آج صرف عید نہیں عالمی یومِ ارض بھی ہے
جتنے بھی عالمی دن منائے جاتے ہیں ان میں یومِ ارض منانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے
عالمی یومِ ارض ( ارتھ ڈے ) ہر بائیس اپریل کو انیس سو ستر سے منایا جا رہا ہے۔ جتنے بھی عالمی دن منائے جاتے ہیں ان میں یومِ ارض منانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
لگ بھگ ڈیڑھ ارب انسان آج کے دن کچھ ایسا ضرور کر رہے ہوں گے جس سے زمین کے حالات میں سدھار کا امکان قدرے بڑھ سکے۔
ویسے ارتھ ڈے منانے کا خیال کب اور کیوں آیا؟
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں بھگتنے کے بعد جب مغرب میں بے فکری اور آزاد خیالی کی تازہ لہر آئی تو راشن بندی کے مارے لوگوں نے دل کھول کے کنزیومر ازم (نظریہِ اصراف) کی صدا پر لبیک کہا۔گاڑیاں ،گھر ، فیشن ، کھان پان غرض ہر شے میں ہاتھ کھل گیا۔
کسی کو احساس نہیں تھا کہ اس کی حتمی قیمت کرہِ ارض اور اس کی فضا اور بالاخر انسان سمیت کل حیاتیات و جمادات کو ادا کرنا پڑے گی۔'' طبقہِ اصرافیہ '' کے نزدیک پٹرول کی بو ، ڈیزل کا دھواں اور کارخانے کی زہر اگلتی چمنی خوشحالی کا استعارہ بن گئے۔ گویا آج مزے کر لو کل کس نے دیکھا ۔
انیس سو باسٹھ میں ریچل کارسن کی کتاب ''سائلنٹ اسپرنگ '' ( خاموش بہار ) شایع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ امریکا سمیت چوبیس ممالک میں اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔
پہلی بار عام لوگوں کو یہ کتاب پڑھ کے اندازہ ہونا شروع ہوا کہ ہم اپنا معیارِ زندگی اندھادھند بلند کرنے کی دوڑ میں جس طرح شامل ہوئے ہیں اس کی قیمت کرہِ ارض پر سانس لیتی ہر قسم کی زندگی کو کتنی بھاری پڑ سکتی ہے۔لہٰذا ہمیں اپنی نسلوں کی بقا کی خاطر ہاتھ اور ہوس کو لگام دینے کے لیے ہوش کے ناخن لینے کی فوری ضرورت ہے۔پہلی بار اس کتاب سے اندازہ ہوا کہ ماحولیاتی آلودگی اور صحت کی ابتری میں کیا براہ راست تعلق ہے۔
امریکی فیصلہ ساز اداروں میں صرف ایک سینیٹر گیلارڈ نیلسن ہی تھے جو تنہا چیخ رہے تھے کہ ہم اندھا دھند کنزیومرازم کی کلہاڑی سے کرہِ ارض کی ماحولیاتی جڑیں اور بنی نوع انسان کا مستقبل کاٹ رہے ہیں۔
انیس سو انہتر میں جب ویتنام جنگ کے خلاف یورپ اور امریکا میں طلبا ایجی ٹیشن عروج پر تھا سینیٹر نیلسن نے اس خام طاقت کو ماحولیاتی تحفظ کی تحریک سے جوڑنے کے لیے طالبِ علم تحریک کے ایک مقبول رہنما ڈینس ہیز کو ماحولیاتی آگہی بھی تحریک کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی صلاح دی۔
یوں اگلے برس بائیس اپریل انیس سو ستر کو امریکا بھر کی درجنوں جامعات میں ہزاروں طلبا و طالبات ماحولیاتی ابتری کی ابجد سے واقف ہونے کے لیے اکھٹے ہوئے۔رفتہ رفتہ اس کارواں میں دیگر سماجی تنظیمیں اور چرچ سے جڑے فلاحی گروپ بھی شامل ہوتے چلے گئے۔
پہلے یومِ ارض کے موقعے پر لگ بھگ دو کروڑ امریکی ( دس فیصد آبادی ) یونیورسٹیوں ، پارکوں، سڑکوں اور کمیونٹی مراکز میں جمع ہوئے اور پچھلے ڈیڑھ سو برس میں اندھا دھند صنعت کاری کے انسانی صحت پر منفی اثرات پر پہلی بار تفصیلاً بات شروع ہوئی۔ یہ نقطہِ آغاز تھا ایک عالمی ماحولیاتی تحریک کا۔
