امریکا نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس کی فوجی امداد کر رہا ہے۔ روس پر الزام ہے کہ یوکرین کے ساتھ لڑائی میں وہ چین سے اسلحہ اور دیگر فوجی امداد لے رہا ہے۔ ساتھ ہی متنبہ بھی کردیا گیا کہ چین نے روس کی کسی بھی طرح کی کوئی امداد کی تو دونوں ممالک کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایک خبر کے مطابق روس نے چین سے خاص فوجی امداد کا مطالبہ کیا ہے جس میں ڈرونز بھی شامل ہیں۔ چین روس کی امداد کر رہا ہے یا کرے گا اس بارے میں اس نے ابھی اپنا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے لیکن امریکا یہ سمجھ رہا ہے کہ چین کا جھکاؤ روس کی جانب ہے اور وہ ایسا کر سکتا ہے۔
ابھی ان دونوں ممالک کے نمایندگان ملے ہیں یا نہیں چین اور امریکا کے بیچ کیا طے پایا یہ ابھی جاری ہے لیکن امریکا کو ایک جانب لگانے کی کوشش جاری ہے۔ ویسے امریکا کے یہ ہتھکنڈے تو پرانے ہیں کہ خبردار جو کوئی قدم اٹھایا نتائج بھگتنا ہوں گے کیونکہ اسی طرح کی کچھ بھبکیاں ہمیں بھی دی گئی تھیں اور آثار قدیمہ میں پہنچانے کے دعوے کیے جا رہے تھے لیکن دعوے تو دعوے ہوتے ہیں کون اڑاتا ہے اور کون وفا کرتا ہے لیکن ترقی کے سفر میں اپنوں کا ہاتھ تھام کر خلوص درکار ہوتا ہے ویسے بھی ماضی سے کب دامن جھٹکا جاسکتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے جو ڈر گیا وہ مر گیا۔