’’ملکی خوشحالی تعلیم و تحقیق سے جڑی ہے‘‘
7 پی ایچ ڈی اور247 ایم فل سمیت 3308 طلبہ میں ڈگریوں کی تقسیم
تعلیم کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوا کرتی ہے اور ترقی یافتہ اقوام تعلیم کا زینہ چڑھ کر ہی آج بلندیوں کوچھوتی نظر آ رہی ہیں۔
علم پھیلانے کے طریقہ کار متفرق سہی لیکن اس کی اہمیت پر ہر قوم متفق ہے۔رسمی نظام تعلیم میں سکول اور کالج کے برعکس یونیورسٹی تحصیل علم کی وہ آخری منزل ہے' جس کے بعد طلباء اپنی عملی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے یونیورسٹیز کو نظام تعلیم میں خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ جامعات کی اہمیت کے بارے میں ایران کے جلاوطن دانش ور عبدالکریم سروش کہتے ہیں ''کسی بھی معاشرے میں حریت فکر کی پیمائش کا پیمانہ اس معاشرے کی جامعات ہوا کرتی ہیں اور اگر جامعات ہی میں حریت فکر کا راستہ مسدود ہوجائے تو پھر پورا سماج ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے''۔
وطن عزیز میں برسوں سے چلی آ رہی تعلیمی پسماندگی کو دیکھ کر معروف دانش ور کی یہ بات ہمارے نظام تعلیم اور اکثر جامعات پر بہت حد تک صادق آتی ہے۔ لیکن اس اندھیرے کے باوجود ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو جگنوئوں کی مانند کہیں کہیں ٹمٹماتے نظر آتے ہیں، جن کی موجودگی بلاشبہ ملکی نظام تعلیم اور بامقصد تعلیم کے فروغ میں مثبت کردار ادا کررہی ہے۔ ایسے ہی اداروں میں ایک جامعہ سرگودھا بھی ہے، جس سے پھوٹنے والی علم کی کرنیں آج ملک بھر کو روشن کر رہی ہیں۔
نومبر 2002ء میں (جب سرگودھا یونیورسٹی بنی) اس تعلیمی ادارے کی صورت میں طلوع ہونے والے سورج نے علم وتحقیق کے میدان میں ایسی روشنی بکھیری جس سے نہ صرف سرگودھا کے مضافات روشن ہوئے بلکہ اس سے وطنِ عزیز کے سائنس، زراعت، طب اور دیگر شعبوں میں انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ پونے تین سو کے قریب پی ایچ ڈی اور سوا دو سو ایم فل سمیت تقریباً ایک ہزار کے قریب ماہر اساتذہ کرام آج پنجاب بھر کی دوسری بڑی جامعہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ آج یہاں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات یونیورسٹی آف سرگودھا کی ڈگری تھامنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔
انہی روشن چہروں والے طلبہ کو ڈگریاں عطا کرنے کے لئے یونیورسٹی آف سرگودھا کے چوتھے کانووکیشن 2014ء کا انعقاد کیا گیا۔ کانووکیشن کے دن ہر شعبہ کے کام کرنے کا انداز انتہائی فقید المثال تھا اور پنڈال کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا۔ ایڈیشنل رجسٹرار مدثر کامران، ریذیڈنٹ آفیسر سیف الرحمان، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز اعجاز اصغر بھٹی،ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اینڈ پبلی کیشنز ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، پروفیسر طارق حبیب اور سیکیورٹی آفیسر ملک نذر نے تمام شعبوںاور طلبہ وطالبات کی نہ صرف راہ نمائی کی بلکہ انہیں بروقت ہدایات جاری کرتے رہے جس کے باعث کامیاب کانووکیشن کا انعقاد ممکن ہوا۔
مستقبل کے معمارانِ وطن اور وطنِ عزیز کے ہونہار ڈگری ہولڈر طلبہ وطالبات سے وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے نوجوان نسل بالخصوص طلباء وطالبات کو ایسی فکر، سوچ اور طرز عمل اپنانا چاہیے کہ جس سے ملک کو درپیش مسائل سے نہ صرف چھٹکارا حاصل ہو سکے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایسی شناخت ملے جس پر پوری دنیا رشک کرے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.4فیصدکی بجائے 4فیصد خرچ کرنا ایک نئی روشن صبح کی دلیل ہے اور اس اقدام سے نہ صرف جہالت کے اندھیرے ختم ہوں گے بلکہ پاکستان بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
انہوںنے کہا کہ تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو جدید تحقیق پر مبنی ایسا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو باصلاحیت اور ہنر مند افراد مہیا کرے اوراُس کا واحد حل اسی میں مضمر ہے کہ ہم سب اُن اعلیٰ مقاصد کے حصول کیے لئے تگ ودو کریں جو بانیِ پاکستان نے اس اسلامی فلاحی اور جمہوری مملکت کے متعین کئے تھے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدا کرم چوہدری نے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان طلبہ وطالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اس جامعہ کے سفیر ہیں جو 21 ویں صدی کے وژن کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وطنِ عزیز میں علم کی شمعیں روشن کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو جامعات دورِ حاضر کے تقاضوںکو مدنظرکھتے ہوئے علم پھیلا رہی ہیں وہی صف اول کی جامعات ہیں۔ یونیورسٹی آف سرگودھا خوشحالی بذریعہ علم و تحقیق کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے جس کو علمی سماجی اور سیاسی حلقوں میں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ سرگودھا میں اس وقت 27684طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں جو نظم وضبط اور اپنے کردار کے حوالے سے مثالی ہیں۔ ہر امتحان میں جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات کی کامیابی کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہوتا ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے سال 2012کے سالانہ اور سمسٹر امتحانات میں اوّل،دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو میڈلز اور نقد انعامات دئیے۔کانووکیشن میں 3308طلبہ وطالبات کو ڈگریاں دی گئیں، جن میں پی ایچ ڈی کے 7اور ایم فل کے 247طلبہ وطالبات بھی شامل ہیں۔کانووکیشن 2014میں بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف ماہر طب پروفیسر ڈاکٹر عیص محمد حاضرین کی دلچسپی کا موضوع رہے جنہوں نے 68 سال کی عمر میں تاریخ میں ایم اے کیا اور تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے ھشام فائق محمد عبد شاشا نے عربی میں ایم اے کیا اور پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اس موقع پر بیگم وائس چانسلر ریحانہ اکرم چوہدری، پرووائس چانسلر ڈاکٹر ظہورالحسن ڈوگر، رجسٹرار یونیورسٹی بریگیڈیئر(ر)رائو جمیل اصغر، ڈین فیکلٹی آف سائنس ڈاکٹرناظرہ سلطانہ، ڈین فیکلٹی آف ایگری کلچر ڈاکٹر محمد افضل، ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لاء ڈاکٹر رشید احمد، ڈین فیکلٹی آف بزنس اینڈ ایڈمنسٹریٹو وسائنسز ڈاکٹر مقبول حسین سیال، ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوریل سائنسز ڈاکٹر غلام یٰسین، ڈائریکٹر بھکر کیمپس ڈاکٹرموسیٰ کلیم، پرنسپل سرگودھا میڈیکل کالج ڈاکٹر محمد اشرف نیازی، پرنسپل ایگری کلچر کالج ڈاکٹر ظفراقبال، پرنسپل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج ڈاکٹر غلام یٰسین چوہان، پرنسپل لاء کالج ڈاکٹر عبدالرشید خان، کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد اقبال،سٹیشن ڈائریکٹر یونیورسٹی ریڈیو محمد ادریس مرزا،شعبہ جات کے صدور، انتظامی افسران اور طلباء وطالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔
rana.naseem@express.com.pk
علم پھیلانے کے طریقہ کار متفرق سہی لیکن اس کی اہمیت پر ہر قوم متفق ہے۔رسمی نظام تعلیم میں سکول اور کالج کے برعکس یونیورسٹی تحصیل علم کی وہ آخری منزل ہے' جس کے بعد طلباء اپنی عملی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے یونیورسٹیز کو نظام تعلیم میں خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ جامعات کی اہمیت کے بارے میں ایران کے جلاوطن دانش ور عبدالکریم سروش کہتے ہیں ''کسی بھی معاشرے میں حریت فکر کی پیمائش کا پیمانہ اس معاشرے کی جامعات ہوا کرتی ہیں اور اگر جامعات ہی میں حریت فکر کا راستہ مسدود ہوجائے تو پھر پورا سماج ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے''۔
وطن عزیز میں برسوں سے چلی آ رہی تعلیمی پسماندگی کو دیکھ کر معروف دانش ور کی یہ بات ہمارے نظام تعلیم اور اکثر جامعات پر بہت حد تک صادق آتی ہے۔ لیکن اس اندھیرے کے باوجود ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو جگنوئوں کی مانند کہیں کہیں ٹمٹماتے نظر آتے ہیں، جن کی موجودگی بلاشبہ ملکی نظام تعلیم اور بامقصد تعلیم کے فروغ میں مثبت کردار ادا کررہی ہے۔ ایسے ہی اداروں میں ایک جامعہ سرگودھا بھی ہے، جس سے پھوٹنے والی علم کی کرنیں آج ملک بھر کو روشن کر رہی ہیں۔
نومبر 2002ء میں (جب سرگودھا یونیورسٹی بنی) اس تعلیمی ادارے کی صورت میں طلوع ہونے والے سورج نے علم وتحقیق کے میدان میں ایسی روشنی بکھیری جس سے نہ صرف سرگودھا کے مضافات روشن ہوئے بلکہ اس سے وطنِ عزیز کے سائنس، زراعت، طب اور دیگر شعبوں میں انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ پونے تین سو کے قریب پی ایچ ڈی اور سوا دو سو ایم فل سمیت تقریباً ایک ہزار کے قریب ماہر اساتذہ کرام آج پنجاب بھر کی دوسری بڑی جامعہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ آج یہاں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات یونیورسٹی آف سرگودھا کی ڈگری تھامنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔
انہی روشن چہروں والے طلبہ کو ڈگریاں عطا کرنے کے لئے یونیورسٹی آف سرگودھا کے چوتھے کانووکیشن 2014ء کا انعقاد کیا گیا۔ کانووکیشن کے دن ہر شعبہ کے کام کرنے کا انداز انتہائی فقید المثال تھا اور پنڈال کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا۔ ایڈیشنل رجسٹرار مدثر کامران، ریذیڈنٹ آفیسر سیف الرحمان، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز اعجاز اصغر بھٹی،ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اینڈ پبلی کیشنز ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، پروفیسر طارق حبیب اور سیکیورٹی آفیسر ملک نذر نے تمام شعبوںاور طلبہ وطالبات کی نہ صرف راہ نمائی کی بلکہ انہیں بروقت ہدایات جاری کرتے رہے جس کے باعث کامیاب کانووکیشن کا انعقاد ممکن ہوا۔
مستقبل کے معمارانِ وطن اور وطنِ عزیز کے ہونہار ڈگری ہولڈر طلبہ وطالبات سے وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے نوجوان نسل بالخصوص طلباء وطالبات کو ایسی فکر، سوچ اور طرز عمل اپنانا چاہیے کہ جس سے ملک کو درپیش مسائل سے نہ صرف چھٹکارا حاصل ہو سکے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایسی شناخت ملے جس پر پوری دنیا رشک کرے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.4فیصدکی بجائے 4فیصد خرچ کرنا ایک نئی روشن صبح کی دلیل ہے اور اس اقدام سے نہ صرف جہالت کے اندھیرے ختم ہوں گے بلکہ پاکستان بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔
انہوںنے کہا کہ تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو جدید تحقیق پر مبنی ایسا نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو باصلاحیت اور ہنر مند افراد مہیا کرے اوراُس کا واحد حل اسی میں مضمر ہے کہ ہم سب اُن اعلیٰ مقاصد کے حصول کیے لئے تگ ودو کریں جو بانیِ پاکستان نے اس اسلامی فلاحی اور جمہوری مملکت کے متعین کئے تھے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدا کرم چوہدری نے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان طلبہ وطالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اس جامعہ کے سفیر ہیں جو 21 ویں صدی کے وژن کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وطنِ عزیز میں علم کی شمعیں روشن کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو جامعات دورِ حاضر کے تقاضوںکو مدنظرکھتے ہوئے علم پھیلا رہی ہیں وہی صف اول کی جامعات ہیں۔ یونیورسٹی آف سرگودھا خوشحالی بذریعہ علم و تحقیق کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے جس کو علمی سماجی اور سیاسی حلقوں میں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ سرگودھا میں اس وقت 27684طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں جو نظم وضبط اور اپنے کردار کے حوالے سے مثالی ہیں۔ ہر امتحان میں جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات کی کامیابی کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہوتا ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے سال 2012کے سالانہ اور سمسٹر امتحانات میں اوّل،دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو میڈلز اور نقد انعامات دئیے۔کانووکیشن میں 3308طلبہ وطالبات کو ڈگریاں دی گئیں، جن میں پی ایچ ڈی کے 7اور ایم فل کے 247طلبہ وطالبات بھی شامل ہیں۔کانووکیشن 2014میں بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف ماہر طب پروفیسر ڈاکٹر عیص محمد حاضرین کی دلچسپی کا موضوع رہے جنہوں نے 68 سال کی عمر میں تاریخ میں ایم اے کیا اور تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے ھشام فائق محمد عبد شاشا نے عربی میں ایم اے کیا اور پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔
اس موقع پر بیگم وائس چانسلر ریحانہ اکرم چوہدری، پرووائس چانسلر ڈاکٹر ظہورالحسن ڈوگر، رجسٹرار یونیورسٹی بریگیڈیئر(ر)رائو جمیل اصغر، ڈین فیکلٹی آف سائنس ڈاکٹرناظرہ سلطانہ، ڈین فیکلٹی آف ایگری کلچر ڈاکٹر محمد افضل، ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لاء ڈاکٹر رشید احمد، ڈین فیکلٹی آف بزنس اینڈ ایڈمنسٹریٹو وسائنسز ڈاکٹر مقبول حسین سیال، ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوریل سائنسز ڈاکٹر غلام یٰسین، ڈائریکٹر بھکر کیمپس ڈاکٹرموسیٰ کلیم، پرنسپل سرگودھا میڈیکل کالج ڈاکٹر محمد اشرف نیازی، پرنسپل ایگری کلچر کالج ڈاکٹر ظفراقبال، پرنسپل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج ڈاکٹر غلام یٰسین چوہان، پرنسپل لاء کالج ڈاکٹر عبدالرشید خان، کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد اقبال،سٹیشن ڈائریکٹر یونیورسٹی ریڈیو محمد ادریس مرزا،شعبہ جات کے صدور، انتظامی افسران اور طلباء وطالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔
rana.naseem@express.com.pk