کمزور نظامِ تعلیم اور طلبہ کا مستقبل

آج ہمارے بچے تعلیم نہیں صرف ڈگری حاصل کر رہے ہیں

آج ہمارے بچے تعلیم نہیں صرف ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اسی لیے دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کا معیار تعلیم بہت بلند ہے جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی معیار صفر ہے۔

پاکستان تاحال اپنی مجموعی قومی پیداوار کا محض 1.4 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو ایشیاء میں سب سے کم ہے۔ ایشیا میں خواندگی کی تیسری بدترین شرح بھی ہمارے پیارے ملک کی ہی ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام ہے جو آج بھی لکیر کا فقیر ہے۔ قیام پاکستان کو چھ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ہمارا وہی فرسودہ نصابِ تعلیم چلا آ رہا ہے۔ سائنس کی ترقی سے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 66 سال پہلے تھے۔

ہم ایٹم کے آج تک وہی تین ذرّات الیکٹران، پروٹان،اور نیوٹران پڑھ رہے ہیں اور بچوں کو پڑھا رہے ہیں جب کہ اب ایٹم کے 113ذرات دریافت ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ہم ترقی یافتہ کیسے بن سکتے ہیں؟۔ تعلیمی اداروں کی حالت زار کچھ یوں ہے کہ سرکاری سکولوں سے اساتذہ غائب رہتے ہیں جو موجود ہوتے ہیں ان میں بھی ایسے اساتذہ کی شدید کمی ہے جو ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ سکولوں میں پڑھائی صرف ''رٹاسٹم'' کے تحت چل رہی ہے۔ تو کیا یہ سسٹم ایک موروثی بیماری کی طرح ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟



آج ہمارے بچے بھی صرف امتحان میں کامیابی کے لیے پڑھتے ہیں، وہ صرف ڈگری حاصل کرتے ہیں تعلیم نہیں۔ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کا حال یہ ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق پانچویں کلاس کے57 فی صد طلباء دوسری کلاس میں پڑھائے جانے والے انگریزی کے جملے پڑھ اور سادہ تقسیم کے سوالات حل نہیں کر سکتے اور پانچویں جماعت ہی کے 50 فی صد طلبہ دوسری کلاس میں شامل اردو کی کہانیاں نہیں پڑھ سکتے۔ یہ تو تحقیق میں انکشافات کیے گئے مگر ہم نے خود میٹرک کے ایسے بچوں کو بھی دیکھا ہے جوٹھیک سے اردو نہیں پڑھ سکتے مگر پاس A+گریڈ سے ہوتے ہیں۔ آٹھویں کلاس تک تو ہر سکول اپنے مطابق اپنے طریقے سے بچوں کو لے کر چلتا ہے لیکن نویں جماعت کے بعد تقریباً ہر سکول میں ایک جیسا ہی نظام تعلیم ہوتا ہے۔

کچھ سال پہلے 2009ء میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ نیا پیٹرن آیا، پہلے پہل طلباء کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا مگر اب وہ پریشانی بھی ختم ہو چکی ہے۔کیوںکہ ایک بار پھر five year رٹ لیا اور پیپر پاس۔ پیپر بنانے والے بھی شاید کتاب دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اپنی آسانی کے لیے ایک ہی چیز بار بار دے دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے بچوں کو چند چیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا۔ اکثر طلبہ رزلٹ آنے کے بعد کہتے ہیں کہ '' پرچے تو بہت اچھے دیے تھے مگر رزلٹ اچھا نہیں آیا''۔ وہ یہ نہیں سوچتے، یہ نہیں دیکھتے کہ ہم لکھ کر کیا آئے تھے۔




ہمارے بچے ایسے لکیر کے فقیر ہوتے ہیں کہ سوال تک ٹھیک سے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ جو جواب یاد کیا تھا اگر اس کا ایک لفظ بھی سوال میں ہے تو رٹا ہوا لکھ آئیں گے یا جس کو یاد نہیں ہو گا اسے جو بھی ملے گا وہ ویسا ہی لکھے گا، اگرچہ پرچے میں دیے گئے سوال سے اس کاتعلق ہی نہیں ہوتا تو ایسے میں ممتحن اچھے نمبر دے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکثر بچوں کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ جتنا زیادہ لکھو گے نمبر بھی اتنے ہی اچھے ملیں گے اور بچے ایسا ہی کرتے ہیں، وہ پرچہ بھرنے کی غرض سے ہر اوٹ پٹانگ بات لکھ دیتے ہیں، جس سے ممتحن بیزار ہو کر زیادہ کانٹ چھانٹ کر دیتا ہے۔

امتحانات میں نقل کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنے کے بارے میں صرف زبانی کلامی کہا جاتا ہے مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔ چند طلباء برائے نام پکڑے جاتے ہیںاور انھیں سزا بھی سنا دی جاتی ہے، باقی ہزاروں نقل کرتے ہیں مگر پکڑے بھی نہیں جاتے۔ نقل کر کے نالائق اور محنت نہ کرنے والے اچھے نمبروں سے کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور بے چارے محنتی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔



محنت ِشاقہ کرنے کے بعد بھی جب نکمے اور نالائق طلباء سے ان کے نمبر کم آتے ہیں تو وہ دل برداشتہ ہو کر محنت کرنا ہی ترک کر دیتے ہیں۔ اگر امتحانات کے دوران کسی امتحانی مرکز کا نظارہ دیکھنے کو ملے تو وہ ایک امتحانی مرکز کم اور کلاس روم جہاں کتب پڑھی جاتی ہیں، زیادہ لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طلباء کو سارے سال میں آج کا دن ہی پڑھنے لکھنے کو ملا ہے، جہاں طلباء اور کتب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسے ''چھپائی'' ہوتی ہے کہ بس،کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔

امتحانات کے بعد رزلٹ کا انتظار ایک کھٹن مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہمارا ملک مثالی ''پھرتی'' کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہماری ایک دوست نے کراچی یونیورسٹی سے گریجوایشن میں دوسری پوزیشن حاصل کی، اس نے بتایا کہ انہوں نے 2012ء میں ایم اے میں داخلہ لیا، 2013ء میں امتحانات دیے اور 2014ء میں ہمارے رزلٹ کا اعلان ہوا، یہی حال باقی کلاسز کا بھی ہوتا ہے۔ ذمہ دار لوگ امتحان لینے کے بعد لمبی تان کے سو جاتے ہیں۔



گریجوایشن فائنل ائیر کا امتحان دینے کے بعد اگلے چھ ماہ تک رزلٹ کا انتظار کرو اور رزلٹ آنے کے بعد آگے داخلہ لینے کے لیے اگلے چھ ماہ مزید انتظار۔ اسی انتظار میں طلباء کے سال پہ سال ضائع ہوتے ہیں اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اکثر طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب کسی سرکاری نوکری کے لیے درخواست دیتے ہیں توعمر کی زیادتی کی وجہ سے ان کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ان کا قیمتی وقت کس نے ضائع کیا؟۔ اگر ہمارے تعلیمی اور امتحانی نظام کا یہی حال رہا تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔
Load Next Story