فضائی آلودگی مسئلہ نہیں پھانسی کا پھندہ ہے
یہ بات درست ہے کہ آلودگی سے چھٹکارا پانے کے لیے جو رقم اور وسائل درکار ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں
کتنے لوگ جانتے ہیں کہ صاف اور صحت مند فضا میں سانس لینا بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور جو فرد، ادارہ یا ریاست اس حق کو پامال کرتے ہیں یا اس کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں وہ دراصل سنگین جرم کے مرتکب ہیں۔
جب آپ صنعتی و زرعی و کیمیاوی آلودگی، گاڑیوں اور کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں اور جنگل کی آگ سے پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ سے اٹی فضا میں سانس لیتے ہیں تو یہ زہریلے عناصر محض سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کو ہی نشانہ نہیں بناتے بلکہ رحم میں پلنے والے بچے کی جسمانی و ذہنی صحت پر بھی براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں ، بچپن اور لڑکپن کی جسمانی و ذہنی نشوونما اور پکی عمر کے لوگوں کی دماغی صحت اور یادداشت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ امپیریل کالج لندن کے ماحولیاتی ماہرین کی مرتب کردہ تازہ رپورٹ میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر شایع ہونے والے لگ بھگ پینتیسں ہزار مطالعات و مقالہ جات اور رائل کالج آف فزیشنز اور عالمی ادارہِ صحت سمیت موقر اداروں کی تحقیقی رپورٹوں کے اخذ کردہ مشترکہ نتائج کو یکجا کر کے ایک متفق علیہ رائے قائم کی گئی ہے۔
رپورٹ کا ایک نسبتاً نیا اور اہم نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جب ایک حاملہ خاتون کے سانس میں فضائی آلودگی کے ذرات شامل ہو کر سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں پہنچتے ہیں تو وہ رحم میں موجود بچے کی غذا کا بھی حصہ بن جاتے ہیں اور پیدا ہونے سے پہلے ہی بچے کی نامکمل جسمانی و ذہنی نشوونما آلودگی کی بھینٹ چڑھنے لگتی ہے۔گویا پیدائش سے پہلے ہی ناکردہ گناہوں کی سزا کا دورانیہ شروع ہو جاتا ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق سالانہ دو کروڑ بچے کم وزنی کی حالت میں جنم لیتے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں۔گویا یہ ساڑھے تین کروڑ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی ایک کمزور جسمانی مدافعتی بدنظمی کے نشانے پر آجاتے ہیں۔ چنانچہ پیدائش کے بعد ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
ماحولیاتی عذاب محض زچہ اور رحم میں پرورش پانے والے بچے کے لیے ہی روگ نہیں بنتا بلکہ فضائی آلودگی مردوں کے تولیدی مادے کی بنیادی قوت (اسپرم کاؤنٹس) پر بھی شدید منفی اثرات چھوڑتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے طفیل بھولنے کی بیماری (ڈیمنشیا) کے متاثرین میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔کم عمر بچوں کے پھیپھڑے پوری طرح نشوونما نہیں پا سکتے۔ نوعمری میں ہی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔یہ حقائق اب سے چند برس پہلے بہت حد تک ناقابلِ تصور تھے۔
امپیریل کالج آف فزیشنز کے محققین نے اس بابت نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نوزائیدہ بچہ جب عضلاتی نشوونما کے دوران مسلسل آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کے پھیپھڑوں کا حجم پانچ فیصد تک کم رہ جاتا ہے۔
چنانچہ جب وہ لڑکپن کی عمر سے آگے بڑھتا ہے تو اسے سانس کی بیماریوں اور پھیپھڑوں پر حملہ آور جراثیموں سے نارمل پھیھپڑوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔یہ نتیجہ آٹھ سے دس برس تک کے دو ہزار بچوں کے مسلسل طبی و جسمانی مشاہدے کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔
آلودہ فضا میں مسلسل زندگی گذارنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دمہ سمیت سانس کی مختلف بیماریاں ہونے کا امکان دگنا ہو سکتا ہے۔اور بیماری چونکہ تنہا آنے سے گھبراتی ہے لہٰذا دسراہٹ کے لیے وہ کم از کم کسی ایک اور بیماری یا متعدد جراثیمی سہیلیوں کو بھی مدعو کر لیتی ہے اور پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے '' لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا '' والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
آلودہ فضا میں پرورش پانے والے بچوں کا دل بھی مضر اثرات قبول کرنے سے باز نہیں آتا۔جب کہ ساٹھ برس سے اوپر کے افراد میں فالج کے امکانات بھی دوگنے ہو کے تلوار کی طرح لٹکتے رہتے ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کا اندازہ ہے کہ اس وقت ننانوے فیصد عالمی آبادی آلودہ فضا میں سانس لے رہی ہے۔اسموگ میں لپٹے شہروں کی تعداد کم ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ا سموگ محض آسمان پر ہی نہیں جمتا بلکہ گھروں کے اندر سال بھر میں جتنا دھواں پیدا ہوتا ہے وہ بھی اسموگ کی طرح جسمانی صحت تہہ و بالا کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس وقت لگ بھگ ڈھائی ارب افراد گھر میں پیدا ہونے والے اسموگ کا شکار بن رہے ہیں۔انھیں پھیپھڑوں، دل اور سرطان سے متعلق خطرات کا اتنا ہی سامنا ہے جتنا سامنا باقاعدہ سگریٹ نوشوں اور ان کے آس پاس کے تمباکو نہ پینے والوں کو درپیش ہے۔ماحولیاتی و گھریلو اسموگ سے ہر برس ستر لاکھ ایسے انسان مرتے ہیں جنھیں عام حالات میں اتنی جلد مرنے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت فضائی آلودگی کے سبب سب سے زیادہ خطرے میں جنوبی ایشیا کے باشندے ہیں۔ معیارِ زندگی کے اعتبار سے چوٹی کے پچاس ممالک کی فہرست میں بھلے ان ممالک کا نام نہ بھی ہو مگر فضائی آلودگی کی فہرست میں جنوبی ایشیا صفِ اول میں شامل ہے۔
دو ہزار بائیس کے آلودگی ڈیٹا کے مطابق لاہور فضائی آلودگی کی عالمی فہرست میں پہلے نمبر پر ، چینی شہر ہوتان دوسرے، بھارتی شہر بھیونڈی تیسرے اور پرانی دلی چوتھے نمبر پر ہے۔جب کہ پشاور پانچویں، دربھنگا اور آسو پور ( انڈیا ) چھٹے اور ساتویں ، ندجمینا (چاڈ ) آٹھویں ، نئی دلی اور پٹنہ نویں اور دسویں نمبر پر ہیں۔گویا پچاس آلودہ ترین شہروں کی عالمی فہرست میں بھارت کے سینتیس ، پاکستان کے چار ، بنگلہ دیش کا ایک (ڈھاکا ) اور چین کے دو شہر شامل ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ آلودگی سے چھٹکارا پانے کے لیے جو رقم اور وسائل درکار ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں اور اگر ہوں بھی تو یہ مسئلہ ہماری ترجیحاتی فہرست میں کہیں نچلے پائیدان پر ہے۔مگر جو قوانین اس وقت کتاب میں دفن ہیں اگر انھیں ہی زندہ کرنے کا کوئی بندوبست کر لیا جائے تو اضافی وسائل اور پیسے کا انتظار کیے بغیر بھی ماحولیاتی آلودگی کو کم از کم پچاس فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
جتنا پیسہ اس ماحولیاتی آلودگی سے (بذریعہ کرپشن) کمایا جا رہا ہے۔اس سے آدھے پیسے میں اسے قابلِ برداشت حد تک بھی لایا جا سکتا ہے۔
اگر کسی پالیسی ساز کو یہ غلط فہمی ہے کہ کھڑکیاں بند کرنے اور اے سی چلانے سے اس پر فضائی آلودگی اثرانداز نہیں ہو گی تو اسے نوید ہو کہ اس کا یہ لائف اسٹائل اتنا ہی بڑا پھانسی کا پھندہ ہے جتنا بڑا پھندہ اس وقت دھواں دھار سڑک پر چلنے والے انسان کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)