معاشی استحکام اولین ترجیح
پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ جلد کر کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظور کرائے گا
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کی تمام شرائط پوری ہوگئی ہیں۔
سعودی عرب نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر جب کہ یو اے ای نے ایک ارب ڈالر دینے کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ جلد کر کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظور کرائے گا۔
بلاشبہ برادر اسلامی ممالک کی جانب سے امداد کے اعلان سے آئی ایم ایف کے نویں اقتصادی جائزے کی کامیاب تکمیل کی راہ ہموار ہوگئی، یہ خبر یقیناً ہماری معیشت کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے۔ پاکستان آج اہم موڑ پر ہے، معاشی استحکام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو موجودہ صورتحال میں مہنگائی پر قابو پانا، زرمبادلہ کی شرح کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے اور پٹرولیم مصنوعات پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
عید کی تعطیلات کے بعد روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ میں بھی استحکام رہنے کی توقع ہے، کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آنے کا امکان ہے جب کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں نے عید سے قبل ترسیلات زر میں زیادہ رقم گھر بھیجی۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشارکا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پاکستان خاصے مشکل حالات سے دوچار ہے، معیشت کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، سیاسی دھینگا مشتی اور عدالت میں سیاسی مقدمات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اس کا اثر انتظامیہ پر بھی پڑا ہے۔
اگر ہماری تمام حکومتوں نے وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا،آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی، ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجی کاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔
بہرحال ہم بہت سا وقت اور سرمایہ ضایع کر چکے ہیں۔ حکومت آج بھی کمزور آمدن والے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے راستے نکالتی نظر آتی ہے، جو لوگ زیادہ کماتے ہیں جن کے وسائل زیادہ ہیں حکومت ان سے ٹیکس لینے کے بجائے مالداروں کو سہولیات فراہم کرنے اور حکومتیں کم آمدن والے افراد پر مسلسل بوجھ ڈالتے رہنے کی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ آج بھی یہی منصوبہ بندی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے۔
ستم ظریفی ہے عالمی مالیاتی اداروں کو یاد کروانا اور زور دینا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس پر ٹیکس لگنا چاہیے اور کس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے۔ پاکستان، بہترین زرعی ملک ہے لیکن اس صلاحیت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا، لگ بھگ تیئس کروڑ لوگوں کا ملک ہے لیکن ہر دوسری چیز امپورٹ کرنے پر توجہ ہے اتنے بڑے ملک میں بہتر امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی نہ ہو، تو ہم کب تک بچ سکتے ہیں۔
بدقسمتی ہے کہ آج ہم کھانے پینے کی اشیا بھی باہر سے منگواتے ہیں۔ ڈالر کی اڑان اس وقت تک قابو میں نہیں آئے گی، جبتک ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو نہیں پایا جائے گا اور اس وقت تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ہر وقت قرض لینا یا اس کے لیے یقین دہانیوں کا بندوبست کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا، ہمیں ان حالات سے نکلتے ہوئے خود مختاری کی طرف جانا ہے۔ کمزور پاکستانی تو ہر دور میں قربانی دیتا رہا ہے یہ وقت مالداروں کی قربانی کا ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔
یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار و بدامنی ہو گی، جس سے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے مزید ابتری ہوگی،اگر عمران خان کو آیندہ چند دنوں میں گرفتار کیا گیا تو انتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے، نتیجتاً کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کیا تباہی مچ سکتی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقت ور بنایا جاسکتا ہے۔
زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں و کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انھیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے پانچ سالوں میں بہتر رجحانات و مارکیٹنگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کیے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھلوں و سبزیوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھنے اور ان کی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکے انھیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور مقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔
تیل و گیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
دیگر ممالک کے مقابلے ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔ اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ ہماری سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔ غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔
لازم ہے کہ حکومت و اپوزیشن تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کے لیے مربوط پالیسی تشکیل دیں اور ملکی ترقی کے لیے حل نکالنا چاہیے۔
معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔
2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آنے والا بجٹ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گروتھ وڈویلیپمنٹ پروگرام اہم ہے جو دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔ میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔
کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔
سعودی عرب نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر جب کہ یو اے ای نے ایک ارب ڈالر دینے کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ جلد کر کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظور کرائے گا۔
بلاشبہ برادر اسلامی ممالک کی جانب سے امداد کے اعلان سے آئی ایم ایف کے نویں اقتصادی جائزے کی کامیاب تکمیل کی راہ ہموار ہوگئی، یہ خبر یقیناً ہماری معیشت کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے۔ پاکستان آج اہم موڑ پر ہے، معاشی استحکام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو موجودہ صورتحال میں مہنگائی پر قابو پانا، زرمبادلہ کی شرح کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے اور پٹرولیم مصنوعات پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
عید کی تعطیلات کے بعد روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ میں بھی استحکام رہنے کی توقع ہے، کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آنے کا امکان ہے جب کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں نے عید سے قبل ترسیلات زر میں زیادہ رقم گھر بھیجی۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے لیکن اگر ملک سیاسی انتشارکا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت، ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پاکستان خاصے مشکل حالات سے دوچار ہے، معیشت کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، سیاسی دھینگا مشتی اور عدالت میں سیاسی مقدمات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور اس کا اثر انتظامیہ پر بھی پڑا ہے۔
اگر ہماری تمام حکومتوں نے وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا، غیر پیداواری اخراجات پر کنٹرول کیا ہوتا،آمدن اور اخراجات میں توازن رکھا جاتا، ٹیکس کا نظام بہتر بناتے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی، ریاست کے زیر انتظام پیداواری اداروں کی نجی کاری کے بجائے انھیں منافع بخش ادارے بناتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے۔
بہرحال ہم بہت سا وقت اور سرمایہ ضایع کر چکے ہیں۔ حکومت آج بھی کمزور آمدن والے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے راستے نکالتی نظر آتی ہے، جو لوگ زیادہ کماتے ہیں جن کے وسائل زیادہ ہیں حکومت ان سے ٹیکس لینے کے بجائے مالداروں کو سہولیات فراہم کرنے اور حکومتیں کم آمدن والے افراد پر مسلسل بوجھ ڈالتے رہنے کی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ آج بھی یہی منصوبہ بندی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت کام ہو رہا ہے۔
ستم ظریفی ہے عالمی مالیاتی اداروں کو یاد کروانا اور زور دینا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس پر ٹیکس لگنا چاہیے اور کس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے۔ پاکستان، بہترین زرعی ملک ہے لیکن اس صلاحیت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا، لگ بھگ تیئس کروڑ لوگوں کا ملک ہے لیکن ہر دوسری چیز امپورٹ کرنے پر توجہ ہے اتنے بڑے ملک میں بہتر امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی نہ ہو، تو ہم کب تک بچ سکتے ہیں۔
بدقسمتی ہے کہ آج ہم کھانے پینے کی اشیا بھی باہر سے منگواتے ہیں۔ ڈالر کی اڑان اس وقت تک قابو میں نہیں آئے گی، جبتک ڈالر کی اسمگلنگ پر قابو نہیں پایا جائے گا اور اس وقت تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ہر وقت قرض لینا یا اس کے لیے یقین دہانیوں کا بندوبست کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا، ہمیں ان حالات سے نکلتے ہوئے خود مختاری کی طرف جانا ہے۔ کمزور پاکستانی تو ہر دور میں قربانی دیتا رہا ہے یہ وقت مالداروں کی قربانی کا ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔
یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار و بدامنی ہو گی، جس سے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے مزید ابتری ہوگی،اگر عمران خان کو آیندہ چند دنوں میں گرفتار کیا گیا تو انتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے، نتیجتاً کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کیا تباہی مچ سکتی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقت ور بنایا جاسکتا ہے۔
زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں و کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انھیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے پانچ سالوں میں بہتر رجحانات و مارکیٹنگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کیے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھلوں و سبزیوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھنے اور ان کی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکے انھیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور مقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔
تیل و گیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
دیگر ممالک کے مقابلے ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔ اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ ہماری سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔ غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔
لازم ہے کہ حکومت و اپوزیشن تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کے لیے مربوط پالیسی تشکیل دیں اور ملکی ترقی کے لیے حل نکالنا چاہیے۔
معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔
2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آنے والا بجٹ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گروتھ وڈویلیپمنٹ پروگرام اہم ہے جو دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔ میثاق معیشت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔
کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