تیل بردار جہازوں کی پھیلائی بحری آلودگی ، صنعتی ، زرعی و انسانی فضلے کی لاپرواہ ڈمپنگ ، مصنوعی کھاد اور زرعی ادویات کے بے تحاشا استعمال سے جنم لینے والے مضر اثرات ، ڈیموں اور شاہراہوں کی تعمیر سے ماحولیات پر پڑنے والے منفی اثرات اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں جنگلی حیاتیات کو لاحق بقائی خطرے جیسے مسائل پر جو جو گروپ اور تنظیمیں اپنے اپنے طور پر محدود انداز میں متحرک تھیں، رفتہ رفتہ عالمی ماحولیاتی تحریک کی چھتری تلے آتی چلی گئیں۔
پہلے یومِ ارض سے جنم لینے والی تحریک کا ہی فیض تھا کہ امریکا میں ماحولیاتی تحفظ کا سرکاری ادارہ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ( ای پی اے ) کے نام سے وجود میں آیا اور دیکھا دیکھی بیشتر ممالک میں ای پی اے کی طرز پر ادارہ سازی ہونے لگی۔ ای پی اے کی کلیرنس کے بغیر کوئی بھی بڑا تعمیراتی ، صنعتی ، کانکن یا ماحولیات پر اثرانداز ہونے والا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی کانگریس نے کلین ایر ایکٹ ، کلین واٹر ایکٹ، اکوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایکٹ، انوائرنمنٹل ایجوکیشن ایکٹ ، اینڈینجرڈ اسپیشیز ایکٹ منظور کیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ پہلی بار صاف پانی، صاف ہوا بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل ہوئے اور جنگلی جانوروں کا تحفظ بھی ریاستی ایجنڈے کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ دیکھا دیکھی بیسیوں ممالک نے اس طرز کے قوانین منظور کیے۔مگر عملی نفاذ کس حد تک ہو سکا یہ علیحدہ بحث ہے۔
امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن اور ماحولیاتی مجاہد ڈینس ہیز نے اس تحریک کو عالمگیر سطح تک لے جانے کے لیے اگلے برسوں میں جو سرتوڑ کوشش کی اس کا ثمر بائیس اپریل انیس سو نوے کو دیکھنے میں آیا جب ایک سو اکتالیس ممالک میں بیس کروڑ لوگ اپنے اپنے حساب سے ماحولیاتی مسائیل اجاگر کرنے کی آواز کا بیک وقت حصہ بنے۔
اس برس کرہِ ارض کے وسائیل بچانے کے لیے ری سائیکلنگ کے تصور کو پہلی بار مرکزی اہمیت ملی اور پھر انیس سو بانوے میں اقوامِ متحدہ کے تحت برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں پہلی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عالمی سطح پر اہداف مقرر کرنے کی ابتدا ہوئی۔
سن دو ہزار کے یومِ الارض پر ایک سو چوراسی ممالک میں لگ بھگ پانچ ہزار سماجی و ماحولیاتی تنظیموں نے ہر انسان کے لیے کلین انرجی اور عالمی درجہِ حرارت میں کمی کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ بیک وقت اٹھایا۔بیسیوں ممالک میں کئی کئی سو کلومیٹر کی انسانی زنجیریں بنیں تاکہ اجتماعی آواز سست طبع فیصلہ سازوں کے کانوں میں ٹھونسی جا سکے۔
مگر ماحولیات کی ابتری کی ذمے دار حکومتیں ، کثیرالقومی کارپوریشنز اور لابیاں بھی اس عرصے میں چین سے نہیں بیٹھیں۔سائنسی تحقیق کے نام پر ایسی رپورٹیں بھی شایع کروائی گئیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ ماحولیاتی ابتری محض ایک پروپیگنڈہ ہے اور فطرت خودکار نظام کے تحت اپنی کمی بیشی خود درست کر لیتی ہے۔
