عیدالفطر اُمتِ مسلمہ کی سچی خوشی کا دن
رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کے لیے دو عیدوں کا تحفہ امتِ مسلمہ کو دیا
دنیا بھر کی سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے، جسے ہر مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق مناتے ہیں۔ جس میں "عیدالفطر" ایک ایسا مذہبی تہوار ہے جو اُمتِ مسلمہ میں خاص مقام اور اہمیت کا حامل ہے۔ عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے، ماہِ صیام کے روزوں کی خوشی، قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، نزول قرآن کی خوشی، لیلۃ القدر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے رحمت و بخشش اور عذابِ جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر بھی کہا جاتا ہے۔ جس سے عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر اسے مومنوں کے لیے خوشی کا دن قرار دیا گیا ہے۔ آقائے دو جہاں رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کے لیے دُعا مانگتے ہوئے دو عیدوں کا تحفہ امتِ مسلمہ کو دیا۔ جب مسلمانوں پر پہلی بار روزے فرض ہوئے تو تاریخِ اسلام کے اس پہلے ماہِ صیام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کرکے فرمایا کہ "ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے، اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عید الاضحیٰ منایا کرو۔"
مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔ "عید" کے معنی خوشی اور "فطر" کے معنی کھولنا ہیں۔ یہ دن ماہِ صیام کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر منانے کا دن ہے۔ جسے اُمتِ مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دن دلوں سے نفرتوں کو مٹانے، روٹھے ہوئے چہروں کو منانے، غریبوں، مسکینوں کے کام آنے، بھائی چارے، محبت اور امن کا پیغام آگے بڑھانے سے منسوب ہے۔ جان کاشمیری کے اس شعر کے مصداق:
عید کا روز ہے خوشیوں کی بنا رکھتے ہیں
رنج کی بات چلو کل پہ اُٹھا رکھتے ہیں
ہمارے ارد گرد بہت سے افراد، خاندان ایسے ہیں جن کے پاس عید کرنا تو دور دو وقت کی روٹی کے وسائل دستیاب نہیں، ایسے میں کچھ لوگ ماہِ صیام میں زکوۃ کے نام پر صبح سے لیکر شام تک اپنے گھروں کے باہر ایک ہجوم اکٹھا کر لیتے ہیں اور پھر غریب کی غریبی کا خوب تماشا دیکھتے ہوئے اُسے چکر پہ چکر لگواتے ہیں۔ اس ماہِ صیام میں بھی بہت سے لوگوں کو مفت آٹا لینے کے لیے کتنی ذلت و رسوائی نہ صرف اُٹھانا پڑی بلکہ آٹا نہ ملنے پر خود خوشی کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ امجد حمید محسن کی منظر کشی:
ترسی ہوئی ہے روٹی کو تیری عوام دیکھ
تو ان کا حال پوچھ لے تحفہ ہے عید کا
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو عید سے قبل ماہِ صیام میں غریبوں کو دینے کے لیے، ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی آمدنی سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غٖریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لیے کپڑے خرید لیے جاتے اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ میں صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر، غریب اور غلام پر واجب ہے۔ اس بار عید پر صاحبِ حیثیت لوگوں کو پہلے سے کچھ زیادہ غرباء اور مساکین کی امداد کرنا ہو گی کیوں کہ اس بار خوفناک مہنگائی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی کے سیلاب میں درمیانے طبقے کی خوشیاں بھی بہہ گئی ہیں اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے لیے عید کی خریداری بھی نہایت مشکل ہو گئی ہے۔ ایسے میں اسحاق وردگ کا خوبصورت خیال یاد آتا ہے کہ:
کسی کی یاد منانے میں عید گزرے گی
سو شہر دل میں بہت دور تک اُداسی ہے
"عید" غریبوں سے ہمدردی اور اپنوں سے صلہ رحمی کا دن ہے۔ یہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے خاتمے اور حصول آزادی کے اس سلسلہ کی عملی جدوجہد کے عہد کا دن ہے۔ یہ دن اس کے بعد آنے والے ایام میں شیطان کے مقابلے میں غلبہ پانے کے عزم کا دن ہے۔ عید کے دن دیگر فحاشی اور بے حیائی کے دھندے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کے کام ہیں۔ معاشرے میں چند ایسے چہرے ہیں جو اپنی روح کی تسکین کے لیے دوسروں کا سکھ چین برباد کر دیتے ہیں۔
ایسے میں اُنہیں اپنے اعمال کی کوئی فکر نہیں ہوتی، بس دنیاوی عیش و عشرت کی نمود و نمائش میں مگن رہتے ہیں، جبکہ ایک مومن کو عید پر یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں رمضان بھر کی عبادت مسترد نہ کر دی جائے۔ کہتے ہیں کہ حیا ایک ایسا سرمہ ہے جو انسان کی آنکھ کو کبھی میلا نہیں ہونے دیتی۔ جن کی آنکھیں اس سرمہ سے خالی ہوتی ہیں اُن کے لیے اقبال کا یہ شعر ہی کافی ہو گا۔
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
بہتر یہی ہو گا کہ عید کے روز دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں، جن سے ماں باپ کی کوئی نافرمانی ہوئی ہے اُن سے معافی مانگ لیں، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار محبت سے پیش آئیں، بچوں کے چہرے اس دن خوشی سے روشن ہوتے ہیں جو اپنے بڑوں سے عیدی کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ دن محبتیں بانٹنے اور چاہتیں سمیٹنے کا ہے۔ اس دن ہر آنگن خوشی سے جھوم اُٹھتا ہے، اپنی خوشی میں غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریں اور سب کے ساتھ اپنی خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹیں۔ کیونکہ خوشی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس کی چاشنی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس دن وطن سے دور بسنے والے پردیسیوں کی عید کا بھی قیصر محمود کے اس شعر کی مانند خیال ضرور رکھیں۔
ہوہکے ہاواں سمکے بھر بھُر کے قیصر
وچ پردیساں عید مناندے پردیسی
یاد رکھیں کہ عید تو ہر ایک کی ہوتی ہے، کافر کی بھی اور مومن کی بھی، اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں مناتا ہے، لیکن مومن اپنی عید اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مناتا ہے جبکہ کافر اپنی عید رضائے شیطان کے لیے مناتا ہے۔ اس لیے کالم کے آغاز سے لیکر اختتام تک جتنی بھی باتوں کا ذکر کیا گیا ہیں اُن پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ضرور کریں تاکہ محبتوں اور چاہتوں کے جذبوں سے کھلنے والے پھولوں کی مہک دور دور تک پھیلے۔ گزشتہ سالوں میں بچھڑنے والی شخصیات کی یادیں بھی اس عید کا خاص حصہ ہونگی۔ آخر میں عید کا چاند اور میرا ایک خیال آپ تمام قارئین کی نذر:
دیکھ کر تیرا چاند سا چہرہ
لوگ کہتے ہیں عید کا دن ہے