ماحولیات دشمنوں کو ڈونلڈ ٹرمپ اور برازیل کے صدر بولسنارو جیسے اتحادی بھی میسر آ گئے جنھوں نے تیل ،گیس ، جنگل مافیا اور میگا تعمیراتی کمپنیوں کو پہلے سے زیادہ مراعات دینے کی کوشش کی اور ایمیزون کے جنگلات میں بے پناہ قانونی و غیرقانونی کٹائی سے آنکھیں موند رکھیں اور ماحولیات دوست لابی کو بے وقوف بلیک میلرز تک قرار دے ڈالا۔
اگرچہ ارتھ ڈے تحریک اب ایک سو ترانوے ممالک تک پھیل گئی ہے مگر انیس سو ستر سے اب تک طاقت کی سرپرستی میں جس بے دردی سے جنگلات کا صفایا ہوا ، اندھادھند صنعت کاری ہوئی، کنزیومر ازم وبا کی طرح پھیلا اور اس کے سبب ساٹھ فیصد جنگلی حیات کا صفایا ہو چکا ، صنعتی گیسوں کی روک تھام میں ناکامی کے نتیجے میں جس طرح موسم پاگل ہو گئے ہیں اور بارش و خشک سالی کے ترتیب وار قدرتی نظام الٹ چکے ہیں اور جس طرح تمام ممالک دو ہزار تیس تک عالمی درجہ حرارت میں کم ازکم ڈیڑھ سنٹی گریڈ کمی لانے کے ہدف کے سے مسلسل دور ہوتے جا رہے ہیں۔
اس سے مایوس ہو کے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی کہہ رہے ہیں کہ شاید وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اب ہم غضب ناک زمینی و آسمانی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔مگر کوشش کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی تو نہیں بچا۔
ٹائیٹانک بھی جب ڈوب رہا تھا تو عرشے پر کھڑا آرکسٹرا آخری دم تک وائلن بجاتا رہا۔اپنا فرض نبھاتا رہا۔
( عید کی خوشی مناتے وقت کچرے میں اضافہ ضرور کیجیے مگر اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا بھی یاد رکھئے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
لگ بھگ ڈیڑھ ارب انسان آج کے دن کچھ ایسا ضرور کر رہے ہوں گے جس سے زمین کے حالات میں سدھار کا امکان قدرے بڑھ سکے۔
ویسے ارتھ ڈے منانے کا خیال کب اور کیوں آیا؟
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں بھگتنے کے بعد جب مغرب میں بے فکری اور آزاد خیالی کی تازہ لہر آئی تو راشن بندی کے مارے لوگوں نے دل کھول کے کنزیومر ازم (نظریہِ اصراف) کی صدا پر لبیک کہا۔گاڑیاں ،گھر ، فیشن ، کھان پان غرض ہر شے میں ہاتھ کھل گیا۔
کسی کو احساس نہیں تھا کہ اس کی حتمی قیمت کرہِ ارض اور اس کی فضا اور بالاخر انسان سمیت کل حیاتیات و جمادات کو ادا کرنا پڑے گی۔'' طبقہِ اصرافیہ '' کے نزدیک پٹرول کی بو ، ڈیزل کا دھواں اور کارخانے کی زہر اگلتی چمنی خوشحالی کا استعارہ بن گئے۔ گویا آج مزے کر لو کل کس نے دیکھا ۔
انیس سو باسٹھ میں ریچل کارسن کی کتاب ''سائلنٹ اسپرنگ '' ( خاموش بہار ) شایع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ امریکا سمیت چوبیس ممالک میں اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔
پہلی بار عام لوگوں کو یہ کتاب پڑھ کے اندازہ ہونا شروع ہوا کہ ہم اپنا معیارِ زندگی اندھادھند بلند کرنے کی دوڑ میں جس طرح شامل ہوئے ہیں اس کی قیمت کرہِ ارض پر سانس لیتی ہر قسم کی زندگی کو کتنی بھاری پڑ سکتی ہے۔لہٰذا ہمیں اپنی نسلوں کی بقا کی خاطر ہاتھ اور ہوس کو لگام دینے کے لیے ہوش کے ناخن لینے کی فوری ضرورت ہے۔پہلی بار اس کتاب سے اندازہ ہوا کہ ماحولیاتی آلودگی اور صحت کی ابتری میں کیا براہ راست تعلق ہے۔
امریکی فیصلہ ساز اداروں میں صرف ایک سینیٹر گیلارڈ نیلسن ہی تھے جو تنہا چیخ رہے تھے کہ ہم اندھا دھند کنزیومرازم کی کلہاڑی سے کرہِ ارض کی ماحولیاتی جڑیں اور بنی نوع انسان کا مستقبل کاٹ رہے ہیں۔
انیس سو انہتر میں جب ویتنام جنگ کے خلاف یورپ اور امریکا میں طلبا ایجی ٹیشن عروج پر تھا سینیٹر نیلسن نے اس خام طاقت کو ماحولیاتی تحفظ کی تحریک سے جوڑنے کے لیے طالبِ علم تحریک کے ایک مقبول رہنما ڈینس ہیز کو ماحولیاتی آگہی بھی تحریک کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی صلاح دی۔
یوں اگلے برس بائیس اپریل انیس سو ستر کو امریکا بھر کی درجنوں جامعات میں ہزاروں طلبا و طالبات ماحولیاتی ابتری کی ابجد سے واقف ہونے کے لیے اکھٹے ہوئے۔رفتہ رفتہ اس کارواں میں دیگر سماجی تنظیمیں اور چرچ سے جڑے فلاحی گروپ بھی شامل ہوتے چلے گئے۔
پہلے یومِ ارض کے موقعے پر لگ بھگ دو کروڑ امریکی ( دس فیصد آبادی ) یونیورسٹیوں ، پارکوں، سڑکوں اور کمیونٹی مراکز میں جمع ہوئے اور پچھلے ڈیڑھ سو برس میں اندھا دھند صنعت کاری کے انسانی صحت پر منفی اثرات پر پہلی بار تفصیلاً بات شروع ہوئی۔ یہ نقطہِ آغاز تھا ایک عالمی ماحولیاتی تحریک کا۔
تیل بردار جہازوں کی پھیلائی بحری آلودگی ، صنعتی ، زرعی و انسانی فضلے کی لاپرواہ ڈمپنگ ، مصنوعی کھاد اور زرعی ادویات کے بے تحاشا استعمال سے جنم لینے والے مضر اثرات ، ڈیموں اور شاہراہوں کی تعمیر سے ماحولیات پر پڑنے والے منفی اثرات اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں جنگلی حیاتیات کو لاحق بقائی خطرے جیسے مسائل پر جو جو گروپ اور تنظیمیں اپنے اپنے طور پر محدود انداز میں متحرک تھیں، رفتہ رفتہ عالمی ماحولیاتی تحریک کی چھتری تلے آتی چلی گئیں۔
پہلے یومِ ارض سے جنم لینے والی تحریک کا ہی فیض تھا کہ امریکا میں ماحولیاتی تحفظ کا سرکاری ادارہ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ( ای پی اے ) کے نام سے وجود میں آیا اور دیکھا دیکھی بیشتر ممالک میں ای پی اے کی طرز پر ادارہ سازی ہونے لگی۔ ای پی اے کی کلیرنس کے بغیر کوئی بھی بڑا تعمیراتی ، صنعتی ، کانکن یا ماحولیات پر اثرانداز ہونے والا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی کانگریس نے کلین ایر ایکٹ ، کلین واٹر ایکٹ، اکوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایکٹ، انوائرنمنٹل ایجوکیشن ایکٹ ، اینڈینجرڈ اسپیشیز ایکٹ منظور کیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ پہلی بار صاف پانی، صاف ہوا بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل ہوئے اور جنگلی جانوروں کا تحفظ بھی ریاستی ایجنڈے کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ دیکھا دیکھی بیسیوں ممالک نے اس طرز کے قوانین منظور کیے۔مگر عملی نفاذ کس حد تک ہو سکا یہ علیحدہ بحث ہے۔
امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن اور ماحولیاتی مجاہد ڈینس ہیز نے اس تحریک کو عالمگیر سطح تک لے جانے کے لیے اگلے برسوں میں جو سرتوڑ کوشش کی اس کا ثمر بائیس اپریل انیس سو نوے کو دیکھنے میں آیا جب ایک سو اکتالیس ممالک میں بیس کروڑ لوگ اپنے اپنے حساب سے ماحولیاتی مسائیل اجاگر کرنے کی آواز کا بیک وقت حصہ بنے۔
اس برس کرہِ ارض کے وسائیل بچانے کے لیے ری سائیکلنگ کے تصور کو پہلی بار مرکزی اہمیت ملی اور پھر انیس سو بانوے میں اقوامِ متحدہ کے تحت برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں پہلی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عالمی سطح پر اہداف مقرر کرنے کی ابتدا ہوئی۔
سن دو ہزار کے یومِ الارض پر ایک سو چوراسی ممالک میں لگ بھگ پانچ ہزار سماجی و ماحولیاتی تنظیموں نے ہر انسان کے لیے کلین انرجی اور عالمی درجہِ حرارت میں کمی کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ بیک وقت اٹھایا۔بیسیوں ممالک میں کئی کئی سو کلومیٹر کی انسانی زنجیریں بنیں تاکہ اجتماعی آواز سست طبع فیصلہ سازوں کے کانوں میں ٹھونسی جا سکے۔
مگر ماحولیات کی ابتری کی ذمے دار حکومتیں ، کثیرالقومی کارپوریشنز اور لابیاں بھی اس عرصے میں چین سے نہیں بیٹھیں۔سائنسی تحقیق کے نام پر ایسی رپورٹیں بھی شایع کروائی گئیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ ماحولیاتی ابتری محض ایک پروپیگنڈہ ہے اور فطرت خودکار نظام کے تحت اپنی کمی بیشی خود درست کر لیتی ہے۔
ماحولیات دشمنوں کو ڈونلڈ ٹرمپ اور برازیل کے صدر بولسنارو جیسے اتحادی بھی میسر آ گئے جنھوں نے تیل ،گیس ، جنگل مافیا اور میگا تعمیراتی کمپنیوں کو پہلے سے زیادہ مراعات دینے کی کوشش کی اور ایمیزون کے جنگلات میں بے پناہ قانونی و غیرقانونی کٹائی سے آنکھیں موند رکھیں اور ماحولیات دوست لابی کو بے وقوف بلیک میلرز تک قرار دے ڈالا۔
اگرچہ ارتھ ڈے تحریک اب ایک سو ترانوے ممالک تک پھیل گئی ہے مگر انیس سو ستر سے اب تک طاقت کی سرپرستی میں جس بے دردی سے جنگلات کا صفایا ہوا ، اندھادھند صنعت کاری ہوئی، کنزیومر ازم وبا کی طرح پھیلا اور اس کے سبب ساٹھ فیصد جنگلی حیات کا صفایا ہو چکا ، صنعتی گیسوں کی روک تھام میں ناکامی کے نتیجے میں جس طرح موسم پاگل ہو گئے ہیں اور بارش و خشک سالی کے ترتیب وار قدرتی نظام الٹ چکے ہیں اور جس طرح تمام ممالک دو ہزار تیس تک عالمی درجہ حرارت میں کم ازکم ڈیڑھ سنٹی گریڈ کمی لانے کے ہدف کے سے مسلسل دور ہوتے جا رہے ہیں۔
اس سے مایوس ہو کے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی کہہ رہے ہیں کہ شاید وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اب ہم غضب ناک زمینی و آسمانی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔مگر کوشش کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی تو نہیں بچا۔
ٹائیٹانک بھی جب ڈوب رہا تھا تو عرشے پر کھڑا آرکسٹرا آخری دم تک وائلن بجاتا رہا۔اپنا فرض نبھاتا رہا۔
( عید کی خوشی مناتے وقت کچرے میں اضافہ ضرور کیجیے مگر اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا بھی یاد رکھئے )۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)